برہانی وانی کی تصویر کے ساتھ ایک نوجوان خاتون شمعیں جلا رہی ہے

جنت نظیر وادی کشمیر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ ملک ، شعبہ ابلاغ عامہ ، جامعہ کراچی

ننھی سدرہ بار بار دروازے تک جاتی اور پھر مایوس ہو کر واپس آجاتی ۔

” ماں ! بھائی کب آئے گا ؟ "

اس نے بےقرار ہوتی ماں کو اور بے قرار کردیا .ماں اپنی تمام رہی سہی طاقت جمع کر کے بولیں : ” بس ! آنے ہی والا ہوگا ، تم دعاکرو ، اللہ بچوں کی دعائیں ضرور قبول کرتے ہیں”۔

یہ سری نگر کے علاقے بارہمولہ کے ایک محلے کی داستان ہے جہاں 40 دن سے اب تک کرفیو نافذ تها۔ گھروں میں راشن ختم ہوگیا تھا ۔ بچے مائوں کی گودوں میں بلک رہے تھے ۔ گھروں میں درختوں کے خشک پتے اور خشک روٹیوں کے سواء کچھ نہ تھا ۔ مائیں بچوں کو گرم پانی میں آٹا اور مصالحے ملا کر ان کے پیٹ کی آگ بجھانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔باہر نکلنے کا مطلب موت تھا۔

ہر چوک اور چوراہے پر ہندو فوجیوں کی بھاری نفری جدید اسرائیلی اسلحہ اور بکتر بند گاڑیوں کےساتھ موجود تھی۔ وجہ وہی پاک بھارت میچ میں پاکستان کی کامیابی تھی ۔ بهارت کی پاکستان دشمنی کچھ اتنی بڑھی کہ گلی میں پاکستان کی جیت کا جشن مناتے معصوم بچوں کو بڑی بیدردی سے مارتے ہوئے بکتر بند گاڑیوں میں گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تاکہ علاقے میں خوف ہراس پھیل جائے اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصور ہوجائیں ۔

جب بچوں کی گرفتاریوں نے طوالت اختیار کر لی اور علاقہ مکینوں نے اپنے رہنمائوں کے توسط سے بار بار جا کر تھانوں میں رپورٹ کی تو بچوں کی رہائی کے اعلانات ہونے لگے لیکن یہ اعلانات ابھی تک عمل درآمد کے منتظر تھے .

گیارہ سالہ برہان بھی انہیں بچوں میں سے تھا ۔ والد کی شہادت کے بعد ماں نے اس کی تربیت میں اپنی طرف سے کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ وہ اسے بتاتی کہ میں نے تمہارا نام برہان کیوں رکھا۔ ہر کشمیری گھرانے کی طرح یہ گھر بھی برہان وانی سے شدید محبت رکھتا تھا ۔

سید علی گیلانی مرحوم اور حریت رہنماؤں نے اپنی انتھک محنت جدوجہد اور ولولے سے تحریک آزادی کشمیر میں جس محبت ، الفت اور اخوت کے ساتھ کشمیری نوجوانوں کو اپنا ہمنوا بنایا برہان وانی اس کی مثال تھا ۔ برہان وانی جیسے سینکڑوں نوجوان جسے بھارتی سرکار اپنے لیئے خطرہ سمجھتے ہوئے آئے روز شہید کر رہی ہے ان نوجوانوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ کشمیری عوام کی آواز اقوام عالم تک پہنچاتے سوشل میڈیا کی طاقت کو استعمال کرتے ۔ یہ معصوم نوجوان اپنی پاک دهرتی پر بھارت کے ناجائز تسلط کو آج تک تسلیم نہیں کرتے ۔

کشمیر کی آزادی کی تحریک ایک بار پھر برہان کے خون شہادت سے عروج پر پہنچ گئی تھی ۔ ایک ایک کشمیری آزادی اور پاکستان میں شمولیت پر مر مٹنے کو تیار تھا ۔ برہان کی شہادت نے آزادی کی تحریک میں نیا ولولہ پیدا کردیا تھا ۔ صرف مقبوضہ جموں کشمیر میں برہان کا جنازہ 50 بار پڑها گیا۔

8 جولائی کو شہید کیا جانے والا برہان شہادت کے بعد بھی بھارتی سرکار کو ناکوں چنے چبواتا رہا اور عین جوانی صرف 21 سال کی عمر میں8 جولائی 2016 انصاف اور اپنا حق مانگنے کی پاداش میں برہان وانی کو شہید کردیا گیا …

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

تعلیم کے دوران میں پوزیشن ہولڈر برہان مظفر وانی جن کے والد مقامی اسکول میں ریٹائر پرنسپل ہیں نے تحریک مزاحمت میں اس وقت شمولیت اختیار کی جب بھارتی فوج نے ان کے بھائی کو نشانہ بنایا تھا۔ کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کی نئی علامت کے طور پر سامنے آنے والے برہان نے حزب المجاہدین میں شمولیت کے بعد انٹرنیٹ کو بھارتی مظالم بےنقاب کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تھا ۔

برہان کے ساتھی جو ان کی طرح مختلف تعلیمی اداروں کے بہترین طلباء میں شمار ہوتے ہیں ، نے دنیا کو بھارت کا گھنائونا چہرہ دکھانے کے لیئے وڈیوز بنانے اور انہیں اپ لوڈ کرنے کے ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بھی بھرپور کام کیا ۔

بھارتی میڈیا نے ماضی میں کئے جانے والے پروپیگنڈا کے برعکس اس بات کا اقرار کیا کہ برہان اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان سے تربیت بھی حاصل نہیں کی لیکن وہ کشمیری مزاحمت کی مضبوط علامت بن کر سامنے آئے ہیں ۔ برہان کی شہادت کے بعد تحریک حریت آزادی کو جو نئی روح ملی تھی وہ اب کسی زور زبردستی کی پابند نہ تھی ۔

برہان کی والدہ بھی اسے برہان وانی جیسا بننے کے خواب دیکھتی وہ اپنی چھوٹی بیٹی سدرہ کو بھی تسلی دیتی اور اپنی ساتھی اور تحریک ازادی خواتین ونگ کی انچارج آمنہ اندرابی کے ساتھ گھر گھر جاکر لوگوں میں آزادی کا شعور اجاگر کرتی۔ انہیں ان کے حقوق کی آگہی دیتی ، ان کے جذبوں کو مہمیز دیتی ۔۔۔ کیونکہ وہ جانتی ہے ظلم کی سیاہ رات طویل تو ہو سکتی ہے لیکن رات کا مقدر ختم ہونا ہی ہوتا ہے ۔ ظلمت کی تاریکی میں امید کی شمعیں جلانا ہی سچے مومن کی نشانی ہے ۔

وہ اپنے بچوں کو بتاتی ہیں کہ

ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے

وہ شوہر کی شہادت کے بعدنا امید نہیں ہوئی بلکہ اس کے جذبے مزید جوان ہوگئے۔ کیونکہ وہ جانتی ہیں

یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی

دعا ہے کہ کشمیریوں کے حوصلے بلند رہیں اور انہیں جلد آزادی نصیب ہو ….

میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے ایک دن
ستم شعار سے تجھے چھڑائیں گے ایک دن

ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب کشمیر ، فلسطین اور دنیا میں مسلمان جہاں کہیں بھی قید میں ہیں ایک دن ضرور آزاد فضاؤں میں سانس لیں گے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں