کتاب اور رسالے

خواب دیکھتی آنکھیں‎

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سمیرا غزل :

میری سہانی یاد کا تعلق ان دو آنکھوں سے ہے جو خواب دیکھتی ہیں اور بچپن سے آج تک ان دو آنکھوں نے خواب ہی دیکھے ہیں۔ خواب کا یہ سفر مجھے کتاب نے دیا، کتاب جس سے میری کئی عزیز ہستیوں کا تعلق جڑا ہے۔ میں نے اس کتاب اور کتاب کی دی ہوئی خواب دیکھنے والی آنکھوں ہی سے دنیا کو دیکھا اور سوچا تو دنیا مجھے بہت حسین نظر آئی۔

میری ان خواب دیکھتی آنکھوں میں ایک نہیں ہزاروں لاکھوں سہانی یادیں محفوظ ہیں جنھیں میرے دل کی آنکھوں نے محفوظ کر لیا ہے۔

میرا وہ پرانا گھر جس میں پانچ کمرے ، بڑا سا صحن اور پچھلے حصے میں دو دالان تھے۔ اس گھر کے ہر کمرے میں کتابیں تھیں۔ جو نفس جس کمرے میں سوتا اس کے تکیے کے ساتھ کتابیں جاگتیں اور سوتیں۔ یوں اس کتابی ماحول میں بڑی ہوتی گئی اور کتاب سے خواب کشید کرنا سیکھ گئی۔

اس سہانی یاد میں امی کے بچوں کے ماہانہ رسالے ہدیہ کرنا بھی شامل ہیں۔ ابو کے بے نام چھوٹی چھوٹی سی غیر طے شدہ ادبی محفلیں بھی۔

میرے بڑے بھائی کے لائے ہوئے بچوں کے رسالے بھی جس نے اب آکر یہ بات سمجھائی کہ وہ بچوں والے رسالے ہمارے ہی لیے بغیر کہے بتائے یا جتائے منگوائے جاتے تھے اور تربیت کا یہ خاموش حصہ میری زندگی میں میں شامل رہا۔

میرے دوسرےبھائی کی کتابوں کا صندوق مجھے ہمیشہ جادو کی نگری لگا ، وہاں سے بھی وقتاً فوقتاً سخن سیری کی۔
میری باجی کا اخبار سے لکھائی کرانا اور پھر کتابیں لے کر اتنا پڑھانا کہ پوری کتاب ہی یاد ہوجاتی۔

غرض کہ یہی وہ سیڑھیاں تھیں جنھوں نے مجھے لاشعور سے شعور کی منزل پر لا بٹھایا اور کتاب سے محبت کو پختہ کیا ، پھر باقی کے خواب میرے اپنے تھے۔

میں بڑی ہوتی کتاب کی محبت سے الکتاب کی محبت میں گرفتار ہونے لگی اور میری آنکھوں میں خواب وسیع ہونے لگے۔ ان خوابوں کی بھول بھلیوں میں گم آس پاس کے لوگوں کو شاید میں کبھی پاگل بھی لگتی۔
مگر میری بے چین روح کو قرار نہ تھا،
میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مسیحائی کے راز کھوجنا چاہتی تھی،
میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں آگ سے کچھ کشید کرنا چاہتی تھی ۔
میں خضر کو راہ نما بنا کر فاصلے ماپنا چاہتی تھی۔

میں دعائوں کی وہ تاثیر جاننا چاہتی تھی جو رب کریم نے حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں عطا کی،
میں حسن یوسف میں دیوانی زلیخا اور انگلیاں کاٹ دینے والیوں کا منظر کسی یادداشت میں محفوظ کر لینا چاہتی تھی۔

میں حضرت ابراہیم علیہ کی پیروی کرکے بالترتیب توحید کی حقانیت پانا چاہتی تھی۔
میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں گم ہو کر اس دنیا کو ایک فقیر کی صورت محسوس کرنا اور برتنا چاہنے لگی۔

پھر میں نے جذب کے عالم میں اپنی خواب آنکھوں سے ٹوٹی پھوٹی لکیریں قلم بند کیں ۔ایک دو مصرعے لکھے وہ ابھی نشوونما کے سفر میں ہیں ان کو الفاظ کا زاد سفر درکار ہے۔

