عمران خان گرفتاری کے فورا بعد

عمران خان کیسے ہوئے گرفتار؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان رپورٹ

جب اسلام آباد کی سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے سابق وزیراعظم عمران خان کو کرپٹ پریکٹیسز کا مرتکب قرار دے کر تین سال قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ اور پانچ سال کے لیے کسی بھی عوامہ عہدے کے لیے نااہل قرار دے کر انھیں گرفتار کرنے کا حکم دیا تو اگلے بارہ منٹ میں لاہور پولیس کے اہلکارعمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک پہنچے، انھیں گرفتار کیا اوراپنے ساتھ لے گئے۔

اس دوران کیا ہوا؟

عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے جانے والی پنجاب پولیس کی ٹیم کے ایک رکن ڈی آئی جی انویسٹی گیشن عمران کشور نے سابق وزیرِ اعظم کی گرفتاری کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو اسلام آباد پولیس نے نہیں بلکہ لاہور پولیس نے گرفتار کیا تھا۔سابق وزیرِ اعظم کی گرفتاری کے وقت اسلام آباد پولیس کے اہل کار یا افسران لاہور میں موجود نہیں تھے۔

اُنہوں نے بتایا عمران خان کو گرفتار کرنے کا حکم اسلام آباد کی ایک عدالت کی جانب سے آئی جی اسلام آباد کو جاری ہوا تھا۔ جس پر اُنہوں نے محکمۂ داخلہ پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ سے رابطہ کیا اور عدالتی فیصلے پر عمل کے لیے کہا۔ بعدازاں محکمۂ داخلہ پنجاب نے آئی جی پنجاب سے رابطہ کیا اور اس طرح آئی جی پنجاب کے دفتر سے سی سی پی او لاہور سے عدالتی حکم پر عمل درآمد کرنے کے لیے کہا گیا۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے ڈی آئی جی آپریشن لاہور، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور اور ایس ایس پی سی آئئ اے لاہور زمان پارک پہنچے تو وہاں پولیس کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کے مطابق جب پولیس ٹیم عمران خان کو گرفتار کرنے اُن کے گھر پہنچی تو وہ سو کر اُٹھے تھے۔ گرفتاری سے قبل اُنہوں نے اپنے کپڑے تبدیل کرنے کے لیے وقت مانگا جو پولیس نے دے دیا۔ ان کے بقول جب پولیس عمران خان کو گرفتار کر کے لے جا رہی تھی تو راستے میں اُن سے پوچھا گیا کہ اُنہوں نے کھانا کھایا ہے۔ جس پر عمران خان نے نفی میں جواب دیا جس پر پولیس پارٹی نے اُنہیں کھانا کھلایا۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان غیر معمولی سیاسی طاقت سے کیسے محروم ہوئے؟

عمران خان آخری پتہ بھی غلط کھیل گئے، اب کیا ہوگا؟

وزیر اعظم عمران خان کی تدبیریں کیوں الٹ جاتی ہیں؟

عمران کشور کے مطابق گرفتاری کے وقت عمران خان کی اہلیہ بشرٰی بی بی کی جانب سے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ جب پولیس کی ٹیم نے عمران خان کو بتایا کہ وہ اُنہیں عدالتی حکم پر گرفتار کرنے آئے ہیں تو وہ پریشان ہو گئے۔ عمران خان کی گرفتاری کے وقت ایس ایس پی سی آئی اے کیپٹن ریٹائرڈ ملک لیاقت علی کے ساتھ کھینچی گئی تصویر پر اُنہوں نے کہا کہ یہ تصویر کسی نے بنا لی ہو گی، وہ کسی کو کیسے روک سکتے ہیں۔

دوسری جانب عمران خان کے ذاتی محافظ عمران خان کی گرفتاری کو ایک آپریشن کا نام دیتے ہیں۔ عمران خان کی حفاظت پر مامور افراد کی ٹیم کے سربراہ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گرفتاری کے وقت عمران خان کے گھر کو پولیس نے چاروں اطراف سے گھیرے میں لے لیا تھا اور گھر کی جانب آنے والے تمام راستے رکاوٹیں لگا کر بند کر دیے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پولیس کے کچھ اہل کار گھر کے عقبی راستے سے دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہوئے، باغیچے اور صحن میں جمع ہوئے۔ اتنے میں عمران خان کو پولیس کی اطلاع دی گئی۔ جس پر عمران خان نے کہا کہ کوئی بھی مزاحمت نہ کرے۔ وہ خود گرفتاری دے دیتے ہیں۔

سیکیورٹی ٹیم کے سربراہ نے بتایا کہ عمران خان اپنی متوقع گرفتاری سے باخبر تھے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں