صادق خان، مئیر لندن کا ٹیکسی ڈرائیور پیچھا کررہے ہیں، وہ ان پرغصے بھرے اور نازیبا جملے بھی کس رہے تھے

صادق خان، پاکستانی نژاد مئیر لندن کے ساتھ کیا بیتی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

اشتیاق احمد گھمن :

مئی 2016 میں ہونے والے لندن کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستانی نژاد برطانوی صادق خاں لیبر پارٹی کی طرف سے مئیر کا انتخاب جیتے۔ اس جیت پر تمام پاکستانی بالخصوص اور تمام مہاجر قوموں کے باشندوں نے بالعموم بے پناہ خوشی کا اظہار کیا۔

ان انتخابات سے سات مہینے پہلے، 23ستمبر 2015 کو میں نے صادق خاں کے حوالے سے ایک کالم میں تفصیل سے ذکر کیا کہ کیسے یہ انتخاب جیت سکتے ہیں اور اس کالم میں متوقع جیت کے اسباب و محرکات بھی احاطہِ تحریر میں لائے گئے۔

جس طرح ہم چھوٹے اخبارات میں لکھنے والے چھوٹے قلم کار گم نامی کی پاتال میں پڑے رہتے ہیں اسی طرح میرا یہ کالم بھی حافظے کی دبیز تہوں میں کہیں دب کر رہ گیا۔ آج اس ” مرحوم “ کی یاد کل صبح صادق خاں کی بلیک کیب ڈرائیوروں کے ہاتھوں بننے والی دُرگت کی ویڈیو دیکھ کر آئی۔

صادق خان، پاکستانی نژاد مئیر لندن

آپ یقیناً جانتے ہوں گے کہ صادق خاں کے والد اچھے مستقبل کے سپنے آنکھوں میں سجائے پاکستان سے لندن پہنچے۔ وہ غریبوں کی رہائش کے لیے بنائے گئے سرکاری کوارٹر، کونسل سٹیٹ ، میں رہتے اور بس چلا کر اپنے بچوں کو پالتے رہے۔

اس تناظر میں صادق خاں خوب جانتے تھے کہ دیگر ممالک سے آنے والے لوگ کن حیلوں بہانوں سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اس لیے انہوں نے حلف اٹھاتے ہی ہر اس کاروبار میں سخت قانونی تبدیلیاں لانے کا آغاز کر دیا کہ جس بزنس سے دیسی لوگ وابستہ تھے۔

ٹیکسی (پرائیویٹ ہائر) کے کاروبار میں پچانوے فیصد کے قریب دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگ ملوث ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں اور پھر صومالیہ والوں کی ہے۔ اسی طرح بلیک کیب میں یہ تناسب بالکل الٹ ہے۔ وہاں تقریباً پچانوے فیصد گورے یہ کام کر رہے ہیں کہ جن کی یونین انتہائی مضبوط اور موثر ہے۔ ان کے مقابلے میں پرائیویٹ ہائر والوں کی یونین بہت ہومیو پیتھک قسم کی ہے۔ ٹیکسی انڈسٹری میں پچھلے چار سالوں میں جو نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں ان میں چیدہ چیدہ ذیل میں درج ہیں:

اول : کار کی عمر اگر دس سے زیادہ ہو جائے تو آپ اسے بطور ٹیکسی استعمال نہیں کر سکتے، جبکہ بلیک کیب پندرہ سال تک استعمال ہو سکتی ہے۔

دوم : بلیک کیب بسوں کے لیے مخصوص بس لین میں چل سکتی ہے، لیکن ٹیکسی کو یہ سہولت میسر نہیں۔
سوم: مرکزی لندن (اندرون شہر) جانے کے لیے بلیک کیب سے کوئی اضافی فیس وصول نہیں کی جاتی، جبکہ ٹیکسی کو پندرہ پاؤنڈ یومیہ دینے پڑتے ہیں۔

چہارم : اندرون شہر جانے کے لیے ایک دن کی داخلہ فیس (Congestion Charges) پہلے ساڑھے گیارہ پاؤنڈ تھی جو کہ دو مہینے پہلے بڑھا کر پندرہ پاؤنڈ کر دی گئی۔

پنجم : یہ داخلہ فیس پہلے سوموار سے جمعہ، صبح سات سے شام چھ بجے تک لاگو ہوتی تھی، مگر دو مہینے پہلے یہ رات دس بجے تک اور ہفتے کے ساتوں دنوں تک بڑھا دی گئی۔

اشتیاق احمد گھمن ، مصنف

ششم : بطور ٹیکسی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کار ٹویوٹا کی پریئس (Prius) ہے۔ حالیہ ایک اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ پہلی بار ٹیکسی رجسٹر کروانے کے لیے کار کا انجن یورو 6 ہونا لازمی قرار دے دیا گیا جس سے تمام پرانی پرئیس (generation 3) گاڑیاں ٹیکسی کے لیے ناقابلِ قبول ہو گئیں اور صرف ایسی گاڑیاں کارآمد رہ گئیں کہ جو 2016 کے بعد بنی تھیں۔ اس قانونی تبدیلی سے جاپان سے کاریں منگوانے والے بڑے بڑے امپورٹرز ایک دن میں فٹ پاتھ پر آ گئے۔

ہفتم : لندن والوں کو صاف آب و ہوا دینے کے لیے پچھلے سال کے اوائل میں ڈیزل گاڑیوں پر مرکزی لندن میں داخلہ فیس کے علاوہ ایک مزید اضافی فیس بھی لگا دی گئی کہ جسے Ultra Low Emission Charges کا نام دیا گیا۔ یہ یومیہ ساڑھے بارہ پاؤنڈ ہے۔

اب اگر ایک یورو 5 انجن والی ڈیزل ٹیکسی سنٹرل لندن جائے تو اسے تقریباً پچیس پاؤنڈ یومیہ حکومت کو صرف انٹری فیس کے طور پر ادا کرنا ہوں گے جبکہ بلیک کیب کو ایک پنس بھی نہیں دینا ہو گا۔ غالباً کیب کے دھویں سے لندن والوں کی صحت خراب نہیں ہوتی۔

ہشتم : ٹیکسی کے سالانہ لائسنس کی فیس ایک سو سے ایک سو چالیس پاؤنڈ کر دی گئی۔ اس کے بعد انسپکشن سنٹر والوں نے ذرا ذرا سے سکریچ پر گاڑیاں فیل کرنا شروع کر دیں۔ کمیشن پر انسپکٹر بھرتی کر کے پورے لندن میں ناکے لگوا دئیے کہ جو ہر بڑے چوراہے پر ٹیکسیوں کو چیک کرنے لگے۔

نہم : اُوبر کی وجہ سے بلیک کیب کی صنعت کو شدید مالی نقصان ہو رہا تھا اس لیے اُوبر کو ہمیشہ عارضی پرائیوٹ ہائر آپریٹر لائسنس جاری ہوتا رہا جس سے ٹیکسی بزنس میں ہمیشہ ایک غیر یقینی کی صورت حال رہی۔

دوستو!
فی الحال تو یہی چند ایک انتہائی جانب دارانہ اور متعصبانہ پالیسیاں میرے ذہن میں تھیں جو یہاں لکھ دی ہیں اور ان کے علاوہ یقیناً بہت اہم میں بھول بھی گیا ہوں گا، لیکن ” حاصلِ غزل “ بات یہ ہے کہ ایسی ” خدمت “ کسی دیسی کو مئیر بنائے بغیر کوئی گورا سرانجام نہیں دے سکتا تھا۔ موصوف نے اس ٹیکسی انڈسڑی کو تباہی کے منہ تک لا دھکیلا ہے، لیکن اپنوں نے اس سب کے باوجود جناب مئیر کو یُوں رسوا نہیں کیا کہ جیسے کل بلیک کیب ڈرائیوروں نے کیا۔

ہمیں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفا داری میں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اس کا صلہ کبھی بھی نیک نامی کی صورت نہیں نکل سکتا۔ لندن کے محکمہ ٹرانسپورٹ (TFL) نے مئیر کی ہدایات کے مطابق اپنی ہر پالیسی میں بلیک کیب کو جس اہتمام سے نوازا ہے اگر اس کا سواں حصہ بھی ٹیکسی والوں کا سوچا گیا ہوتا، تو وہ چوکوں میں ان کی حمایت میں جلوس نکالتے۔

کورونا کی برکت سے لندن کے انتخابات ملتوی ہو گئے اور مئیر کو ایک سال مزید مل گیا ورنہ پالیسی سازوں نے کٹھ پتلیوں سے جو خدمت لینا تھی وہ لی جا چکی۔ اب تو چل چلائو کا وقت ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ اقتدار کے اخیر وقت میں ایسے غیر متوقع مظاہرے رونما ضرور ہوتے ہیں۔

کارتوس کب کا چل چکا اور خول اب کسی کے بھی کام کا نہیں رہا۔ ایشین کے بعد اب کالی کمیونٹی کی سختی کے لیے کالے مئیر کی تیاری ہو رہی ہے۔ استعمال ہونے والے ایک لمحے کو رک کر اگر یہ سوچ لیں کہ واپس اپنے لوگوں میں کیا نامہ اعمال لے کر جائیں گے تو شاید ضمیر جاگ جائے، لیکن اقتدار کی موٹی کھڑکیوں(triple glazing) میں سے ضمیر جگا دینے والے تازہ ہوا کے جھونکے کا گزر ممکن نہیں ہوتا۔

بڑی اکثریت کا ضمیر عموماً ریٹائرمنٹ کے بعد ہی جاگتا ہے کہ جب اس کی جاگنے یا سونے سے کسی کو ذرا فرق نہیں پڑتا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں