رقیہ اکبر چودھری، اردو کالم نگار، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ، بلاگر

آئیں ! مل کر بین کرتے ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رقیہ اکبر چودھری :

ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک کی آزادی میں کتنے بےگناہوں کا خون شامل ہے۔
ہم اس بات سے بھی باخبر ہیں کہ آزادی کی سلور جوبلی کی تقریبات سے پہلے ہی یہ دیس دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔
ہم جانتے ہیں کشمیر کی آزادی کے بنا یہ آزادی ادھوری ہے۔

ہمیں معلوم ہے اپنوں کی ریشہ دوانیوں اور غیروں کی سازشوں کے باعث مملکت خداداد پاکستان پچھلے 73 برسوں سے ہی بہت سی مشکلات میں گھرا رہا ہے۔
اور بھی بہت کچھ ہے تکلیف دہ ، اداس کرنے والا اور شاید ماتم کرنے والا بھی۔
سیاستدانوں کی لوٹ مار سے لیکر عوام کی بڑی چھوٹی کرپشن کی کئی داستانیں چھپی ہیں اس آزادی کے جشن کے پیچھے۔
لیکن

کیا اس وجہ سے جشن آزادی منانا اور مبارک بادیں دینا اور وصول کرنا چھوڑ دینا چاہیئے؟
تو کیا ان حالات میں ایک دوسرے کو مبارک باد دینا اور جشن آزادی منانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بےحس اور بےحمیت ہو چکے؟

کیا یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ہم نے اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا اور احساس زیاں سے عاری قوم ہیں؟
نہیں جناب والا نہیں!
ہم سب ان میں سے کوئی بھی بات نہیں بھولے نا ہی کسی عظیم سانحے کی حساسیت کم ہوئی ہے ہمارے نزدیک۔

ہمیں سب یاد ہے اور ہم ان فاش غلطیوں کو سدھارنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں اور اپنی سی کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں لیکن کیا یہ مناسب طرزعمل ہے کہ ماضی کی ان تکلیف دہ حقیقتوں کی وجہ سے ہم یہ بات بھلا دیں کہ یہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے اور اس کا اظہار اور رب کریم سے شکر ہم پر واجب ہے؟

مانا کہ اس نعمت کا شکر ادا کرنے کا اصل طریقہ اس آزادی کی حفاظت اور جس مقصد کیلئے یہ وطن حاصل کیا گیا اسے پورا کرنا ہے مگر یہ رسمی مبارکبادیں اور جشن منانا بھی کوئی گناہ تو نہیں بلکہ زمانے کی ریت رواج ہیں اور بہت حد تک ضروری بھی۔

کون سا گھر ایسا ہے دنیا بھر میں جہاں کبھی کوئی پیارا دنیا سے نہ گیا ہو؟
کہیں طبعی موت تو کہیں حادثاتی اور کہیں اپنی ہی غفلت سے جان کی بازی ہار جانے والوں کے گھروں میں کیا تادم مرگ تمام خاندان ماتم کیا جاتا ہے؟

یا جس گھر میں کسی پیارے کی موت کبھی واقع ہوئی ہو (جو کہ یقیناً ہر گھر میں ہو چکی ہوتی ہے) کوئی خوشی نہیں منائی جاتی؟ کوئی شادی بیاہ کی تقریب منعقد نہیں کی جاتی؟
اور اگر کی جاتی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ یہ اپنا غم بھول چکے ہیں یا اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر شرمندہ نہیں ہیں؟؟؟

خدا کے بندو! ہر بات اپنے وقت پر ہی اچھی لگتی ہے۔ خوشی کے اوقات میں خوشی منانا اور غم کے وقت غم کا ماتم منانا ہی مناسب عمل ہے۔ کسی گھر میں نومولود کی پیدائش پر مرنے والوں کا غم لے کر نہیں بیٹھ جاتے ، اس سے مرنے والے تو واپس نہیں آتے لیکن نومولود کی آمد کی خوشی ضرور غارت ہو جاتی ہے۔

کیوں ہر وقت کے رونے دھونے کو ہی ” بیدار قوم “ کی نشانی سمجھتے ہو؟

قوموں کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں اور یقیناً زندہ، بیدار اور غیور قومیں اپنی کوتاہیوں کی تلافی کیلئے ہر دم کوشاں رہتی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہر وقت رونا دھونا مچائے رکھیں۔

اپنی غلطیوں کو یاد رکھیں ،اپنی ہر آنے والی نسل کو ان سے آگاہی بھی دیتے رہیں اور اپنی غلطیوں کی وجہ سے جو خمیازہ ہم نے بھگتا اس کا احساس بھی انہیں ضرور کرائیں تاکہ وہ اس کی تلافی کیلئے آپ کے ساتھ مل کر کوشش کریں۔

انہیں اپنے ماضی سے آگاہ رکھتے ہوئے بہتر مستقبل کی پلاننگ کرنا سکھائیں۔
لیکن یہ کیا کہ ہر وقت ماضی کی راکھ ہی کریدتے رہو اور صرف مایوسیاں ہی پھیلاتے رہو۔ آپ نے اگر آگے بڑھنا ہے تو اپنے ماضی کو یاد ضرور رکھیں مگر ماضی میں جینا چھوڑ دیں۔۔
لیکن

اگر آپ کے نزدیک روشن مستقبل کا راستہ ماضی کی غلطیوں پہ بس رونے دھونے سے صاف اور آسان ہو جائے گا تو چلیں آئیں !
مل کر بین کرتے ہیں !!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں