مسلمان-خواتین-مصافحہ-کرتے-ہوئے

پیغام صبح: ’السلام علیکم‘ کے الفاظ کیسے محبت کی معراج بنتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مجموعہ احادیث ’زاد راہ‘ میں حدیث نمبر 170 میں ترغیب و ترہیب کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان درج ہے:

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ تم جنت میں’ نہ جا سکو گے جب تک مومن نہ ہو جاؤ۔ مومن نہیں بن سکتے جب تک تم آپس میں میل ملاپ اور محبت نہ رکھو۔ اور کیا میں بتاؤں کہ آپس میں محبت کیسے پیدا ہوگی؟ آپس میں سلام کو  پھیلاؤ (رواج  دو)‘۔

اخلاص نیت اللہ تعالیٰ سے تعلق کا مظہر ہے اور نماز اس تعلق کی عملی شکل ہے۔ دن میں پانچ بار اللہ سبحانہ وتعالٰی سے ملاقات مومن کے ظاہری و باطنی پاکیزگی کے احساس کو زندہ رکھتی ہے۔ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی فرمانبرداری کے ثبوت پیش کرنے والا اپنے معاملات سے کیسے غافل ہو سکتا ہے۔  

اور ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک اللہ کے بندوں سے معاملات درست نہ ہوں۔  باہم مومنوں کے ایمانی اخلاق، غیرمسلم افراد اور اقوام کے لیے ایک مثبت پیغام ہوتے ہیں۔ اسی لیے مسلمانوں کو آپس کے تعلقات مثالی بنانے کے لیے پہلا عمل یہ سکھایا گیا ہے کہ ’آپس میں سلام کو رواج دو یا کثرت سے سلام کرو‘۔

سلام کی اہمیت، اس کی عظمت اور بھی بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔ پہل کرنے والے کو زیادہ نیکیاں ملتی ہیں۔ فرشتے دعا کرتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرز عمل سلام کی کثرت اور اس کو پھیلانے کے معاملے میں یہ تھا کہ دو لوگ ساتھ چلتے چلتے کسی درخت یا دیوار کی وجہ سے الگ ہوتے تو دوبارہ ساتھ ملنے پہ ایک دوسرے کو سلام کرتے۔ چونکہ وہ جانتے تھے کہ سلام کرنے سے ایک دوسرے سے محبت بڑھتی ہے۔

دنیا نے دیکھا کہ صحابہ کرام جیسی محبت تاریخ کے کسی دور میں نہیں ملتی۔۔۔ صحابہ کرام امت مسلمہ کے سامنے طاعت و فرماں برداری کے نمونے تھے۔۔۔ تاکہ امت مسلمہ جان لے کہ اس دنیا کے ہی انسان ہر فرمان رسول پہ عمل کر سکتے ہیں۔ سلام کرنے میں ایسا کیا جادو ہے کہ آپس میں شیر و شکر کی طرح گھل مل جائیں۔

پہلی بات یہ کہ دل میں اخلاص ہے، کھوٹ نہیں ہے۔ اللہ کی محبت میں ملنا ہے۔ اللہ کے فرمان پہ عمل کرنے کا جذبہ ہے۔ سلامتی کی ایسی دعا ہے کہ السلام علیکم صرف لفظ نہیں ہیں بلکہ قلب کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ میری طرف سے آپ بے فکر رہیں، مجھ سے آپ کی عزت آبرو، جان، مال کو کوئی خطرہ نہیں۔ میری آنکھوں کان زبان ہاتھ اور میرے ارادے صرف آپ کی خیر اور سلامتی چاہتے ہیں اللہ کی رحمت اور برکت سے آپ کی دنیا اور آخرت کامیاب ہو۔ میرے قلب و ذہن میں آپ کے لیے خیر خواہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جب مسلمان زیادہ سے زیادہ یہ دعا معاشرے میں پھیلا دیں گے تو شیطان اپنے سارے حربے استعمال کر کے بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

آج ہمارے دل ایک دوسرے سے دور ہیں۔ محبتوں اور خلوص کا فقدان ہے۔ خیر خواہی کا جذبہ ختم ہے۔ اگر کہیں ہے تو یک طرفہ ہے۔ دوسرا خیر خواہی قبول نہیں کرتا۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ محبتوں کو پروان چڑھانے والا عمل خلوص سے خالی ہے۔ محض الفاظ ہیں جو عادتاً ایک دوسرے کے سامنے دہرا دیے جاتے ہیں۔ محض زبان سے لفظ ادا کرنے سے دل میں حرارت کیسے پیدا ہو؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کی گہری بصیرت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ چلتا پھرتا قرآن تھے اور صحابہ کرام اس قرآن ناطق کے سچے پیروکار تھے، سلام کو رواج دے کر محبت کی معراج کو پا گئے اور یہ اعزاز حاصل کر لیا کہ ’رضی اللہ عنھم‘ کی خوشخبری دنیا ہی میں سن لی۔

ہم اپنے دلوں کی حالت کا جائزہ لیں کہ سلام کرنا ہمارا محض رواج اور کلچر ہے یا سلام کرنا دل کی گہرائیوں سے دعا دیناعبادت ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں