بھگت سنگھ

بھگت سنگھ، آزادی کے عظیم ہیرو کی حیات و نظریات اور جدوجہد پر ایک نظر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

23 مارچ 1931کا دن ہے۔ برصغیر کی تحریک آزادی کے عظیم ہیرو بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں سکھ دیو سنگھ اور راج گرو کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ قربان گاہ کی طرف جاتے ہوئے بھگت سنگھ :اور ان کے ساتھی بڑی شان بے نیازی سے گا رہے ہیں

دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت

میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی

پھانسی گھاٹ پہنچنے پر بھگت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو چوما اور اپنے گلے میں ڈال لیا۔ برصغیر کی آزادی کا یہ پنجابی ہیرو صرف 23 سال کی عمر میں وطن پر نثار ہوگیا۔ ان کے بعد ان کے دونوں ساتھیوں کو ۔بھی پھانسی دے دی گئی۔

بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907 کو جڑانوالہ فیصل آباد کے گاؤں بنگہ میں پیدا ہوئے۔ 1921 میں سکول سے فراغت حاصل کرنے کے بعد نیشنل کالج میں داخل ہوئے۔ وہ سوشلسٹ نظریات سے متاثر تھے۔ طبقاتی اونچ نیچ سے پاک معاشرہ ان کا خواب تھا۔ جلیانوالہ باغ اور عدم تعاون تحریک کے قتل عام نے بھگت سنگھ کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا ۔ ان کے والد کشن سنگھ اور چچا اجیت سنگھ دونوں غدر پارٹی کے ممبر تھے۔ دونوں انقلابی ۔بھگت سنگھ کی پیدائش کے دن جیل سے رہا ہوئے تھے

بھگت سنگھ تعلیم میں بہت نمایاں تھے۔ انہیں اردو ، ہندی، پنجابی ، گورمکھی ، سنسکرت اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

1924میں گھر والوں کی طرف سے ان پر شادی کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ عدم اتفاق پر وہ لاہور سے اپنا گھر چھوڑ کر کانپور چلے گئے جہاں انہوں نے مشہور آزادی پسند گنیش شنکر ودیارتھی کے ہفتہ وار اخبار ’پرتاپ‘ میں کام شروع کردیا۔ بھگت سنگھ ’بلونت‘ کے عنوان سے مضامین لکھتے تھے۔

کانپور میں ان کی آزادی پسندوں بٹو کیشور دت ، شیو ورما اور بی کے سنہا سے ملاقاتیں ہوئیں۔

اجے گھوش نے اپنی کتاب ’بھگت سنگھ اینڈ ہز کامریڈز‘ میں لکھا ہے کہ بٹو کیشور دت سے ملاقات کے وقت وہ دراز قد اور دبلے پتلے تھے۔ وہ بہت خاموش طبع لیکن پڑھے لکھے دکھائی دیتے تھے۔ ابتدا میں ان کے اندر زیادہ خود اعتمادی نہیں تھی لیکن دو سال کے عرصے میں ان کے اندر زبردست تبدیلی آئی۔ وہ بہت اچھے مقرر بن گئے۔ وہ ایسی طاقت ، جذبے اور خلوص کے ساتھ تقریر کرتے تھے کہ لوگ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔

بھگت سنگھ 1924 میں ہندوستان ریپبلیکن ایسوسی ایشن کے رکن بنے۔ چندر شیکھر آزاد ان کے لیڈر تھے۔

1927 میں کاکوری واقعے کی حمایت میں مضمون لکھنے کی پاداش میں انھیں پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ ان پر لاہور میں دسہرہ میلے میں بم دھماکے کا بھی الزام تھا۔ جیل میں اچھے چال چلن کی بنیاد پر انہیں دو سال بعد رہا کردیا گیا۔ اسی سال سائمن کمیشن ہندوستان آیا۔ لالہ لاجپت رائے نے کمیشن کی شدید مخالفت کرتے ہوئے احتجاج کی کال دی۔ احتجاج کے دوران ایس پی پی جے اسکاٹ نے لاٹھی چارج کا حکم دیا جس کے نتیجے میں لالہ لاجپت رائے شدید زخمی ہوکر گر پڑے اور 17 نومبر کو ان کی وفات ہوگئی جس سے ہندوستان میں شدید بے چینی پھیل گئی۔

10 دسمبر کو لاہور میں درگا دیوی کی صدارت میں ملک بھر کے انقلابیوں کی میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ طے پایا کہ بھگت سنگھ ، سکھ دیو اور چندر شیکھر ایس پی پی جے اسکاٹ کے قتل کے منصوبے میں حصہ لیں گے۔ بھگت سنگھ نے اسکاٹ کلڈ کے عنوان سے ایک پوسٹر تیار کیا جو بعد میں ان کے خلاف بطور گواہی بھی استعمال ہوا۔

ایس پی اسکاٹ کی مخبری کے لیے ایک انقلابی نوجوان جے گوپال کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ جے گوپال نے اسکاٹ کو کبھی دیکھا نہیں تھا۔ وقوعہ کے روز اسکاٹ چھٹی پر تھا لیکن ایک دوسرا ایس جسٹنٹ ایس پی جے پی سینڈرس تھانے سے باہر نکلا تو اسکاٹ کے شبے میں بھگت سنگھ کے ساتھ پہلے سے تاک میں موجود راج گرو نے جرمن ماؤزر سے اس پر فائرنگ کردی۔ بھگت سنگھ نے اصل ٹارگٹ نہ ہونے کی وجہ سے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔

وقوعہ کے بعد پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق بھگت سنگھ اور راج گرو ڈے اے وی کالج کی طرف بھاگ گئے۔ اس دوران ایک کانسٹیبل چنن سنگھ نے ان کا پیچھا کیا۔ بھگت سنگھ اور راج گرو کے کور پر مامور چندر شیکھر آزاد نے اسے منع کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ باز نہیں آیا تو راج گرو نے اسے بھی فائر مار کر قتل کردیا۔ اس منظر کو کالج کے بہت سے طالب علموں نے دیکھا۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض بھی ان میں سے ایک تھے۔

چندر شیکھر آزاد

ایس پی سینڈرز کے قتل کے بعد لاہور میں نقل و حرکت انتہائی مشکل ہوگئی تھی۔ بھگت سنگھ بھیس بدل کر راج گرو اور درگا دیوی کے ہمراہ لکھنؤ چلے گئے جہاں چند دن گزارنے کے بعد وہ آگرہ چلے گئے۔ آگرہ میں انہوں نے کرائے پر دو مکان حاصل کیے جہاں دیگر ساتھیوں کے ساتھ ان کی میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ میں جائزہ لیتے ہوئے قرار دیا گیا کہ ایس پی سینڈرز کے قتل کا مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہو سکا۔

انہی دنوں اسمبلی میں پبلک سیفٹی بل پیش کیا گیا جس میں حکومت کو بغیر مقدمہ چلائے کسی بھی شہری کو گرفتار کرنے کا حق دیا جارہا تھا جبکہ دوسرے بل میں ٹریڈ یونین کی ہڑتال پر پابندی عائد کی جارہی تھی۔

8 اپریل کو بھگت سنگھ اور بٹو کیشور دت خاکی شرٹس اور شارٹس پہنے مرکزی اسمبلی کی گیلری میں پہنچے۔ اس وقت وٹھل بھائی پٹیل ، قائد اعظم محمد علی جناح اور موتی لعل نہرو جیسے قدآور لیڈر اجلاس میں موجود تھے۔ بھگت سنگھ نے بڑی احتیاط سے اس جگہ بم بلاسٹ کیا جہاں اسمبلی کا کوئی رکن موجود نہیں تھا جبکہ بٹو کیشور دت نے دوسرا بم بلاسٹ کیا۔ اراکین اسمبلی نے ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے لگائے۔ اس دوران گیلری سے ’ بہروں کو سنانے کے لیے اونچی آواز کی ضرورت ہوتی ہے ‘ کے عنوان سے پمفلٹ پھینکے گئے۔

بھگت سنگھ جیل میں

بھگت سنگھ اور بٹو کیشور نے موقع سے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی نہ ہی انہوں نے کوئی مزاحمت کی لہذا انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت ان کے پاس وہی ماؤزر موجود تھے جن سے سینڈرز کو قتل کیا گیا تھا۔ تفتیش کے لیے انہیں مختلف تھانوں میں رکھا گیا۔ بٹو کیشور دت کو عمر قید جبکہ بھگت سنگھ ، راج گرو اور سکھ دیو کو سینڈر قتل کیس میں موت کی سزا سنائی گئی۔ سزاؤں پر عملدرآمد کے لیے 24 مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی لیکن انگریز سرکار پر خوف کا عالم یہ تھا کہ انہیں ایک دن پہلے ہی 23 مارچ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔

پھانسی کے اگلے روز لاہور میں زبردست ہڑتال کی گئی۔ ان کی یاد میں نیلا گنبد سے انار کلی تک تعزیتی جلوس نکالا گیا۔ تین کلو میٹر طویل جلوس میں ہزاروں سکھ، ہندو اور مسلمان مرد و خواتین شامل تھے۔ مردوں کے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں بندھی ہوئی تھیں جبکہ خواتین سیاہ لباس پہنے ہوئے تھیں۔ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ مولانا ظفر علی خان نے اس جلوس میں نظم پڑھی تھی۔ جیل وارڈن چرت سنگھ اپنے کمرے میں جاکر روتا رہا۔

چرت سنگھ کے مطابق اس نے اپنے تیس سالہ کیرئیر میں کئی مجرموں کو پھانسی لگتے دیکھا لیکن بھگت سنگھ ، راج گرو اور سکھ دیو کی طرح شان سے پھانسی چڑھتے کسی کو نہیں دیکھا تھا۔

بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی موت کے 16 سال 4 ماہ اور 23 دن بعد ہندوستان آزاد ہوا بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی قربانی مذاہب سے بالاتر ہوکر خالص برصغیر کی آزادی کی خاطر تھی۔

بدقسمتی یہ ہے کہ آزادی کے ہیروز کی قربانیوں کو طاق نسیاں کی طرف دھکیل کر دھندلا دیا گیا جبکہ خطے کے تمام غدار عزت والے مقامات پر فائز ہیں۔ شاید یہی وہ جرم ہے جس کی پاداش میں آزادی حاصل کرنے باوجود آج بھی ہم غلاموں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “بھگت سنگھ، آزادی کے عظیم ہیرو کی حیات و نظریات اور جدوجہد پر ایک نظر”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    بہت عمدہ تحریر ۔۔۔ بگھت سنکھ کا بھرپور تعارف، کارنامے۔۔۔۔ تحریر کا حاصل آخری حصہ ۔۔ہیروز کی قربانیوں کو دھند لا دیا گیا۔۔اور غدار وطن عزت والے مقام پہ فائز ہیں۔۔۔ یہی ہماری بد قسمتی ۔۔۔۔۔۔۔