مولانا ڈاکٹر عادل خان کا خون گاڑی کی سیٹ پر

میرے ہاتھوں پر خون لگ گیا ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سمیرا غزل :

میرے ہاتھوں پر خون لگ گیا ہے۔میں یکدم ہی چونک جاتی ہوں، پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھتی ہوں ، کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ سوچتی ہوں ہاتھ دھو آئوں۔ مگر جب ہاتھ دیکھتی ہوں تو خون نظر نہیں آتا۔ مگر مجھے ایسا ہی لگتا ہے اور بار بار لگتا ہے کہ میرے ہاتھوں میں خون لگا ہوا ہے۔

نیوز فیڈ اسکرول کرتے ہوئے اچانک ہی اس تصویر پر ہاتھ پڑ گیا جس میں گاڑی کی وہ سیٹ دکھائی گئی تھی جو خون آلود تھی اور جس پر بیٹھے ہوئے صحابہ کی عظمت کے محافظ پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔

مجھے تب سے یہی لگ رہا ہے کہ میں نے اس سیٹ کو حقیقت میں چھو لیا ہے، اور میں تڑپ کر رہ گئی ہوں، کوئی بات حقیقت سے اتنی قریب کیوں کر لگ سکتی ہے؟ اتنی بے چینی کیوں پیدا ہوسکتی ہے؟
ہاں ہو سکتی ہے۔ میرے بے قرار دل سے آواز آتی ہے ہو سکتی ہے ، بالکل ہوسکتی ہے ۔

درحقیقت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا حکم اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دیا ۔ صحابہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش پا پر چلے، صحابہ جو اشارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تن من دھن قربان کرنے چلے ، صحابہ جو آپ کی محبت میں فقر و فاقہ اختیار کرنے چلے ، صحابہ جو محبت کے امین ہیں، صحابہ جو ناموس دین کے امین ہیں ، صحابہ جو بدر ہیں ، احد ہیں ، خیبر ہیں ، خندق ہیں۔

مولانا ڈاکٹر عادل خان

اور وہ صحابہ کا جانثار تھا ، ایک للکار تھا ، حق کی پکار تھا، جس نے حاکم وقت کو للکارا، یہ اس چراغ کا لہو تھا جو گاڑی کی سیٹ پر پڑا تھا، تو وہ خون کیوں نہ ایک حقیقت لگتا۔

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں ان کی تقاریر بہت سنتی رہی ہوں، یا شاید آپ سوچیں کہ میں ان کو بہت پڑھا ہوگا۔ میری اس کیفیت کے بعد ایسے بہت سے خیالات جنم لے سکتے ہیں حالانکہ کبھی ان سے درس لینے یا کچھ پڑھنے کا اتفاق بھی نہیں ہوا مگر وہ ایک عالم ہیں تو زمانے کے استاد ہیں اور میں انھیں اسی حیثیت میں جانتی ہوں۔

اور میں اب بھی اس گمان سے نہیں نکل پارہی ہوں کہ میرے ہاتھ پر خون لگا ہوا ہے اور اس بات پر بھی حیران ہوں کہ مجھے وہ خون اتنی شدت سے محسوس کروایا گیا ہے۔ میرا یقین ہے کہ جس نے بھی اس سیٹ کو دیکھا یا چھوا ہوگا، سب نے اسی شدت سے محسوس کیا ہوگا ، بے شک انداز الگ ہوگا مگر شدت رہی ہوگی کہ یہی گمان حقیقت ہے ۔ کیوں کہ کچھ جذبے ودیعت ہوتے ہیں،عطا ہوتے ہیں،محسوس کرائے جاتے ہیں اور یقیناً ان کے لہو کی تابانی کو اس نامعلوم حس سے متحرک کر دیا گیا ہے۔

یہ خون جو مجھے تازہ بہ تازہ اپنے ہاتھ پر محسوس ہو رہا ہے ، اس بات کا گواہ ہے کہ مولانا عادل خان صاحب کا خون محض رزق خاک ہوکر نہیں رہ جائے گا، اس کا حساب ہوگا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، گستاخان صحابہ ناکام و نامراد رہیں گے۔انشاء اللہ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں