پھول

پیغام صبح: حیا کی فضیلت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بخاری ومسلم کی معروف حدیث سے ہم سب واقف ہیں ’الحیاء شعبة من الایمان‘ یعنی ’حیا ایمان کی ایک شاخ ہے..‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور معروف حدیث ’موطا‘ میں ملتی ہے ’ہردین کی کوئی بنیادی صفت ہوتی ہے جو اس کے ہر پہلو پہ غالب رہتی ہے۔ اسلام کی صفت جو ہر پہلو پہ غالب ہے وہ ’حیا‘ ہے‘۔

الحاکم ترغیب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ’حیا‘ کی مزید وضاحت کرتی ہے ’حیا اور ایمان دونوں باہم ملے جلے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں۔ ایک چلا جائے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے‘۔

حیا کا احساس انسان کے دل میں اجاگر رہے تو وہ حقوق الله اور حقوق العباد میں جان بوجھ کر کوتاہی نہیں کرتا۔ حیا دراصل اس وفاداری کا نام ہے جو شرف انسانی کو ودیعت کی گئی ہے۔ جو وفا اس معاہدے اور وعدے سے جڑی محسوس ہوگی جس کو ’عہد الست‘ کہا گیا ہے تو اپنی زندگی کا ہر پہلو اسی عہد کو وفا کرنے کی طرف مائل ہوگا اور احسن تقویم ہونے کے ناتے وہ اس عہد سے منہ موڑنے پہ حیا محسوس کرے گا۔

انسان کا اپنے رب سے ناتا ہو یا باہم انسانوں کے درمیان رشتے ناتے، میل جول، لینا دینا سب لحاظ، مروت، وفا کے مرہون منت ہیں جس کا دوسرا نام حیا ہے۔ اسی طرح یہ حیا افکار و خیالات سے شروع ہوکر اعضاء و جوارح تک پہنچتی ہے۔

بخاری شریف کی ایک اور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دراصل ہر بھلائی کا سرچشمہ حیا ہے۔ یعنی حیا خیر کے سوا کچھ نہیں لاتی۔ اور ہم سب اس سے بھی واقف ہیں کہ جب کوئی حیا نہ کرے تو پھر اس سے ہر قسم کی برائی متوقع ہے۔

حیا کا مادہ ہی انسان اور جانور میں فرق واضح کرتا ہے۔ ہر تہذیب کےسارے قواعد و ضوابط اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حیا اس کی فطرت میں رکھی گئی ہے۔ اور شرف انسانی کی یہی ایک بنیادی وجہ ہے۔ معاملات کی دیانت کو بھی حیا کہتے ہیں اور نگاہ کی دیانت بھی اسی کے تحت آتی ہے۔ جس پہ آپ نگاہ ڈالنے کے مجاز نہیں وہ کیوں ڈالیں؟ جس مال کو لینے کے آپ حقدار نہیں، جس زندگی کے آپ مالک نہیں اس پہ بے جا تصرف یا اپنی مرضی سے تصرف کرنا بد دیانتی بد لحاظی اور سراسر بے حیائی ہے۔ جس کو اپنے رب الرزاق کے ساتھ بے مروتی، بد لحاظی، بے ایمانی، بد عہدی کا خوف نہیں۔ اس الله  الخالق  سے حیا نہیں آتی تو وہ اپنے آپ سے کیا حیا کرے گا یا اپنے جیسے انسانوں سے کیا حیا کرے گا؟

یہ جو ہم دن رات بے حیائی کا رونا روتے ہیں، اس کی بنیاد دراصل اپنے رب سے غافل ہونا ہے۔ اپنے پیارے رب کو بھلا دینا ہے تو پھر رب اس بے مروت بے حیا بندے کو اس شرف انسانی کا احساس بھلا دیتا ہے جو انسانوں کو عطا کیا گیا ہے۔ ایسا بندہ اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ہے جس کو اپنا شرف، اپنی عزت، اپنا وقار، اپنی اہمیت بھول گئی ہو، اس کا ہاتھ شیطان پکڑ لیتا ہے۔ اور اس کو ان راہوں پہ گھسیٹتا پھرتا ہے جس کا انجام رسوا کن عذاب سے کم نہیں ہوتا۔

بے حیائی کے سارے کام وہ خلوت میں ہوں یا جلوت میں ابتدائی مرحلے میں ہوں یا انتہائی مرحلے میں سب اللہ تعالی نے حرام کر دیے ہیں۔ جب اللہ تعالی کے حرام کردہ امور کو اجتماعی طور پہ قبول کر لیا جاتا ہے تو مختلف طریقوں سے لوگوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ اللہ رب العزت کے غضب سے بچنے کی فکر کریں۔ جب اجتماعی ماحول میں بے حیائی پھیل جائے اور حدود پار کر لی جائیں تو تنبیہات سے بھی بے حس اور غافل کر دیے جاتے ہیں۔ یہ بھی عذاب کی ایک قسم ہے۔ ( ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ فانساھم انفسھم اولئک ھم الفسقون۔)

غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ انفرادی یا اجتماعی طور پہ ہم بے حس، اپنے آپ سے غافل تو نہیں کر دیے گئے۔ اللھم اھدنا صراط المستقیم۔

اللہ تعالی ہمیں  بے حیائی فواحش و منکرات سے بچائے اور اپنے نفس سے غافل نہ کرے۔ آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں