ماسک پہنے مسلمان باحجاب خاتون

یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر میمونہ حمزہ :

ہمارے شہر کا کیا کہنا!! جب دنیا ’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘ کے نغمے الاپتی تھی، اس وقت بھی ہمارے شہر میں ہر ہاتھ ملانے والا دوست ہی تھا، ہم ان دوستوں کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے، اور ہر روز روزِ عید اور ہر شب شبِ برات تھی۔

دور دراز کے ملکوں سے ہمارے بچوں کی کال آتی تو وہ ہمیں لش پش کرتے، کہیں جانے کو تیار پاتے، اور ایک ہی صدا سنائی دیتی:
” آج پھر آپ کی دعوت ہے؟ “
اور ہم مسکرا دیتے۔ اور کبھی ہمیں بھاگ بھاگ کر کام سمیٹتے بے حال دیکھتے تو بھی یہی سوال ان کی زبان سے ادا ہوتا:
’’آج پھر آپ کے ہاں دعوت ہے؟‘‘ ۔

اور انہی خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولتے ہمیں دیار غیر میں چار برس گزر گئے، ہر سال جانے والے کچھ خاندان چلے جاتے تو کچھ دوسرے آ بھی جاتے، ہر موسم ہمارے لئے ایک سا موسم تھا: ملن کا موسم! اور کتنی مزے کی بات ہے کہ ہمارے شوہروں کی بھی خوب بنتی تھی، اور اولادوں کی بھی! گھروں کی یکسانیت سے اکتاتے تو باہر نکل جاتے، کبھی کوئی پارک اور کبھی صحرا کا کوئی گوشہ ہمارا عارضی ٹھکانہ بنتا ، اور کچھ پہر گزار کر دامن میں اچھی یادیں سمیٹ کر واپس ہو لیتے۔

فروری 2020 میں ہمارے لمبے پروگرام بن رہے تھے، بیرون ِ شہر سیر کے، حائل میں حاتم طائی کے گاؤں سے بھی گزرنا تھا، اور مدائن ِ صالح بھی، اور کچھ فہرست ابھی مرتب ہو رہی تھی کہ اچانک ہمارے شہر کا مزاج بدلنے لگا۔ ہر طرف شور سنائی دیا، کہ باہر نہ نکلو، خطرہ ہے خطرہ! کیسا خطرہ؟ ہم نے بظاہر بہادری سے سوال کیا، مگر ہمیں ’’ششش‘‘ کہہ کر چپ کروا دیا گیا۔

طے شدہ پروگرام ، معطل اور موخر ہونے لگے، ہم کچھ کرنے کو بے تاب تھے، اور ارد گرد والے ہاتھ جوڑ کر کہتے: نہ ’’ کرونا ‘‘!ایسا ’’ کرونا جو جہنم کے داروغوں کے بمقدار ’’ کرونا 19‘‘ ہے، انوکھا سا وائرس، جو ہمارے شہر ہی کیا پورے گاؤں میں پنجے گاڑنے کو بیتاب ہے۔ (ایک زمانہ تھا کہ شہر بڑا اور گاؤں چھوٹا ہوتا تھا، مگر اس گلوبل ولیج کے تصور نے پوری دنیا کو ہی گاؤں بنا ڈالا ہے)۔

ایک صبح اٹھے تو معلوم ہوا، تمام تعلیمی ادارے بند، بیٹی اور میاں کو گھر میں مستقل دیکھ کر ہمیں ہول آنے ہی لگا تھا کہ معلوم ہوا، ہمارے ہاں آن لائن کلاسسز ہوں گی۔ ہماری بیٹی نے دہائی دی،
’’آپ ہی کی نظر لگی ہے، جو کسی کو فارغ نہیں دیکھ سکتیں‘‘۔

شہر کا مزاج کیا بدلا، گھروں کا رہن سہن بھی بدل گیا، ہم نے ایک دن بی پڑوسن کو فون کیا، ہمارا دل گھر میں بوریت محسوس کر رہا ہے، ملنے کا کچھ سامان کریں؟ مگر ادھر سے خاصا پریشان کن جواب آیا:
کیا بتاؤں آپ کو، سر کھجانے کی فرصت نہیں، میاں زوم پر کلاسیں لے رہے ہیں، اور بچوں کی زوم پر آن لائن کلاسسز ہو رہی ہیں،

چھوٹے بچوں کے ساتھ مسلسل بیٹھ کر کلاس اٹینڈ کرنی پڑتی ہے، پھر ان کا کلاس ورک کروانا، اس کی تصویریں بنا کر ٹیچر کو بھیجنا، پھر انہیں درست کروانا، اور مکرر تصویریں بھیجنا، ایک کا کام مکمل نہیں ہوتا، کہ دوسرے کا شروع ہو جاتا ہے، گود کا بچہ الگ تنگ کرتا ہے، پہلے اسے باہر بھی گھما لاتے تھے، لیکن اب تو باہر بھی خطرہ ہے!

اور کیا بتاؤں آپ کو ، ہمارے گھر کئی دن سے کھانا بھی نہیں پکا، بچوں کا ہوم ورک کرواؤں یا کچن دیکھوں، ملازم تنخواہ لے کر چھٹی گزار رہا ہے، اور ہم ڈسپوزایبل برتنوں میں کھانا کھا رہے ہیں، اس ’’احتیاط اور فاصلے‘‘ کے قانون نے ہمارا تو بھرکس نکال دیا ہے! ہم نے دل کی دل میں ہی رکھی اور فون منقطع کر دیا۔

ہم ’’لاک ڈاؤن ‘‘ شروع ہونے سے کچھ پہلے ہی چہل قدمی کر کے واپس لوٹ آتے تھے، ارد گرد کے متحرک مناظر تیزی سے ساکت ہو رہے تھے، واکنگ ٹریک پر پہنچتے تو ہو کا عالم دکھائی دیتا، نہ وہ خواتین نظر آتیں جو تیز تیز قدموں سے ہم سے آگے نکل جایا کرتی تھیں، نہ سائیکل دوڑاتے بچے دکھائی دیتے اور نہ تیزی سے جاگنگ کرتے نوجوان!

ہم شام ڈھلے واپس لوٹتے تو مغرب کی اذان ہو رہی ہوتی، جس کی ندا میں بھی فاصلے کی پکار تھی، جبھی تو موذن کی آواز رقت انگیز ہو جاتی اور کانوں میں آنے والی آواز دل کو بھی بھاری کر دیتی ’’صلوا فی بیوتکم‘‘ (اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو)، میں بوجھل قدموں سے واپس لوٹ آتی اور شوہر صاحب راستے کی مسجد کے امام کے واحد مقتدی بن کر نماز ادا کر لیتے! لیکن آخر کب تک، ایک روز انہیں بھی روک دیا گیا۔اب نمازیں گھر میں ادا ہوتیں، وہ امام اور ہم مقتدی!

بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے!

ایک دن ہم گھر سے باہر چہل قدمی کر رہے تھے، کہ ہماری پیاری سی باجی کی کال آئی، ہم نے جھٹ فون وصول کیا، ان کی آواز نے ہماری محبت کو بھی جوت لگا دی، بولیں:
کہاں ہیں؟ واک کر رہی ہیں؟ ذرا ہمارے گھر تک آئیں گی؟

؎ آپ بلائیں ، ہم نہ آئیں، ایسے تو حالات نہیں

ہماری زبان کی گنگناہٹ پر دل بھی جھوم جھوم گیا، ہمارے قدموں میں ذرا تیزی آ گئی۔ انہوں نے بات آگے بڑھائی: ذرا زردہ بنایا ہے، آپ کی بلڈنگ کے مکینوں کے لئے، لے جائیے، ہم نے ابھی دوہری خوشی کا اظہار بھی نہ کیا تھا کہ انہوں نے بات مکمل کر دی۔
میں بیرونی دروازہ کھول رہی ہوں، بس وہیں سے کھانا اٹھا کر لے جائیے گا۔

آپ سے ملے بغیر؟ ہمارے دل میں چھن کر کے کچھ ٹوٹ گیا۔ بولیں:
جی ہاں، ہم عمر کے اس حصّے میں کوئی رسک نہیں لے سکتے، آپ کو تو پتا ہے نا، عمر رسیدہ لوگ زیادہ خطرے میں ہیں۔

ہمارے قدم سست ہوئے اور پھر گھر لوٹ آئے، میاں صاحب جا کر زردہ لے آئے جو ہم نے بلڈنگ میں تقسیم کر دیا، اور ہمیں تو کافی پھیکا لگا، (شاید اس لئے کہ ہمارے منہ کا ذائقہ ہی پھیکا ہو گیا تھا۔)

پہلے تو ترکِ تعلق کی وبا پھیلے گی
پھر محبت کا بھی انکار کیا جائے گا

ہم سر منہ ڈھانپے سودا سلف لینے قریبی مال پہنچے تو داخل ہوتے ہی استقبالیہ کاؤنٹر نظر آیا، جہاں ایک آلے سے ہمارے جسم کا درجہ حرارت مانیٹر کیا گیا، کسی روایتی تھرمامیٹر سے نہیں، بلکہ ایک جدید مقیاسی آلے سے، اور سر کے اشارے سے آگے چلنے کا عندیہ دیا گیا، اگلے کاؤنٹر پر سینی ٹائزر کا اہتمام تھا، اس سے ہاتھوں کو جراثیم سے پاک کر چکے تو ساتھ ہی پولی تھین دستانوں کا ڈبہ رکھا تھا، ایک ٹیشو پیپر کا ڈبہ بھی!

سارے اہتمامات کے بعد مطلوبہ مرکز میں پہنچے تو یہاں بھی وہ سارے انتظامات موجود پائے جن سے پاک صاف ہو کر ہم یہاں تک پہنچے تھے، ٹرالی کی جانب بڑھے تو ایک اہلکار نے اس کے ہینڈل کو سینیٹائز کر کے ہمارے حوالے کر دیا، اب ہم لگے بڑی احتیاط سے ٹرالی بھرنے، پوری کوشش تھی کہ فقط اسی شے کو چھوئیں، جس کے بغیر گزارا مشکل ہے، اور جسے لینا ہماری اشد ضرورت ہے۔

اسے کم سے کم ’’ ٹچ ‘‘ سے اٹھائیں، اور فوراً ٹرالی میں انڈیل لیں۔ سب سے زیادہ مشکل تو سبزی اور پھل خریدنے میں ہوئی، ہم جو بڑی چھان پھٹک سے خریداری کرتے ہیں کسی طرح خود کو آمادہ نہ کر پا رہے تھے، کہ جیسا کچا پکا پھل ہاتھ میں آ جائے ، اسی پر قناعت کر لیں، مگر شہر کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر من مانی کی ہمت بھی نہ ہو رہی تھی۔ گلوز کے ساتھ پولی تھین شاپرز کو کھولنا بھی ایک دقت طلب کام تھا، ہم نے دیکھا کہ کچھ گاہکوں نے ایک ایک دستانہ اتار دیا ہے!

باہر نکلے تو ایک پاکستانی صاحب مل گئے، زبانی طور پر پرجوش سلام کے عقب میں دیکھا تو مصافحے کے لئے ’’کہنی‘‘ آگے بڑھا رہے تھے، بالکل وہی منظر، جیسا بچپن میں شرارت میں کچھ بچے ہاتھ کے بجائے کہنی آگے کر دیتے تھے۔

افسوس یہ وبا کے دنوں کی محبتیں
ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گئے

زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ہمیں بلڈ شوگر ٹیسٹ کروانے کے لئے ہسپتال جانا پڑا، ہم ’’احتیاط اور فاصلے‘‘ کا سبق دہراتے ہسپتال کی او پی ڈی میں پہنچے، ابھی ہم نے اندر قدم بھی نہ رکھا تھا کہ سیکیورٹی نے ہمیں روک لیا، اس کے ساتھ دو کیموفلاج ڈاکٹرز آگے بڑھے، کہ ایسی کیا ایمرجنسی ہے کہ آپ ہسپتال ہی آگئے۔

ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انہیں کیسے بتائیں، کہ اتنے میں ہمارے خیرخواہ ڈاکٹر صاحب باہر آگئے۔ وہ ہمیں اپنی ذمہ داری پر اندر لے گئے، اور ٹیسٹ کروا کر باہر چھوڑ گئے۔ ہسپتال میں جگہ جگہ نئی ہدایات آویزاں تھیں، جس میں نمایاں طور پر ’’سلام النظر‘‘ بھی تھی، یعنی غضّ ِ بصر کی بجائے سلامتی کا تمام پیغام چنی منی سی آنکھوں کو پہنچانا ہے۔

معلوم ہوا، کہ مزاج ِ شہر آج برہم ہے، اسی احتیاط کے سلسلے میں ہسپتال نے اپنی او پی ڈی بھی بند کر دی ہے۔ اگلے کئی روز تک معزز ڈاکٹر صاحبان کھلے میدان تلے مریضوں کا معائنہ کر رہے تھے، کیونکہ ایک کورونا پازیٹو خاکروب نے پورے ہسپتال کا نظام تلپٹ کر ڈالا تھا۔

ہمارے ایک محترم نے میاں صاحب کو فون کیا، آپ بازار میں ہیں تو کچھ سامان ہمارا بھی لے آئیے۔ حسنِ اتفاق سے ہم بھی ہمراہ تھے، انہیں سامان دینے گئے تو میاں صاحب نے کہا:
جائیے آپ بھی اندر جا کر سلام کر لیجیے۔
ہم تھوڑا سا جھجھکے: پہلے باجی سے اجازت تو لے لیں، مگر صاحب ِ خانہ نے ہمیں اندر جانے کا اشارہ کیا، ہم اندر داخل ہوئے تو ہمیں جگہ جگہ سامان کے ڈھیر دکھائی دیے، کہیں پیاز کی ڈھیری ہے اور کہیں، لہسن کی، کہیں چاولوں کی تھیلی اور کہیں دالیں! زینے کے کچھ قدم چڑھے تو شیمپو ، صابن ، اور بلیچ کی بوتلیں نظر آئیں، ایک جانب ٹیشو پیپر کے ڈبے، حتی کہ سینی ٹائزر کی بوتلیں بھی وہیں محوِ استراحت پائیں۔

ہم بھی لاؤنج کے دروازے پر پہنچ کر کھڑے ہو گئے، سوچ رہے تھے، شاید ہمیں بھی قرنٹائن کیا جائے گا، یا سینیٹائیزر سے پاک و مطہر کیا جائے گا۔ دیوار سے چپکے کھڑے تھے، کہ اندر سے آواز آئی:

آجائیں بھابھی! ہم نے جوتے اتارنے چاہے تو وہ ہمیں باصرار اندر لے گئیں، ہم ابھی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ ہاتھ آگے کریں یا کہنی، کہ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر ہمیں گلے لگا لیا، ہم نے بتایا بھی کہ بازار سے ہو کر آرہے ہیں، اگرچہ ہم تو گاڑی ہی میں بیٹھے رہے، مگر انہوں نے ہمیں بڑے تپاک سے صوفے پر بٹھا لیا۔

شہر تو نئے مزاج ہی کا ہے، اور فاصلے بھی باقاعدہ ماپ تول کر پیدا کر لیے گئے ہیں، اور ہماری میزبان بھی بڑی محتاط سی ہستی ہیں، مگر اقبال کا ایک شعر نئے مزاج کے شہر پر یہ کہہ کر غالب آگیا:

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو!”

  1. عشرت زاہد Avatar
    عشرت زاہد

    بہت اچھی تحریر ہے ماشاللہ ۔ہلکی پھلکی اور بر وقت اور حالت حاضرہ کے عین مطابق نقشہ کھینچا ہے۔ پڑھتے ہوئے ہم بھی ساتھ ساتھ ہی تھے۔۔