اردو زبان

قومی زبان اردو کا نفاذ : شق نمبر 251 کے ساتھ ستم ظریفی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نبیلہ شہزاد :

وائسرائے ہند ، مولانا ابوالکلام آزاد سے ملنے ان کی رہائش گاہ آتا ہے۔ وائسرائے جو بات کرتا ہے، ترجمان اس کا ترجمہ کر کے مولانا آزاد کو بتاتا ہے۔ پھر مولانا آزاد کی ہر بات کا انگریزی ترجمہ کر کے وائسرائے کو بتاتا ہے۔

دوران گفتگو ترجمان کچھ ترجمہ درست نہ کر سکا تو مولانا آزاد نے اس کی غلطی درست کر کے کہا کہ یوں کہو۔

ملاقات کے اختتام پر وائسرائے نے مولانا آزاد سے پوچھا:
” جب آپ کو انگریزی آتی ہے تو ساتھ ترجمان کیوں بٹھایا؟ “

مولانا نے فرمایا :
” آپ ہزاروں میل چل کر اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتے ۔ میں گھر بیٹھے ہوئے کیسے اپنی زبان چھوڑ دوں؟ “
یہ تو تھا مولانا ابوالکلام آزاد کا سکھایا ہوا سبق۔

اب ہم آتے ہیں اپنی زبان اردو کی طرف ،
اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج ہے۔ اسے ’ لشکری زبان ‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ہندی، ترکی، عربی، فارسی اور سنسکرت زبان کے الفاظ کا مرکب ہے۔ اور یہ برصغیر میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔

پاکستان بننے کے بعد اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا۔ 1973ء کے آئین کی شق نمبر 251 میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی اور اس کو سرکاری زبان پندرہ سال کے عرصے میں بنا دیا جائے گا۔
لیکن صد افسوس کئی سال گزرنے کے بعد اس شق پر عمل درآمد نہ کروایا جا سکا۔ یوں پاکستان کے ہر ادارے نے شق نمبر 251 کی مجموعی طور پر خلاف ورزی کی۔

پھر 2003 ء میں کوکب اقبال ایڈوکیٹ اور محمود اختر نقوی نے اردو زبان کے نفاذ کے لیے درخواست دی۔ ہماری سست رو عدالت میں یہ مقدمہ 12 سال زیر التوا رہا۔

درخواست گزاروں نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہماری حکومت جان بوجھ کر شق نمبر 215 پر عملدرآمد کرنے سے گریزاں ہے۔اس سے معاشرتی اور لسانی تفرقہ پیدا ہو گیا ہے جو نہ صرف معاشرتی استحکام کی راہ میں حائل ہے بلکہ معاشرتی نفاق کا سبب بھی ہے۔

آخر کار 12 سال بعد 8 ستمبر 2015ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ اردو کو سرکاری زبان بنایا جائے۔

افسوس ! ایک بار پھر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اور یہ فیصلہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔ حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے واشگاف الفاظ میں فرما دیا تھا کہ ہماری قومی زبان اردو ہو گی۔
لیکن ہماری حکومت کیا اور ہماری قوم کیا۔۔۔ سبھی نے اردو زبان کے ساتھ سوتیلے پن کا رویہ اختیار کیا۔

انگریزی جو پرائی زبان ہے اسے ذریعہ تعلیم بنایا۔ انگلش میڈیم اسکولوں کو مہنگے اور فخر کا ذریعہ بنایا۔اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ عہدوں کے حصول کے ایسا ملکی نظام سیٹ کیا کہ ان تک ایک خاص طبقہ کی ہی پہنچ ہو سکتی ہے۔

اردو میڈیم میں بھی کے۔ جی سے لے کر بی ۔اے تک نصاب میں انگریزی مضمون کو لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل کیا حالانکہ اردو مضمون صرف بارھویں جماعت تک لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل ہے۔

انگلش میڈیم اسکول کے ایک بچے کی جتنی فیس ہوتی ہے تقریباً اتنی ہی ایک غریب آدمی کی تنخواہ ہوتی ہے۔ اب وہ بیچارہ کیا کرے؟ گھر چلائے، بچوں کے پیٹ پالے، یا پھر انہیں پڑھائے۔ اس کے علاوہ بھی اور کئی اخراجات۔

ہمارے ملک کی اکثریت یا تو تنخواہ دار ہے یا پھر محنت مزدوری۔ اردو میڈیم سرکاری سکولوں میں بچے داخل کروانا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں اور ملک میں طبقاتی نظام پیدا ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر ملک میں اردو میڈیم یکساں نظام تعلیم رائج کر دیا جائے تو اس ذہین ترین قوم میں دن بدن کئی سائنس دان اور ماہرین پیدا ہوں۔

ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے لیے قابلِ فہم نمونہ ہیں۔
انہوں نے اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا اور خوب ترقی کی جبکہ ہمارے طالب علم بیگانی زبان میں سمجھتے کم اور رٹا زیادہ لگاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں نوے فیصد سے زیادہ لوگ اردو سمجھنے اور بولنے والے ہیں جبکہ انگریزی سمجھنے اور بولنے والوں کا تناسب تو اس کی نسبت بہت ہی کم ہے۔ کئی افسر بیچارے بھی انگریزی میں لکھی دستاویزات کو سمجھنے کے لیے اس کا ترجمہ کر وا رہے ہوتے ہیں۔

اردو زبان کی بے توقیری ہمارے گھروں میں بھی ہوتی ہے، ہم اردو کی نسبت انگریزی بولنے پر بچوں کی زیادہ حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں۔ جو بچہ بول چال میں انگریزی الفاظ زیادہ استعمال کرتا ہے، ہم اسے زیادہ لائق تصور کرتے ہیں۔ اور جب ہم خود چھوٹے بچے کو بولنا سکھاتے ہیں تو اردو کے دو الفاظ کے ساتھ تیسرا لفظ انگریزی کا شامل کر لیتے ہیں۔ اور آدھا تیتر آدھا بٹیر والا رنگ پیدا کرتے ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود میرے ملک پاکستان میں بہت سے محب قومی زبان و قدر دان بھی موجود ہیں۔ اور وہ اس کے احیا و نفاذ کے لئے سر توڑ کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

جس طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے دو ٹوک الفاظ میں انگریز کو اپنی زبان کی اہمیت جتلائی، اسی طرح ہمیں بھی پوری جرات مندی سے اپنی پیاری قومی زبان اردوکا نفاذ کرنا ہو گا اور دنیا کو بتانا ہو گا کہ ہم گونگے نہیں، ہمارے پاس بھی ایک بہترین زبان موجود ہے جو اس روئے زمین پر ہم پاکستانیوں کی پہچان ہے جس کے شیریں الفاظ کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ جس کے بارے میں ایک شاعر وصی احمد نے کہا ہے:
وہ بات کرے تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “قومی زبان اردو کا نفاذ : شق نمبر 251 کے ساتھ ستم ظریفی” جوابات

  1. قانتہ رابعہ Avatar
    قانتہ رابعہ

    بہت زبردست

  2. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    پڑھے لکھے لوگوں کو اردو کی اہمیت اجاگر کرتے رھنا چاہیئے ۔ اتفاقاً مجھ سے کئی دفعہ ماوں نے اپنے بچوں کے داخلہ فارم بھرواۓ ہیں۔ انگریزی فارم پر کرتے ھوۓ میں سوچ رہی ھوتی ہوں کہ یہ ماں جو فارم نہیں پر کر سکتی وہ بچے کو سارے مضمون انگریزی میں کیسے پڑھائے گی۔گویا کہ وہ داخلہ فارم کی صورت میں اپنے اور اپنے بچے کے لیے ایک مستقل مشکل پر دستخط کر رہی ھوتی ھے۔ یہ ایک مسئلہ ہے جس کا اکثریت کو شعور نہیں۔