بادبان-،-عبید-اللہ-عابد

باتیں کروڑوں کی، دکان پکوڑوں کی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مارگریٹ فولر انیسویں صدی کی ایک امریکی صحافی، نقاد اور متعدد کتابوں کی مصنفہ تھیں، ان کا ایک مختصر قول زریں بہت مشہور ہوا “Today a reader,  tomorrow a leader.” اس قول کو پلے باندھا تو ہمارے اقتدار پسند جرنیلوں نے، اسے نظرانداز کیا تو ہمارے آج کے سیاسی رہنماؤں نے۔

سنا اور پڑھا ہے کہ پاکستان میں سب سے پہلا اور سب سے طویل عرصہ تک مارشل لا لگانے والے جنرل محمد ایوب خان ابھی فوج کے سربراہ بھی نہیں مقرر ہوئے تھے کہ وہ دن رات کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھیں ایک ہی موضوع پر کتابیں پڑھنا پسند تھا کہ مملکت پر حکمرانی کیسے کی جاتی ہے۔

فوجی افسر ایوب خان کو خوب علم تھا کہ ایک فوجی کو سیاست میں کسی بھی سطح کی دلچسپی نہیں لینا چاہیے حتیٰ کہ  فوج میں سیاسی موضوع پر کتب کا مطالعہ بھی ممنوع ہے، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی فوجی افسران کو سیاست میں دلچسپی لینے سے سختی سے منع کردیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ فوجی افسر سیاسی موضوعات پر کتابیں پڑھتا ہی رہا۔

نتیجتاً قائد اعظم نے ایوب خان کی ٹرانسفر مشرقی پاکستان کردی اور سختی سے ہدایت کی کہ وہ اگلے ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا، اس مدت کے دوران بیج بھی نہیں لگائے گا۔ اس سزا کے باوجود یہ فوجی افسرحکمرانی اور سیاست کے موضوع پر لکھی گئی کتابیں چوری چوری پڑھتا رہا۔ اور کسی گہری تاریک رات میں کسی سیڑھی کی مدد سے اقتدار کی بلند و بالا منزل پر چڑھنے کی تیاری کرتا رہا۔

ایسا نہیں ہے کہ اس دور کے سیاست دان صاحبان مطالعہ نہیں ہوا کرتے تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک مثالیں موجود ہیں۔ لیکن 70 کی دہائی تک ہی ہمارے سیاست دان پڑھے لکھے تھے اور بس! اس کے بعد جنم لینے والے سیاسی رہنماؤں میں سے شاید ہی کوئی ہو جس کے معمولات میں باقاعدگی سے پڑھنا لکھنا شامل ہو۔  دور مت جائیے، ذرا آج کے سیاسی قائدین کا جائزہ لیجیے، کون ایسا صاحب ذوق نظر آتا ہے آپ کو؟

مجھے اب تک جن سیاسی رہنماؤں سے بھی گفتگو کا موقع ملا، انھیں ایک عام سا ناخواندہ سیاسی کارکن ہی پایا۔ ان سے تو بہتر 70کی دہائی کے عام سیاسی کارکن ہوا کرتے تھے، وہ صاحب مطالعہ ہوا کرتے تھے، ان کے فکر و تدبر اور مکالموں کا محور و مرکز نظریات ہوا کرتے تھے۔آپ جانتے ہی ہیں کہ نظریات کے پیچھے گہرا مطالعہ پوشیدہ ہوتا ہے۔

افسوس کہ آج ہمارے ہاں یہ کلچر نہیں ہے۔ آج کے سیاسی قائدین کی گفتگوؤں میں علمیت نہیں، خالی بڑھکیں ہی ہوتی ہیں۔ ان کی گفتگو سن کر وہ دکان دار یاد آتا ہے جس کی دکان پکوڑوں کی ہوتی ہے لیکن وہ باتیں کروڑوں کی کرتا ہے۔

علم سیاسیات کے بانی افلاطون کے مطابق صاحب علم اور صاحب عمل لوگ حکمران بننے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی فہم و فراست سے ریاست میں جہالت اور خود غرضی کا خاتمہ کر سکتے ہیں، یہ بے لوث حکمران ثابت ہو سکتے ہیں، ان کا مطمع نظر صرف انسانیت کی فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ یہ ایمانداری اور دیانت داری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں کیونکہ ریاست کے انفرادی اور اجتماعی مقاصد ان کے سامنے ہوتے ہیں۔

افلاطون کی فکر اور نظریہ کو علم سیاسیات کے پہلے باب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے جس میں افلاطون نے تفصیل سے بتایا ہے کہ ایک حکمران کو کیسے تیار ہونا چاہیے۔ وہ ایک فلسفی حکمران ہی کو آئیڈیل حکمران سمجھتا تھا۔ اس کے مطابق فلسفے اور علم سے انسان کے ذہن، صلاحیت، سیرت اور شخصیت کی بہترین تکمیل ہوتی ہے۔

ہمارے سیاست دان عموماً مغرب ہی کو اپنا سیاسی اور فکری قبلہ مانتے ہیں، وہاں کے کلچر کو اختیار کرتے ہیں، وہیں سے دانش حاصل کرکے اپنا سیاسی کاروبار چلانے کی کوشش کرتے ہیں، مغرب والوں ہی سے پوچھ کے پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں، انھی کی اجازت سے فیصلے کرتے ہیں۔ لیکن مغربی سیاست دانوں کی طرح پڑھ لکھ کر میدان سیاست میں قدم نہیں رکھتے۔ میدان سیاست میں قدم رکھ کر بھی پڑھنے لکھنے، سوچنے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔

ہمارے سیاست دان باراک اوباما نامی  امریکی سیاست دان سے تو خوب واقف ہوں گے۔ وہ امریکا کے چوالیسویں صدر رہے ہیں۔ وہ سن دو ہزار نو سے سن دوہزار سترہ تک ایوان اقتدار میں رہے۔ وہ نہایت دلچسپ آدمی ہیں۔ بہت سی خصوصیات کے مالک ہیں۔ موقع و محل ہوتا تو ان کا الگ سے تفصیلی تذکرہ کرتا جو ہمارے سیاست دانوں کے لیے چشم کشا ہوتا۔

سردست باراک اوباما کے مطالعہ کی عادت پر ہی بات کرتے ہیں۔ وہ ہرسال بتاتے ہیں کہ وہ اب کون کون سی کتابیں پڑھنے والے ہیں۔ امسال موسم گرما کے لیے انھوں نے سوشل میڈیا پر ایک چند کتب کا نام لیا۔ ان میں چھ ناول اور تین نان فکشن کتابیں تھیں۔ ان کی پیش کردہ فہرست میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی ایک سوانح King: A Life بھی شامل تھی۔ اس کے مصنف جوناتھن ایگ ہیں۔ یہ پہلی سوانح ہے جس میں کچھ عرصہ پہلے تک ایف بی آئی کی ڈی کلاسیفائی ہونے والی فائلز بھی شامل ہیں۔

اس سوانح عمری میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا باریک بین مفکر،  بہترین حکمت عملی کے خالق اور ایک پرعزم بنیاد پرست کے طور پر مفصل تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس سیاہ فام امریکی رہنما نے تاریخ کی سب سے بڑی کامیاب تحریکوں میں سے ایک کی قیادت کی۔ جس انداز میں اس تحریک نے جدوجہد کی اور پھر کامیابی حاصل کی، وہ اس کے بعد کی تمام تحریکوں کے لیے روشن مثال رہی۔ آنے والے وقتوں میں بھی لوگ اس سے سبق حاصل کرتے رہیں گے۔

اوباما کی فہرست میں ایک کتاب Poverty by America  بھی تھی۔ یہ ایک مشہور سوشیالوجسٹ میتھیو ڈیسمنڈ کی لکھی ہوئی ہے۔ انھیں اس کتاب پر متعدد ایوارڈز بھی ملے جن میں ’پلٹزر پرائز‘ بھی ہے۔ کتاب میں مصنف نے امریکا میں غربت کا احوال بیان کیا ہے۔ وہ نہ صرف امریکا میں غربت کے خاتمے کا ایک مکمل منصوبہ پیش کرتا ہے بلکہ پڑھنے والوں کو غربت کے خاتمے کی تحریک میں سرگرم کردار ادا کرنے پر بھی آمادہ کرتا ہے۔

باراک اوباما سن دو ہزار نو سے آج تک  ہر سال کتابوں کی ایسی ہی فہرست کتب شیئر کرتے ہیں۔ آج تک انھوں نے کون سی کتابیں پڑھیں اورمستقبل میں وہ کون سی کتابیں پڑھیں گے، گوگل سمیت کسی بھی سرچ انجن پر بہ آسانی یہ ساری فہرستیں مل سکتی ہیں۔ حقیقیت یہ ہے کہ مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب تک ہر سیاست دان مسلسل ایسی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے جو اس کے وژن کو وسیع کرتی ہیں، قوموں کے مسائل سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، ان مسائل سے نمٹنے کے لیے روشنی فراہم کرتی ہیں۔ بس! ایک ہمارے سیاسی رہنما ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انھیں سب پتہ ہے۔

جانے ہمارے سیاسی قائدین اب بھی صاحبان مطالعہ بننے کو تیار ہوں یا نہ ہوں، کیونکہ عادتیں جب پختہ ہوجائیں تو وہ آسانی سے تبدیل نہیں ہوتیں۔ مثلاً نہ پڑھنے لکھنے کی عادت۔ اس تناظر میں اب صرف عام سیاسی کارکنان ہی سے گزارش ہے کہ وہ جاننے کی کوشش ضرور کریں کہ دنیا بھر میں سیاسی قائدین کس قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ یقیناً یہ سرگرمی خاصی دلچسپ اور پرلطف ثابت ہوگی۔

ہمارے سیاسی کارکنوں کے لیے یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ جس معاشرے میں شرح خواندگی کم سے کم تر ہورہی ہو، مطالعہ کتب کی عادت مٹتی چلی جا رہی ہو، وہاں معاشی اور معاشرتی بحران تیزی سے سنگین سے سنگین تر صورت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ پھر یہ معاشرے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے انھیں کس چکر میں الجھا رہے ہیں؟ وہ آئی پی پیز سے ہونے والے معاہدوں کا متن بھی پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ وہ بس! ہر معاہدے پر آنکھیں بند کرکے انگوٹھا لگاتے ہیں۔ اور پھر ساری عمر کے لیے قوم کو پھنسا دیتے ہیں۔

آخر میں ایک سوال، کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے کتنے ارکان پارلیمان میں ہونے  والی قانون سازی سے آگاہ ہوتے ہیں؟ اس کے مسودوں کا مطالعہ کرتے ہیں؟ شاید ایک فیصد بھی نہیں۔ کیا ایسے معاشرے پکوڑوں کی ایسی دکان نہیں ہوتے جہاں کروڑوں کی باتیں ہوتی ہیں، صرف باتیں؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “باتیں کروڑوں کی، دکان پکوڑوں کی”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    بہت عمدہ ۔۔۔۔ واقعی یہ المیہ ہے۔۔۔۔ اگرچہ ہمارے المیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔۔۔ ان سب کا سبب رہ نماؤں اور عوام کی نا خواندگی ہے۔۔