لڑکی، باٹنی، نباتیات

پھر وہی بیکار باتیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابنِ فاضل :

بی ایس زوولوجی کی جماعت ہے. پچاس ساٹھ طلباء وطالبات بیٹھے ہیں جن میں کثیر تعداد طالبات کی ہے. یہ سیل بیالوجی اینڈ ایولوشن کا پیریڈ ہیں. یہ سب طلبا وہ ہیں جنہوں نے پری میڈیکل میں ایف ایس سی کی اور چند نمبروں کی کمی سے میڈیکل کالج میں نہ جاسکے. دستیاب معلومات اور موجود کورسز میں انہیں یہی سب سے بہتر انتخاب لگا۔

جامعہ کی اس عمارت کے طویل برآمدہ کے اختتام پر ایک اور کلاس روم میں قریب اتنے ہی طلباء ڈائیورسٹی آف پلانٹس کی کلاس لے رہے ہیں. یہ بی ایس باٹنی کے طلباء ہیں. ان کی بھی وہی کہانی ہے. اور وطن عزیز میں ایسے ہزاروں طلباء وطالبات ہوں گے. جن میں سے بیشتر نجی یونیورسٹیوں میں لاکھوں روپے سالانہ فیس ادا کرکے یہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں.

چار سال میں بی ایس کریں گے، پھر دوسال میں ایم ایس کریں گے. اور پھر بیٹھ کر سوچیں گے کہ یہ مضامین کیوں پڑھے؟ ان میں سے چند لوگ سرکاری یا نجی یونیورسٹیوں میں پھر سے یہی بے کار کورسز پڑھانے کیلئے اساتذہ بھرتی ہوجائیں گے اور باقی۔۔۔۔
کوئی پرائمری سکول میں بچوں کو پڑھا رہا / رہی ہوگی اور کوئی اوبر پر ٹیکسی چلارہا ہوگا.

ایک زوولوجی کی طالبہ سے میں نے پوچھا کہ کیا مستقبل ہے اس ڈگری کا؟ کہا لیکچرار یا فشریز میں چند نوکریاں ہیں. پھر کچھ نجی اداروں میں لیب اسسٹنٹ کی کچھ نوکریاں ہیں. اور بس. تو بھئی کیوں وقت ضائع کررہے ہیں؟ نہ پڑھنے والے کے پاس جواب ہے نہ پڑھانے والے کے پاس.

اب دوسری طرف دیکھیں لاکھوں ڈالر کی ایکوریم فش، اور ان کی خوراک، لاکھوں ڈالر کے کتے بلیاں اور ان کی خوراک، اسی طرح خوبصورت پرندے اور ان کی خوراک باہر سے منگوائے جارہے ہیں. اور دہائیوں سے منگوائے جارہے ہیں.

اللہ کے بندو!
ٹارگٹ اورئینٹڈ ایفرٹ کرو. قوم کے بچوں کے چھ چھ سال ضائع کرنے کی بجائے دو تین سال کے ڈپلومہ کورسز ڈیزائن کرو. کسی کو رنگین مچھلیاں پالنا ان کی بریڈ لینا سکھاؤ، کسی کو عام مچھلیوں کی نسل کشی اور پرورش سکھاؤ.

کسی کو بلی، کتے اور پرندوں کے عملی کورسزکرواؤ. لوگ ہنر سیکھنے کے بعد گھروں میں ایکوریم رکھ کر بریڈنگ کریں.کوئی چھتوں پر نیل بنائیں کوئی صحن میں پرندے پالیں. نہ صرف ان کی درآمد ختم ہو اور زر مبادلہ بچے بلکہ مڈل ایسٹ اور دیگر ملکوں کو برآمد کریں.

اسی طرح باٹنی پڑھنے کا شوق رکھنے والوں کیلئے بھی کورسز ڈیزائن کریں. ان کو بھی ویلیو ایڈڈ قیمتی جڑی بوٹیوں کی زراعت سکھائی جائے، زعفران، ثلعب، مصطلگی ،بہمن سرخ وسفید،گل بابونہ ،موصلی اور ستاور وغیرہ اگانے اور خشک کرنے کی عملی تربیت دیں، ان کی بھی لاکھوں ڈالر سالانہ کی درآمد ہیں. نہ صرف اپنی ضروریات پوری کریں بلکہ برآمد کریں ۔

ساری دنیا میں پھلوں کی بیگنگ ہوتی ہے ہمارے کسی کسان کو علم ہی نہیں یہ کس بلا کا نام ہے. اس کی تربیت دیں. ہزاروں لوگوں کیلئے نئے روزگار کے دروازے کھلیں. بطور خاص خواتین گھر بیٹھی عزت سے کام پر لگیں. اپنا معیار زندگی بھی بلند کریں،اور خوشحال پاکستان میں اپنا کردار ادا کریں.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “پھر وہی بیکار باتیں”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    عملی تعلیم بہت سال پہلے شروع ہو جانا چاہئے تھی ۔ پاکستان صرف اس صورت ترقی کر سکتا ھے جب نوجوانوں کو باہنر بنایا جائے گا ناکہ صرف کتابیں رٹا کر ایک ڈگری تھما دی جاۓ اور ان میں سے اکثریت کو گاڑی کاتیل بدلنا، نل لگانا، اور لڑکیوں کو اپنے سوٹ کی سلائی کرنا نہیں آتا ھو۔۔۔صرف کتابی تعلیم زندگی میں اتنی مددگار نہیں ہوتی جتنی عملی یعنی ہنر پر مبنی تعلیم ۔