کشمیری خواتین اور بھارتی پولیس

کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شبانہ ایاز

غلامی کی زنجیروں میں جکڑے یہ اس کشمیر کی کہانی ہے جو گزشتہ 76 سال سے زخموں سے چور چور ہے ۔
کشمیر پر بہت کچھ لکھا جا چکا بہت کچھ پڑھا جا چکا ہے۔ ہم ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں ۔ بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ، قراردادیں پیش کرتے، جلسے جلوس نکالتے، تقریریں کرتے ہیں اور پھر پورے سال کے لئے خاموش ہوجاتے ہیں، کیونکہ ہم صرف بول ہی سکتے ہیں ، احتجاج ہی کرسکتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ظلم پر خاموش رہنا بھی ظلم کا ساتھ دینا ہے، لیکن اس مسئلے کو جن عالمی طاقتوں نے حل کرنا ہے وہ مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم ہوئے بھی چار سال کا عرصہ ہو چکا ہے ، جس کے باعث وادی میں خوف اور بے بسی کےعالم کے ساتھ ساتھ سرچ آپریشن ، عصمت دری کے واقعات اور شہادتیں ہیں۔ پچھلے 76 سال سے اقوام متحدہ اور عالم اسلام خاموشی کی چادر اوڑھے بے فکری کی گہری نیند سو رہے ہیں۔

ہزاروں کشمیری خواتین کوعصمت دری کے بعد ہلاک کردیا جاتا ہے لیکن عالمی ضمیر نہیں جاگتا۔ اور یہ صرف اس وقت جاگتا ہے جب اس کے پیش نظر اپنا مفاد ہوتا ہے جس کی ایک زندہ مثال نادیہ مراد ہیں جنھیں داعشکے لوگوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تو انہیں نوبل پرائز دے کر ان کے دکھوں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی گئی۔

آسیہ بی بی کو پاکستانی عدالتوں نے توہین رسالت کیس میں سزا سنائی تو یورپ کی مکمل مدد کے ذریعے سے اسے بحفاظت پاکستان سے نکال لیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیری خواتین کو اقوام متحدہ کے ویانا ڈیکلریشن اور سیڈا کے تحت خواتین کے لئے طے کردہ حقوق کے قابل کیوں نہیں سمجھا جاتا ؟؟؟

انسانوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں حتی کہ جانوروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ کیا بھارت کو کسی قانون اور قاعدے کا پابند نہیں بنایا جاسکتا؟

ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارت عالمی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے ، اس نے عالمی مبصرین اور غیر ملکی صحافیوں کا جموں و کشمیر میں داخلہ بھی بند کر رکھا ہے ۔ نیٹ سروس جزوی بحال اور تعلیمی ادارے مسلسل بند ہیں ۔ غذائی اجناس کی قلت سے دنیا نا واقف ہے ۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں بلکہ بھارتی فوج کا بسیرا ہے۔

بھارت گزشتہ 76 برس سے کشمیریوں کی جذبہ حریت کو کچلنے کیلئے مختلف حربے استعمال کر چکا ہے جس میں انسانیت سوز مظالم سرفہرست ہیں۔

ساؤتھ ایشین وائر نے اپنی جاری کردہ ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوج نے دوہزار سے زائد خواتین کو شہید کیا ۔جنوری 2001سے اب تک کم سے کم670سے زائد خواتین شہید ہوئیں۔1989ء سے اب تک 20ہزار کے قریب خواتین بیوہ ہوئیں۔

1989 میں حریت پسند جدوجہد شروع ہونے کے بعد سے کشمیر میں خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ، تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، معذور اور قتل کیا گیا۔ کشمیری خواتین دنیا میں بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہیں۔

کشمیری مزاحمتی رہنمائوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے سانحہ کنن پوش پورہ، اجتماعی عصمت دری اور سانحہ شوپیاں سمیت خواتین کے خلاف عصمت دری ، قتل اور انسانی حقوق کی پامالی کے دیگر واقعات کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ۔

فروری 1991 میں کپواڑہ کے کنن پوش پورہ میں بھارتی فوجیوں نے 100 سے زائد خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی جبکہ دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کو مئی 2009 میں شوپیاں میں وردی میں بھارتی اہلکاروں نے اغوا کیا ، زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد قتل کردیا جبکہ2018میں جموں کے علاقے کٹھوعہ میں 9 سالہ بچی آصفہ کی بھارتی پولیس اہلکاروں اور ایک ہندو پجاری نے اجتماعی عصمت دری کی تھی۔

گھنائونے فعل میں پوجا پاٹ کرنے والا بھی شامل تھا تو کم عمر لڑکے بھی ۔ اس پر ہی بس نہیں ہوئی زیادتی کرنے والوں نے تو جو کیا سو کیا، بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنمائوں نے ملزمان کے حق میں جلسے بھی کئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے۔ ایچ آر ڈبلیو کی ایک اور رپورٹ کے مطابق ، کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

القمر آن لائن کی ایک رپورٹ میں ایک اسکالر انجر سکجلس بائیک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈالتے ہیں یا بے دخل کر دیتے ہیں۔ ایک اور اسکالر شبھ متھور نے عصمت دری کو “کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر” قرار دیا ہے۔

فوجیوں کے کچھ انٹرویوز کے دوران میں اس سوال پر کہ انہوں نے مقامی کشمیری خواتین سے زیادتی کیوں کی ،بعض فوجیوں نے جواب دیا کہ کشمیری خواتین خوبصورت ہیں۔ بعض نے کہا کہ یہ غیر فیملی اسٹیشن ہے ۔ ایک سپاہی نے جواب دیا کہ اس نے بدلے میں ایک کشمیری خاتون کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ“ان کے مردوں نے اس کی برادری کی خواتین کے ساتھ بالکل ایسا ہی سلوک کیا۔

ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 8جولائی 2016کو کشمیری نوجوان برہان وانی کے قتل کے بعد سے سینکڑوں کشمیری نوجوان اور طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے گولیوں اور پیلٹ گنز کے استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں ۔

ان زخمیوں میں سے انشاء مشتاق اور افراء شکور سمیت کم سے کم 70بچے اور بچیاں بینائی کھو چکے ہیں جبکہ 18ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار اور 32سالہ نصرت جان کی بینائی جزوی طور پر متاثر ہوئی ۔

آزادی پسند رہنمائوں آسیہ اندرابی ، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت متعدد خواتین نظربند ہیں۔ جبکہ 3مارچ کو بھارتی تفتیشی ایجنسی، این آئی اے نے ایک نوجوان خاتون انشا طارق کو پلوامہ حملہ کیس میں گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جس پر حریت تنظیموں اور رہنمائوں نے شدید احتجاج کیا۔

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے

راقم کے مطابق مسئلہ کشمیر تب ہی حل ہو سکتا ہے جب ریاستی عوام کو بنیادی فریق تسلیم کر کے ان کی امنگوں کے مطابق اس کا حل تلاش کیا جائے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں