ایران میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی کہانی کا تنقیدی جائزہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جواد حسین:
چند روز قبل جناب پروفیسر انجنیئر محمد ہارون بخاری کی تحریر نظر سے گزری کہ جس میں محترم قبلہ پروفیسر صاحب نے بڑے دلچسپ انداز میں ایران میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی کہانی بیان فرمائی جو کہ یقینناً علم وآدب سے خالی اورکسی حد تک خیا لی کہانی محسوس ہو رہی تھی۔

کہانی کے آغاز سے اختتام تک محترم نے کئی بلند و بانگ دعوے کیے کہ جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آ رہا تھا مگر چونکہ محترم پروفیسر صاحب کے قلم سے لکھا گیا تھا اس لیے اس میں فکشن، ڈرامائی اور جا سوسی انداز کافی حد تک غالب محسوس ہو رہا تھا۔ البتہ نہایت آدب سے عرض ہے کہ پروفیسر صاحب انتہائی معتبر اور قا بلِ صد احترام شخصیت ہیں اور یقیناً ایران اور اس کے سیاسی نظام پر گہری نظر بھی رکھتے ہوں گےاس کے باوجود چند نکات جو انہوں نے تحریر فرمائے اُن کو عقل تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔

اگرچہ تحریر میں بہت دلچسپ انداز اختیار کیا گیا تھا، اس کے باوجود اس میں حقا ئق کو مسخ کر کے پیش کرنے کی کوشش کے علاوہ منفی انداز اختیار کیا گیا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ صحافت میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکالمے اور ان کو چیلنج کر نے کی گنجائش بہت کم ہے اور اس کسی بھی تحریر کا جواب لکھنا بھی کسی روایت میں نہیں ملتا پھر بھی میں اس تحریر کے ساتھ صحافت کی دنیا میں شاید ایک نئے باب کا آغاز کرنے جا رہا ہوں۔

اگر اس سے قبل ایسی کوئی روایت یا اسلوب موجود ہے تو میں اپنی کم علمی کو قبول کرنے میں کو ئی عار محسوس نہیں کروں گا۔ اس تحریر میں اختلافی نکات درج کرنے سے قبل میں پروفیسر ہارون کے مقا بلے میں اپنی کم علمی کا مگر تنقیدی انداز میں مہارت کا اقرار بھی کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں اور قارئین کو پہلے ہی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں نہ ایرانی حکومت کا کوئی نمائندہ ہو ں اور نہ ہی ان سے کسی طرح کا تعلق ہے۔

میں اتحاد بین المسلمین کا داعی ہوں اس لیے کسی بھی طبقہ کے خلاف بے جا تنقید کو پسند نہیں کرتا ۔ اس لیے بھی کہ میں ایک ریسرچر بھی ہوں اور ملکوں کی سیاست اور اُن کے سیاسی نظام کا مشاہدہ بڑے قریب سے کرتا ہوں۔ بس شاید اسی لیے اس تحریر کا جواب لکھ رہا ہوں جو کہ میری اپنی ذاتی خواہش ہے۔ میں اس تحریر میں ایرانی موقف پیش نہیں کر رہا ، یہ میرا اپنا علمی تجزیہ ہے کہ جس سے ہر کسی کو اختلاف کا پورا حق حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیے:
ایران میں کورونا کے پھیلاؤ کی کہانی، حیرت انگیز تفصیلات

پروفیسر صاحب نے ایران کے نظام کا حوالہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ

(ایران میں سب سے طاقتور سیاسی اور سماجی طبقہ شیعہ علماء، آیت اللہ اور ان کے مفتیان ہیں ۔ ولایتِ فقیہہ کے تصور کے تحت رہبر آیت اللہ خامنہ ای ایران کی سب سے طاقتور شخصیت ہیں ، صدر اور پارلیمینٹ بھی ان کے تابع ہوتی ہے ۔ پارلیمینٹ کے زیادہ تر ممبر بھی مذہبی طبقہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔)

مندرجہ بالا پیرا گراف میں کچھ حد تک ایران کے سیاسی نظام کے حوالے سے پروفیسر صاحب نے درست فرمایا مگر یہاں اُنہوں نے ایران میں شوریٰ کے تصور کو یکسر نظر انداز کر دیا – ایران کا سارا سیاسی نظام ایک مضبوط شورائی نظام کے ساتھ چل رہا ہے کہ جس میں رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای ایک سربراہ کی حثیت رکھتے ہیں مگر ایران میں جمہوری نظام اپنی پوری طاقت اور جمہوریت کی اصل روح سے قائم ہے۔

رہبر آیت اللہ خا منہ ای سیاسی معاملات میں تب راہنمائی کرتے ہیں، جب ان سے راہنمائی کی التماس صدر یا پارلیمنٹ کی طرف سے کی جائے یا کسی مذہبی راہنمائی کی ضرورت ہو۔ چونکہ نظام اس قدر مضبوط ہے کہ ان کو ہر معا ملے میں حکومت کی راہنمائی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

پروفیسر صاحب نے جو ارشاد فرمایا، اس سے تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ایران میں ڈ کٹیٹرشپ ہے اور کام فرد واحد کے کنٹرول میں ہے۔ اس طرح کی تصویر کشی کرنا سراسر غلط ہے اور عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔

(خود رہبر جناب آیت اللہ خامنہ ای مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں اور سائنسی تحقیقات و علوم سے زیادہ آشنا نہیں ہیں۔)

مندرجہ بالا نقطے میں پروفیسر صاحب نے کچھ اس طرح کا انداز اختیار کیا کہ جیسے کسی بھی ملک کا سربراہ یا راہنما ہونے کے لیے تمام جہانوں کے علوم حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے اور انہوں نے اس کو عقل و دانش کی کسوٹی قرار دیا ہے جو درست نہیں ہے۔ اگر دنیا کے کسی بھی بڑے اور طاقتور ملک کی مثال لی جائے تو کیا ان کے سربراہان پہلے دنیا کے سارے علوم حاصل کرتے ہیں اور اس ملک کے سربراہ بنتے ہیں۔ پاکستان میں عمران خان، امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ، کینیڈا کے جیسٹن ٹروڈو، روس کے پیو ٹن، برطانیہ کے بورس جانسن، کیا ان سب نے پہلے سا ئنس پڑھی، میڈیکل کی ڈگری لی اور پھر ملک کے راہنما بنے تھے؟

پروفیسر صاحب کی یہ بات موقع محل کے مطابق نہیں ہے اور اس کا کورونا کی وبا کے بارے میں فیصلہ کرنے یا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔

ملکوں کے معاملات چلانے کے لیے سربراہان کو سیاسی فہم و تدبر اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہر فیصلہ کرنے کے لیے ہر شعبہ میں ایم اے کرنا ضروری ہوتا تو لوگ سیاست میں آنے کی بجائے ساری زندگی علم اور صرف علم حاصل کرتے رہتے، ان کو سیاست میں آنے کا موقع ہی نہ ملتا اور وہ اسی مشقت میں جہان فانی سے کوچ کر جاتے۔

اس کے برعکس ہر دور میں سربراہ اپنے مشیروں کے ذریعے معلومات حاصل کرتے اور پھر اپنے فہم اور مشاورت سے روز مرہ کے معاملات میں فیصلے کرتے ہیں ۔ بہرحال پروفیسر صاحب کا ایران کے سیاسی لوگوں کا مدارس سے تعلیم حاصل کرنے کو اس انداز سے لکھنا کہ جیسے مدارس سے فارغ التحصیل جاہل ہوتے ہیں انتہائی افسوسناک ہے۔

ایران کا انقلاب اور کارکنان تحریک کی تربیت سید آیت اللہ خمینی کی فکر کا نتیجہ ہے کہ جس میں سید ابواعلیٰ مودودی نے بھی راہنمائی فرمائی تھی ۔ اب اس کی ایک زندہ مثال لے لیجئے کہ اگر مدارس سے پڑھنے والے لوگ دنیا وی معاملات میں بروقت فیصلہ کرنے کے قابل نہ ہوتے تو سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ابوالکلام آزاد جو صرف عربی فاضل مکمل کر کے مدرارس سے فارغ ہوئےتھے تو اُن پر تو بڑا سوالیہ نشان بنتا ہے۔

پروفیسر صاحب کے علم میں اضافے کے لیے عرض ہے کہ ایران کے صدر امریکا سے پی ایچ ڈی اور وزیر خارجہ برطانیہ سے تعلیمی میدان میں پی ایچ ڈی کر کے ایرانی سیاست میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اس کے علاوہ بہت سے لوگ آکسفورڈ اور کیمبرج سے تعلیم یافتہ ہیں ۔

(چین میں جب کورونا کی وبا پھیلی تو ساری دنیا نے جلد یا بدیر چین سے فضائی اور زمینی رابطے منقطع کر دیے ۔ لیکن ”سپاہِ پاسدارانِ انقلاب“ کی ہوائی کمپنی ”ماہان ایئر“ نے چین سے پروازیں جاری رکھیں اور مسافروں کو چین سے ایران اور ایران سے باقی ممالک کو منتقلی جاری رکھی ۔ اس طرح ایران نے نہ صرف اپنے عوام کی صحت کو داؤ پر لگا دیا بلکہ باقی دنیا میں بھی وائرس کی منتقلی میں اہم حصہ ڈالا ۔)

مندرجہ بالا نقطہ بھی حقیقت اور عقل سے ماورا محسوس ہوتا ہے۔ جب کورونا کی مرض پھیلی تو اس وقت بہت سے ملکوں کی پروازیں چین اور ان کے ملکوں تک محو سفر تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سب اس قدر آناً فاناً ہوا کہ کسی بھی ملک کو اس کا اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ اس کی وجہ اور احتیاطی تدابیر کیا ہو سکتی ہیں۔

اس کی زندہ مثال برطانیہ اور امریکا ہیں کہ جہاں سے پروازوں کا سلسلہ اس وبا کے پھیلنے کے کئی ہفتے تک جاری رہا ۔ اس کی وجہ لاپرواہی نہیں بلکہ وائرس کا اچانک دنیا بھر میں پھیلنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہنا کہ ایران نے جان بوجھ کر پروازوں کا سلسلہ جاری رکھا سراسر غلط ہے کیونکہ کوئی بھی حکومت اپنے شہریوں کو جان بوجھ کر مشکل میں نہیں ڈالتی۔

اس کے برعکس پاکستان نے تو کئی زآئرین کو آنے کی اجازت ان کا ائر پورٹ پر سکریننگ ٹیسٹ کرنے بعد دی ۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے خود پرائیویٹ ائر لائنز کا سلسلہ بہت عرصے تک جاری رکھا اور پھر کئی مہینوں تک ملک نے لاک ڈاؤن نہیں کیا جو کہ بہت سی مجبوریوں کی وجہ سے تھا۔ اب پروفیسر صاحب اس کو بھی عوام دشمنی کہیں تو اس پر کیا کہیے ۔

یہ بھی پڑھیے:
کرونا وائرس: پاکستان، انڈیا میں کیوں زیادہ نہ پھیل سکا؟

کورونا وائرس: 91 فیصد غیرمسلم شکار ہوئے، مسلمان 9 فیصد

عام کورونا وائرس کب خطرناک بنتا ہے؟

”کورونا وائرس کا زور اپریل کے وسط تک ٹوٹ جائے گا“

کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی؟

(ایرانی سائنسدانوں اور ڈاکٹرز نے سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام کو خطرہ سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور ”ماہان ایئر“ کے اس طریقہ کو ایرانی عوام کیلیے خطرناک قرار دیا لیکن ولی فقہیہ یعنی خامنہ ای صاحب کے زیرِ اثر صحافیوں کے جتھے کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ اخبارات، ٹی۔ وی اور منبروں سے ہر طرف سے وائرس کے پھیلاؤ کو جھوٹی افوہیں قرار دیا جائے ۔ چنانچہ ہر طرف سے ایرانی سائنسدانوں اور ڈاکٹرز کو لعن طعن کیا جانے لگا۔)

مندرجہ بلا پیرا گراف میں تو بہت ہی افسوسناک دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔میری ذاتی ریسرچ کے مطابق ایران میں میڈیا آزاد ہے، کوئی ادارہ کسی کے زیر اثر کچھ بھی غلط کرنے کو کبھی تیار نہیں ہو سکتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ فد ک اور اس طرح کے بہت سے ٹی وی ایران کے ولایت فقہی کے تصور کے باوجود ان کے خلاف رپورٹنگ کرتے رہتے ہیں اور ان کے صحا فی ایران میں بغیر کسی روک ٹوک کے کام کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہاں بہت سے مراجہ ولایت فقہی کےتصور کے مخالفین میں سے ہیں جن میں آیت اللہ شیرازی کی مثال دی جا سکتی ہے۔ مگر ان کو اپنا تصور اور مدرسہ چلانے کی مکمل آزادی اور حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایران اپنے سائنسدانوں اور ڈاکٹرز کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کی رائے کے مطابق بہت سے اقدامات سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اُٹھا تا ہے۔

اس کی دلیل ایران کا اپنے بنائے گئے مزائل سے امریکی اڈوں پر حملہ اور ادویات بنانے میں خودکفیل ہونا ہے جبکہ اس پر کورونا وائرس کے حملے سے کئی سال پہلے سے تجارتی پابندیاں عائد ہیں۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایران کا تعلق اپنے محققین سے بہت گہرا ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے بڑی جانفشانی سے کام کر کے ملک کو خود کفیل بنا رہے ہیں۔

(حکومت نے کورونا سے ہلاک ہونے والوں کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں ہارٹ اٹیک لکھنے کا حکم دیا تا کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو کہ کوئی کرونا سے مرا ہے۔)

مندرجہ بالا دعویٰ بھی فہم و تدبر سے خالی محسوس ہوتا ہے کہ جسے عقل تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ کیا پروفیسر صاحب کسی خیالی دنیا میں رہتے ہیں کہ ان کے دعوے بھی ان کی خیالی دنیا کی عکا سی کر رہے ہیں جو انہوں نے فرمایا۔ اس طرح کسی بھی صورت ممکن نہیں ہو سکتا ، کسی بھی ملک میں اتنے بڑھے پیمانے پر اموات کو کیسے چھپایا جا سکتا ہے! کیا ایران میں جنگل کا قانون ہے یا پھر وہاں آمریت رائج ہے۔ آج کل دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے، ہر کسی کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے۔ کوئی بات بھی چھپانا نا ممکنات میں ہے، آج کل ایک موت چھپانا مشکل ہوتا ہے تو پھر اتنی تعداد میں اموات کے بارے میں حکومت کا حکم دینا کہ ان کو ہارٹ کا مرض بتا کر ڈیتھ سر ٹیفکٹ لکھا جائے۔

اس طرح کی بات کی کوئی دلیل ہی نہیں بنتی ۔ کیا ان لوگوں کے لواحقین جاہل تھے یا ان کو ان کے مرنے والوں کی میڈیکل ہسٹری تک کی معلومات نہیں تھیں ۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ بات کہاں سے ثابت ہوتی ہے کہ اس طرح ایران میں ہوا ہے ۔ سوشل میڈیا کی رپورٹوں کو بنیاد بنا کر اس طرح کا دعویٰ میرے خیال میں مناسب نہیں ہے اور ویسے اگر اتنا عام اعلان حکومت نے کیا بھی تھا تو کورونا کو چھپانے کی وجہ کیا ہے؟ ایران میں اس کی کوئی وجہ ہی نہیں بنتی کیونکہ اگر کوئی ملک بھی ایسا کرے گا تو اُسی صورت میں ایسا ممکن ہے کہ جب اس کی تجارت پر منفی اثرات کو زائل کرنا مقصود ہو مگر یہاں تو صورت حال ہی مختلف ہے۔

ایران کی تجارت تو عرصہ سے بند ہے ۔ ان کا کورونا کو چھپانا میری سمجھ سے باہر ہے۔ اب پروفیسر صاحب کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ہلاکتوں کی وجہ کو چھپانے کے لیے حکومت نے عام اعلان کیا تھا یا پھر گھر گھر جا کر دروازہ کھٹکھٹا کر خفیہ طور پر ان کے کان میں کہا تھا ۔ اب گھر گھر جانا تو شاید ممکن نہیں ہوا ہو گا یقینناً حکومت نے اس کا اعلان کیا ہو گا۔ اگر ’ہاں‘ تو کسی بات کے اعلان کے بعد اس کو کیسے چھپایا جا سکتا ہے؟ شاید پروفیسر صاحب لکھنا بھول گئے میرے خیال میں مساجد یا امام بارگاہ میں اعلان کروایا ہو گا۔ آخرتب ہی تو پروفیسر صاحب کو بھی معلوم ہو گیا۔

(آیت اللہ تبریزیان صاحب کورونا وائرس کے علاج کیلیے اسلام، اہلبیت اور معصومین کے ناموں کا استعمال کر کے نت نئی معجونیں تیار کر کے بیچ رہے تھے اور خوب کمائی فرما رہے تھے ۔ جب وائرس کی ہلاکت خیزیوں نے ایران کو لرزا کے رکھ دیا تب تبریزیان کو ”قم کا ابوجہل“ کا خطاب دیا گیا ۔ غرض ہر طرف مذہبی رہنما معصوم اور بھولے بھالے عوام کو تباہی کی دلدل میں دھکیلتے چلے جا رہے تھے۔)

پہلی بات تو یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کو کسی فرد واحد کا حوالہ دے کر پورے ملک کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بعد انھیں کسی بھی عالم کو اس طرح کے نام سے مخاطب نہیں کرنا چاہیے۔ عالم چاہے سنی ہو یا شیعہ ہمیشہ قابل احترام ہوتا ہے۔ اب اگر مسلمان طب کو اپنے ساتھ لپیٹ کر قبروں میں نہ لے جاتے تو آج ہم کورونا کے علاج کے لیے مغرب اور امریکا کی ریسرچ پر بھروسہ نہ کر رہے ہوتے۔

بس اسی لیے حکمت دنیا سے ناپید ہو چکی ہے اس میں کسی فرد کا حوالہ دے کو پورے سسٹم کو ملائن کرنا کہیں کی عقلمندی نہیں۔ آج پوری دنیا میں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں اس طرح کے لوگ اور جھوٹے حکمت کرنے والے ہر جگہ اور محلے میں موجود ہیں۔ پروفیسر صاحب کے علم میں اضافے کے لیے عرض ہے کہ حکومت ایران نے بھی پاکستان اور برطانیہ کی طرح کورونا کا علاج میڈ یکل سائنس کے علاوہ بتانے والے افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔ بہر حال اس طرح کے معاملات تو اسلامی ملکوں میں معمول کا حصہ ہیں مگر پروفیسر صاحب کا انداز تحریر ان کی یک طرفہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

بہرحال پروفیسر صاحب کی بہت سی اور باتیں ہیں کہ جن کا جواب دینا میں مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ ان کی سوچ اور فکر میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ خدا ہمیں فہم و تدبر عطا فرمائےاور معاملات کو درست انداز میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “ایران میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی کہانی کا تنقیدی جائزہ” جوابات

  1. زینب ؤقار Avatar
    زینب ؤقار

    بہت اعلی

  2. بشریٰ گل Avatar
    بشریٰ گل

    میں نے جواد حسین صاحب کی تحریروں کا بغور مطالعہ کیا اور یہ پایا کہ جواد حسین صاحب عصر حاضر کے حالات پر گہر ی نظر رکھتے ہیں اور ان کی تحاریر سادہ ، حقیقت پر مبنی اور یگانہ نظریات کی حامل ہیں جبکہ پروفیسر صاحب کی تحریر کومیں نے اس کے برعکس پایا