انھی دنوں ابھی جب راستے مبہم تھے، منزلیں انجانی تھیں، ابھی کھرے اور کھوٹے کی پہچان نہ تھی، ابھی جب میں اپنی منزل کا تعین نہیں کر پارہی تھی اور میری خواب دیکھتی آنکھیں روز ایک نیا جہان بنارہی تھیں ۔ میں ایسی سہیلیوں سے جا ملی جن کے پاس منزل مقصود کا تعین تھا اور راستہ بھی متوازی تھا ، میں ان کے ساتھ اس راستے پر چل کر اب ایک راستے پر تھی وہ راستہ جو بار بار راہ کے ٹیڑھ بتاتا ہے اور گرنے سے پہلے سنبھال لیتا ہے۔

اس راہ نے اب لوگوں سے محبت کرنا سکھادی ہے اپنے لیے نہیں اللہ کے لیے۔ مگر ساتھ ہی ان کی پہچان بھی کرادی ہے جن کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ
مومن ایک ہی سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔

اب اپنے فیصلے خود لینا آنے لگے ہیں،اب دنیا کا خوف ختم ہونے لگا ہے ساتھ ہی دنیا کی محبت بھی۔ کس سے کیسے ملنا ہے کتنا فاصلہ رکھنا ہے، یہ سب میری آنکھوں نے ان سہیلیوں کے ساتھ مل کر سیکھا جو الکتاب سے آشنا تھیں۔

سچ تو یہ ہے کہ کتاب نے سوچنا سکھایا ،کتاب نے حق کہنا سکھایا، کتاب نے زیادتی سے بچایا ،کتاب نے بوجھ بننے سے بچایا، کتاب نے خوشآمد کرنے اور خوشآمد پسند ہونے سے بچایا۔

زندگی میں ہمیشہ ایک ہی جیسا سب کچھ نہیں رہتا، وقت بدلتا ہے، اتار چڑھائو بھی آتے ہیں، ان حالات میں کوئی تحریر ساتھ نبھاتی ہے، کسی کا قول حوصلہ بڑھاتا ہے، اداسی کے جان نچوڑتے لمحوں میں میری سہیلی بنی کتاب ۔ میری رازدان بنی کتاب ۔ جس نے مجھے کبھی کوئی ضرر نہیں پہنچایا۔

مگر ان سہانی یادوں کو یہاں لکھتے ہوئے یہ بھی بتانا چاہوں گی، کتاب ان آنکھوں میں خواب بنتی ہے جو اس سے سودے بازی نہیں کرتے، جو اسے محض مقصد کے حصول تک یاد نہیں رکھتے جن کی زندگی کا یہ جز نہیں کل ہوتی ہے، جو محض خط کشید جملوں سے کام نکالنے والے نہیں ہوتے۔

کتاب اس کی آنکھوں کا خواب ہے جس کی یہ زندگی ہے،جس کے لیے تسکین قلب ہے، جس کے لیے اس کا ساتھ بغیر مادی مقصد کے لازم و ملزوم ہے۔ کسی بھی بے بصیرت اور مادیت پسند نے کتاب سے کوئی فیض نہیں پایا چاہے کمائے اس نے لاکھوں ہوں۔

کتاب کے اصل تعلق کو سمجھے بغیر کتاب پڑھنا تخمین و ظن کے سوا کچھ نہیں جس سے مادی حرارت تو پیدا ہو سکتی ہے مگر انسان عشق کے سمندر میں غوطے نہیں لگا سکتا۔ وہ رومی اور غزالی نہیں بن سکتا ، اویسی اور جنیدی نہیں بن سکتا ، شمس تبریز نہیں بن سکتا۔

ہماری نارمل زندگی میں ہم مذہب سے ظاہری تعلق جوڑتے ہیں تو نورانی قاعدہ اور چند مسنون دعائوں سے آغاز کرتے ہیں مگر حقیقی تعلق تو عمر کے چلتے سفر میں پڑھی گئی کتابیں ، کہانیاں ، افسانے ، ناول جوڑتے ہیں اور الکتاب کی گرہ میں باندھ دیتے ہیں۔

میری سہانی یاد میں سب سے بڑی سہانی یاد وہ ایک کتاب ہی ہے جسے میں نے کمرے میں دیکھا ، سرہانے دیکھا ، اٹھایا ، پڑھا ، زبان پہ جس کا ذائقہ لیا ، جس نےمحبت کرنا اور بے غرض رہنا سکھایا اور پھر صحیح راستے کی کھوج نے اسے الکتاب میں جا بسایا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں