نواب آف کالاباغ، ملک امیر محمد خان اعوان اور بوڑھ بنگلہ

نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان اعوان کی دلچسپ داستان جس میں‌ سیکھنے کو بہت کچھ ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فاروق عادل :

’ بھیگے بادام اور گاجریں ‘ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کی صبح جسم و جاں میں توانائی کے خزانے بھر دینے والی اِن نعمتوں سے ہوا کرتی۔ 26 نومبر 1967 کی صبح بھی نواب کے ذاتی ملازم خدا بخش معمول کے مطابق اُن کے کمرے میں داخل ہوئے، سجی سجائی سینی (گول ٹرے) ان کے سامنے رکھی اور باہر آ کر سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔

معمول یہ تھا کہ نواب صاحب جیسے ہی گاجر کا آخری ٹکڑا چبا لیتے، ملازم کو بُلا کر برتن اٹھا لینے کی ہدایت کرتے لیکن اُس روز معمول میں کچھ فرق آ گیا۔

اُس روز کچھ گاجریں اور بادام ابھی باقی تھے کہ خواب گاہ کے باہر شور سُنائی دیا۔ پتا چلا کہ نواب صاحب کے دو فرزند دروازے پر کھڑے ہیں اور کہیں جانے کے لیے نواب صاحب کی جیپ طلب کر رہے ہیں۔

نواب صاحب نے چابی ان کے حوالے کر دی۔ جیسے ہی چابیاں اُن کے ہاتھ میں آئیں، وہ دونوں گاڑی کی طرف جانے کے بجائے خواب گاہ کے دروازے کی طرف بڑھے اور ہیجانی انداز میں اسے کھولتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔

نواب امیر محمد خان کے سوانح نگار سید صادق حسین شاہ نے اپنی کتاب ’نواب آف کالاباغ‘ میں یہ واقعات پوری تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں۔

نواب صاحب کے بوڑھ والے بنگلے میں، جہاں وہ کبھی سعودی عرب کے شاہ فیصل، ایوب خان، اسکندر مرزا، ذوالفقار علی بھٹو، امریکی خاتون اوّل مسز روز ویلٹ سمیت کئی دوسری عالمی شخصیات کی میزبانی کر چکے تھے، گذشتہ کئی روز سے کشیدگی کے آثار تھے۔ اس کشیدگی کے پتا بنگلے کے مکینوں کے علاوہ ملازمین کے چہروں سے بھی عیاں تھا۔

سوانح نگار سید صادق حسین شاہ کے مطابق نواب صاحب کے دو بیٹوں نوابزادہ مظفرخان اور نواب زادہ اسد خان کی اپنے والد کے کمرے میں یہ گستاخانہ انٹری اسی کشیدگی کا تسلسل تھی۔ اس کے فوراً ہی بعد باہر سیڑھیوں پر بیٹھے خدا بخش کو کمرے سے تلخ کلامی کی آوازیں سنائی دیں، اس کے بعد فائرنگ کی۔

’ اوئے، کے پئے کریندے او؟ ‘ ( ارے، کیا کررہے ہو؟ )۔ خدا بخش کے کانوں میں نواب صاحب کا جب یہ جملہ پڑا تو وہ بھی کمرے میں داخل ہو گئے، نوابزادہ مظفر نے انھیں بالوں سے پکڑ کر صوفے پر پٹخا اور کہا ’کسی کو بتایا تو اس سے بھی بُرا حشر کروں گا۔‘

اسی دوران اور ایک اور ملازم عالم خان کمرے میں داخل ہوا، اسے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا کہ ’ کمرے سے نکل جاؤ، نواب صاحب کو دورہ پڑ گیا ہے۔ ‘ گولی لگنے کے بعد نواب صاحب قالین پر اوندھے منھ گر چکے تھے اور اُن کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق دونوں بیٹے اس وقت تک کمرے میں موجود رہے جب تک روح نواب کے جسم سے پرواز نہیں کر گئی۔

آخر ایسا کیا اختلاف تھا جس کی وجہ سے معاملات ایسی انتہا پر جا پہنچے کہ بیٹے اپنے باپ کی جان کے درپے ہو گئے؟

سید صادق حسین شاہ نے کئی برس گزرنے کے بعد یہ سوال نوابزادہ اسد خان سے پوچھا جو اپنے والد کے قتل کے الزام میں نامزد رہنے کے بعد عدم ثبوت کی بنا پر بری ہو چکے تھے۔ نوابزادہ اسد نے سوانح نگار کے سوال کا براہ راست کوئی جواب دینے کے بجائے کہا کہ ان کے تو اپنے والد سے کوئی اختلافات نہ تھے، البتہ بھائی نوابزادہ مظفر خان کو ان کی پالیسیوں سے کچھ اختلاف تھا جس کا اظہار وہ برملا کیا کرتے تھے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ وقوعہ کے روز انھوں نے اپنے بھائی کو والد کے کمرے کی طرف جاتے دیکھا تو وہ بھی ان کے پیچھے چلے گئے۔ پہلے خود نواب صاحب (یعنی ان کے والد) نے فائرنگ کی، ایک گولی انھیں (یعنی نوابزادہ اسد) کے بازو میں لگی اور دوسری قریبی دیوار میں پیوست ہو گئی۔ جواب میں نوابزادہ مظفر نے پانچ گولیاں چلائیں، نہایت قریب سے چلائی گئی بریٹا پستول کی گولیاں نواب صاحب کی جان لے گئیں۔

نواب صاحب کی وہ کیا پالیسیاں تھیں، نوابزاد ہ مظفر کو جن سے اختلاف تھا؟ مصنف کے مطابق نواب صاحب جن دنوں پنجاب کے گورنر تھے، ’ریاست‘ کالاباغ کا تمام تر انتظام ان کے بیٹوں کے ہاتھ میں آ گیا جس کے نتیجے میں ضلع میانوالی میں جبر کی فضا قائم ہو گئی اور نواب زادگان نے سیاسی مخالفین کو زور زبردستی راستے سے ہٹا دیا یا مخالفین کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

نواب صاحب گورنر کا منصب چھوڑ کر واپس کالاباغ پہنچے تو اِس صورت حال کو انھوں نے اپنے لیے ناخوش گوار پایا۔انگریزی اخبار’دی نیشن‘ نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں وراثت کی تقسیم سے متعلق اختلافات کا بھی ذکر کیا ہے جن کے مطابق نواب صاحب نے کچھ ایسے اشارے دیے تھے کہ وہ اپنی جائیداد اپنے بیٹو ں کو منتقل کرنے کے بجائے براہ راست اپنے پوتوں کے نام کر دیں گے، یہی اختلاف تھا جو اِن کی جان لے گیا۔

یہ شخص جو یوں ایک صبح بے بسی کے ساتھ مارا گیا، کبھی اتنا طاقتور تھا کہ مغربی پاکستان میں اس کی اجازت کے بغیر پتہ تک نہیں ہلتا تھا۔

یہ شخص سیاست میں نہیں آنا چاہتا تھا لیکن یہ دیکھ کر کہ اس زمانے کے وزیر اعلیٰ نواب افتخار حسین ممدوٹ اراکین اسمبلی کے سوا کسی دوسرے کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دیتے، وہ انتخاب لڑ کر اسمبلی میں پہنچ گئے لیکن بعد میں حکومت نے انھیں وزیر بنانا چاہا تو ان کی انا آڑے آئی۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسکندر مرزا ملک کے صدر اور ایوب خان سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ بیرون ملک جاتے ہوئے اسکندرمرزا سے کہہ گئے کہ نواب آف کالاباغ کو مرکز میں وزیر بنا لیا جائے۔ یہ پیشکش ان تک پہنچائی گئی تو کہا میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ ٹکے ٹکے کے ممبران اسمبلی کے سوالوں کے جواب دوں اور بات بات پر جناب سپیکر، جناب سپیکر کی گردان کروں۔

تاہم ایوب خان نے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد انھیں گورنر مغربی پاکستان بننے کی پیشکش کی تو اسے قبول کرنے میں انھیں کوئی تامل نہ ہوا۔ یہ منصب ان کے مزاج کے مطابق تھا کیونکہ انھیں یہاں کسی کو جواب نہیں دینا تھا، سب ان کے سامنے جوابدہ تھے۔

پنجاب کا یہ جدی پشتی جاگیردار اقتدار کے ایوان میں داخل ہوا تو اس کے انداز بڑے جداگانہ تھے۔ انھوں نے پابندی عائد کر دی کہ خاندان کا کوئی شخص بھی گورنر ہاؤس میں داخل نہیں ہو گا۔

ایک بار کوئی سفر درپیش تھا، صورتحال کچھ ایسی بنی کہ ان کے ایک صاحبزادے کو ان کی گاڑی میں بیٹھنا پڑا، انھوں نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر والد کے برابر بیٹھنا چاہا تو انھیں وہاں سے اٹھا دیا اور کہا کہ یہ جگہ ملٹری سیکریٹری کی ہے، تم اگلی نشست پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھو۔

گورنر مغربی پاکستان کی حیثیت سے صوبے کے تمام امور پر ان کی گرفت انتہائی سخت تھی، یہ شہرت ملکہ برطانیہ تک پہنچی تو انھوں نے کہا کہ جنگل کا شیر بھی نواب کا کہنا ماننے پر مجبور ہے۔

ان کی مؤثر ایڈمنسٹریشن کا راز یہ تھا کہ وہ اہم عہدوں پر تعیناتی کے لیے افسروں کا انٹرویو خود کرتے، خاندانی پس منظر اور اُن کی کئی پشتوں تک کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے۔ افسروں کے انتخاب میں ان کی احتیاط کو دیکھتے ہوئے کسی نے ان سے کچھ سوال کیا تو کہا کہ ہم لوگ تو گھوڑا اور کتا خریدتے ہوئے بھی شجرہ دیکھتے ہیں، یہ تو ملک کا معاملہ ہے۔

ایک بار پی ایم اے کے کیڈٹس کے انتخاب پر بھی اسی قسم کا تبصرہ کرتے ہوئے کہا مجھے خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں عسکری قیادت کا معیار کمزور ہو جائے گا۔

سول افسروں کی طرح فوجی افسروں کے بارے میں وہ خاصی معلومات رکھتے تھے۔ انھیں جب معلوم ہوا کہ ایوب خان یحییٰ خان کو فوج کا سربراہ بنانے والے ہیں تو کہا کہ یہ ان کی عظیم ترین غلطی ہو گی کیونکہ وہ شرابی اور عیاش آدمی ہیں۔

جنرل سرفراز چاہتے تھے کہ یحییٰ کی جگہ انھیں یہ منصب ملنا چاہیے، اس مقصد کے لیے وہ نواب صاحب کی مدد کے طلب گار بھی ہوئے لیکن ان کے بارے میں نواب صاحب کی رائے مثبت نہیں تھی، ان کا خیال تھا کہ سنہ 1965 کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر ان کی کارکردگی اطمینان بخش نہ تھی۔

صوبے کے حالات سے آگاہی کے لیے انھوں نے تمام متعلقہ افسروں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ اپنے محکمے اور علاقے کی تمام تر معلومات براہ راست گھر کے پتے پر انھیں روانہ کیا کریں۔ صوبے کے حالات کے بارے میں اس طرح کی رپورٹیں اور اپنے نام آنے والے تمام خطوط وہ اپنے ہاتھ سے کھولتے، براہ راست احکا م جاری کرتے اور ان احکامات پر ہونے والی پیش رفت سے ذاتی طور پر آگاہ رہتے۔

اس مقصد کے لیے انھوں نے ذاتی طور پر ایک نظام قائم کر رکھا تھا۔ ان کی کارکردگی اور حالات سے واقفیت سے حیران ہو کر لوگ ان سے سوال کیا کرتے کہ یہ سب آپ کیسے معلوم ہو جاتا ہے؟ وہ کہا کرتے کہ یہ باتیں مجھے میرا جن بتاتا ہے۔

سنہ 1965 کی جنگ اور اس سے پہلے آپریشن جبرالٹر اور گرینڈ سلام کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی کہ یہ ایک سازش ہے جس میں بھٹو اور ان کے ساتھی ملوث ہیں۔ ان آپریشنوں اور جنگ کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ ان کی وجہ سے ناصرف ملک نقصان میں رہے گا بلکہ ایوب خان کا اقتدار بھی کمزور ہو جائے گا۔

ایوب خان کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے لکھا ہے کہ جنگ کے زمانے میں نواب صاحب منظر سے غائب ہو گئے تھے لیکن دوسری طرف اس کے بالکل متضاد اطلاعات بھی موجود ہیں۔

ان کے سوانح نگار نے جنرل شیر علی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک بار وہ ہیلی کاپٹر میں جنگی زدہ علاقے کا دورہ کر رہے تھے کہ زمین پر انھوں نے ایک سویلین کو فوجیوں کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا۔ یہ منظر حیرت انگیز تھا، لہٰذا انھوں نے ہیلی کاپٹر اتروا کر صورت حال کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ تو نواب آف کالا باغ ہیں جو فوجیوں میں بسکٹ تقسیم کر رہے تھے۔

سوجی، السی اور دیسی گھی سے بنے ہوئے یہ بسکٹ انھوں نے خصوصی طور پر اپنے گھر میں تیار کرائے تھے۔ جنرل شیر علی یہ دیکھ کر متاثر ہوئے اور انھوں نے کہا کہ قوم کو آپ جیسے لیڈروں ہی کی ضرورت ہے۔ نواب صاحب نے جواب دیا کہ جنگیں ہمیشہ قوم کے جذبے سے لڑی جاتی ہیں اور میں بھی اسی قوم کا ایک فرد ہوں۔

اسی جنگ کے دوران ایوب خان نے انھیں مشورہ دیا کہ حفاظت کے پیش نظر وہ گورنر ہاؤس سے ملٹری ہاؤس میں منتقل ہو جائیں جس پر انھوں نے کہا کہ جوانوں کو محاذ پر بھیج کر میں خود چھپ کر بیٹھ جاؤں، یہ میرے لیے ممکن نہیں۔

یہ جنگ کے بالکل ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ انھوں نے تاجروں کو طلب کیا، یہ لوگ گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں جمع ہو گئے جہاں وسط میں صرف ایک کرسی رکھی تھی۔

تاجروں کا وفد ہال میں آ کر کھڑا ہوا تو کچھ دیر کے بعد وہ ہال میں آئے اور وہاں موجود واحد کرسی پر بیٹھ کر کہا کہ لمبی چوڑی گفتگو کی گنجائش نہیں یہ جنگ کا زمانہ اور قربانی کا وقت ہے۔ اگر کسی نے اشیائے ضرورت ذخیرہ کیں یا مقررہ نرخ سے زائد پر فروخت کیں تو ذخیرہ شدہ سامان عوام میں تقسیم اور دکان مستقل طور پر سیل کر دی جائے گی۔

جنگ ہی کے دنوں میں ایک بار سکیورٹی کے بغیر وہ بازار پہنچ گئے۔ انھیں اطلاع ملی تھی کہ کوئی تاجر مقررہ نرخ سے زائد پر گندم فروخت کر رہا ہے۔ اسے کہا تم شاید یہ سمجھتے ہوگے کہ امیر محمد جنگ میں مصروف ہے اور تم من مانی کر لو گے؟ میری مونچھ کو تاؤ آنے سے پہلے نرخ اپنی جگہ پر آ جائیں ورنہ ایسی سزا دوں گا کہ دنیا یاد کرے گی، اس کے بعد پورے صوبے سے ایسی کوئی شکایت نہ آئی۔

سنہ 1962 میں ایوب خان نے جب کنونشن لیگ بنائی تو رکنیت کا فارم بھر کر سب سے پہلے خود انھوں نے ہی اس کی رکنیت اختیار کی۔ اس موقع پر معروف سیاسی راہنما راؤ عبدالجبار نے نواب صاحب سے کہا کہ آپ بھی فارم بھر دیں۔ انھوں نے یہ سنا، مسکرائے اور کہا کہ مجھے اس گندگی میں نہ گھسیٹیں۔

ایوب خان نے یہ بات سن لی اور کہا کہ نواب صاحب، یہ آپ نے کیا کہا؟ وہ پھر مسکرائے اور کہا ’جناب صدر، گورنر تو سرکاری ملازم ہوتا ہے، اسے سیاست سے دور رہنا چاہیے۔‘

ایوب خان یہ سن کر خاموش ہو گئے ورنہ وہ بھی جانتے تھے کہ نواب صاحب کے انکار کا مقصد کیا تھا، نواب صاحب کو مسلم لیگ میں پھوٹ ڈال کر ایک نئی جماعت کا قیام ناپسند تھا۔ نواب صاحب کنونشن لیگ میں تو اگرچہ شریک نہ ہوئے لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ صدارتی انتخاب میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو شکست سے دوچار کرنے کے جوڑ توڑ میں وہ پوری طرح شریک رہے۔

دل و جان سے ایوب خان کا ساتھ دینے کے باوجود وہ ان سے برملا اختلاف بھی کر لیا کرتے تھے۔ سنہ 1963 میں جماعت اسلامی کے ایک جلسے میں فائرنگ ہو گئی جس میں ایک کارکن اللہ بخش جاں بحق ہو گئے۔

ان کے سوانح نگار کے مطابق اس واقعے نے انھیں الجھن میں مبتلا کر دیا تھا کیونکہ مولانا مودودی سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے، چنانچہ بانی جماعت کے نام ایک خط میں انھوں لکھا کہ اس طرح کی حرکتیں نئے سیاست دانوں (اشارہ ایوب خان کی طرف تھا) کی ہیں، میرا یہ طریقہ کار نہیں۔

اس سلسلے میں انھوں نے ایوب خان کو بھی ایک خط میں لکھا کہ حزب اختلاف کے ساتھ ایسے سلوک سے قانون کی دھجیاں اڑ جائیں گی۔

جماعت اسلامی کی تاریخ کے ماہر پروفیسر سلیم منصور خالد اس کہانی سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ مولانا مودودی کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انھوں نے نواب صاحب کا نام لے کر کہا تھا کہ انھوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ جماعت کا ایسا حشر کریں گے کہ لوگ مصر کے صدر ناصر کے ہاتھوں اخوان المسلمون پر مظالم بھول جائیں گے۔

جماعت کے سابق امیر میاں طفیل محمد نے بھی پروفیسر صاحب کو ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ اس زمانے کے حکمران چاہتے تھے کہ جماعت اسلامی کو ردعمل میں مبتلا کر کے احتجاج پر مجبور کیا جائے تاکہ اس کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ اس اختلاف کے باوجود پروفیسر خالد تصدیق کرتے ہیں نواب صاحب مولانا کی کتابوں کے مستقل قاری اور ان کے تحقیقی مجلے ’ترجمان القرآن‘ کے خریدار تھے۔

ایوب خان سے اختلافات اور گورنر مغربی پاکستان کے منصب سے استعفیٰ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے نواب کالاباغ کے زوال کی ابتدا ہوئی۔ دونوں راہنماؤں کے درمیان کشیدگی کی ابتدا اُس واقعے سے ہوئی جب نواب صاحب نے ایوب خان کو کراچی میں گوہر ایوب کی سیاسی و غیر سیاسی سرگرمیوں کی طرف متوجہ کیا جس پر ایوب خان نے جھنجھلا کر کہا کہ کیا میری اولاد کو پاکستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔

دوسرا واقعہ ان کے علاقے کی ایک خاتون کے اغوا کا تھا جس میں ایوب خان کے عزیز ملوث تھے۔ نواب صاحب نے یہ بات براہ راست ایوب خان سے کہی۔ کچھ دنوں کے بعد لڑکی تو واپس آ گئی لیکن دونوں خاندانوں کے درمیان سرد جنگ شروع ہو گئی۔

اس سیاسی اتحاد کو سب سے بڑی زک کراچی کے ایک ضمنی انتخاب سے پہنچی جس میں ایوب خان کے امیدوار حبیب اللہ خان تھے جب کہ نواب صاحب بلوچستان کے قوم پرست راہنما میر غوث بخش بزنجو کی حمایت کر رہے تھے، بزنجو صاحب انتخاب جیت گئے جس سے ایوب خان کو بہت رنج پہنچا، اس کے بعد ان دونوں کے درمیان دوری بڑھتی چلی گئی اور نواب صاحب اس نتیجے پر پہنچے کہ انھیں حکومت سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔

الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ایوان صدر میں ایوب خان کے ٹیلی ویژن انٹرویو کے لیے کیمرے لگائے گئے۔ایوب خان ایک ایسی جگہ پر بیٹھنے والے تھے جس کے پس منظر میں نواب صاحب کی تصویر بھی آتی۔ نواب صاحب چونکہ اس وقت تک مستعفیٰ ہو چکے تھے، اس لیے ان کی تصویر ہٹا دی گئی۔

ایوب خان نے جب یہ دیکھا کہ تصویر اپنی جگہ پر نہیں تو تصویر اپنی جگہ پر رکھنے کی ہدایت کی، اس موقع پر دھیمی آواز میں انھوں نے ایک جملہ کہا ’تنداں ٹٹیاں جڑدیاں نئیں‘ (ٹوٹے ہوئے رشتے دوبارہ استوار نہیں ہوتے)۔

ایک طرف نواب آف کالاباغ کے بارے میں ایوب خان کا یہ رویہ تھا دوسری طرف ان ہی کے ایما پر گورنر جنرل موسیٰ خان ریٹائرڈ نے ضلعی انتظامیہ، خاص طور پر پولیس کو یہ ہدایت کر دی تھی کہ ان کے کا م نہ کیے جائیں اور انھیں پروٹوکول تو بالکل نا دیا جائے۔ گویا نواب آف کالا باغ کو سیاسی طور پر غیر مؤثر کرنے کے لیے منظم طریقے سے کام شروع کر دیا گیا۔

نواب صاحب کے قتل کے بعد صورتحال بدل گئی۔ ان کے خاندان کی گرفت اگرچہ کالا باغ کی سیاست پر تادیر برقرار رہی لیکن ان کے مخالفین مزید متحرک اور منظم ہو گئے، نواب صاحب کے زمانے میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

کالاباغ کے نواب زادگان کے خلاف سب سے مؤثر سیاسی تبدیلی اس علاقے میں پیپلز پارٹی کے قیام کی صورت میں رونما ہوئی۔ نواب زادگان نے اعلان کیا کہ اگر یہاں کسی نے پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرایا تو اسے سبق سکھا دیا جائے گا لیکن بعد میں وہ خود ہی پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے پرانے ارکان نے اعلان کیا کہ وہ ان لوگوں کی پارٹی میں شمولیت کے باوجود ان کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔

سنہ 1976 میں نواب زادگان کے خلاف اس عوامی لہر کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوا جس کا پہلا بڑا سیاسی نتیجہ سنہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں سامنے آیا۔ ان انتخابات میں نواب صاحب کے صاحبزادے نواب زادہ مظفر خان کے مقابلے میں مقبول خان نیازی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔

سنہ 1988 کے انتخابات میں جمعیت علمائے پاکستان کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالستار خان نیازی کی کامیابی سے نوابزادگان کی سیاسی اہمیت میں مزید کمی ہوگئی۔ کالاباغ کے اس طاقتور خانوادے کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنے میں ایک مقامی تنظیم ’بغورچی محاذ‘ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

سیاسی زوال کے اس وقفے کے بعد سنہ 2002 کے انتخابات میں یہ خاندان ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا جب نواب صاحب کی پوتیاں عائلہ ملک اور سمیرا ملک قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، ان کے بعد نواب صاحب کا ایک پڑنواسہ بھی سنہ 2013 کی قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا۔

نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کا خاندان زوال کے اس دورانئے کے بعد بساط سیاست پر ایک بار پھر نمایاں ہے لیکن نواب صاحب کے زمانے کو لوگ اب بھی الف لیلوی داستانوں کی طرح یاد کرتے ہیں جب شام ڈھلے ان کے خاندان کی خواتین گھر سے نکلتیں تو روشنیاں گل کر دی جاتیں، ڈھنڈورچی ڈھول بجاتا ہوا نکلتا اور مرد راستے کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہو جاتے تاکہ نوابوں کے خاندان کی عورتوں پر کسی غیر مرد کی نظر نہ پڑ سکے۔

کہا جاتا ہے کہ حکم عدولی کرنے والوں کی کھال تک کھنچوا لی جاتی تھی۔

بوڑھ بنگلہ

لوگوں کو بوڑھ والے بنگلے کی رونقیں بھی اب تک یاد ہیں جہاں نواب صاحب کچہری لگاتے اور فیصلے کیا کرتے۔ اس دوران ان کے مصاحبین اور کارندے حسب مرتبہ خاموش بیٹھے یا کھڑے رہا کرتے۔ مزاج شغل میلے کی طرف مائل ہوتا تو کچہری میں ہی ریچھ کتے کی لڑائی برپا کی جاتی لیکن ریچھ اور کتا دونوں ہی اشرف المخلوقات میں سے چنے جاتے۔

ضرورت مند براہ راست سوال نہ کرتے، ان کے کارندوں کے ساتھ کھڑے ہو کر گانا شروع کر دیتے، نواب صاحب سمجھ جاتے، مسکراتے اور کسی کو اشارہ کرتے ’اس کا منھ بند کر اوئے‘ سوالی کا گھر دانوں سے بھر جاتا۔ اب وہ باتیں کہانیاں بن چکیں، خواب و خیال ہو گئیں۔

( یہ تحقیقی مضمون آوازہ ڈاٹ کام سے لیا گیا ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں