وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی ملاقات

کپتان کے وژن کا قابلِ فخر مقلّد

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نرم و نازک / قربان انجم

اب اس اطلاع میں خبریت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں لاہور کا دورہ فرمایا۔ ہاں ! اس مسلسل و مستقل وقوعہ میں ایک نئی بات ظہور پذیر ہوئی، وہ یہ کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار حال ہی میں اعلان فرما چکے ہیں کہ اب وہ خود کو وزیراعلیٰ بن کر دکھائیں گے۔

یہ امر محل نظر ہے کہ عمران خان کو بھی وزیراعلیٰ پنجاب بن کر دکھائیں گے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب تو فی الوقت مستقبل کے پردے ہی میں مستور ہے مگر کپتان کے اس خود ساختہ کھلاڑی کی ہلاشیری کا ” اعادہ “ اس بار بھی یقینی نظر آرہا ہے۔

کپتان کی ٹیم کے انتخاب میں یہ محیرالعقول اضافہ روز اول ہی سے ہدفِ تنقید و استہزا بنا ہوا ہے مگر کپتان اور کھلاڑی دونوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی ثابت قدمی میں ذرہ برابر فرق نہیں آنے دیا اور ” ثبات تغیر کو ہے زمانے میں “ والی بات باطل قرار دے رکھی ہے۔

” فکر ہر کس بقدر ہمت اوست “کے مصداق بعض ” مبصرین“ خیال آرائی فرمائی ہے کہ جب روایتی ون آن ون ملاقات ہوتی ہے تو لگتا ہے کہ ایک سیلکٹیڈ دوسرے سیلکٹیڈ سے ملاقات فرما رہا ہے مگر زیادہ تر ” مبصرین “ نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا بلکہ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو سیلکٹیڈ کہنا درست نہیں تاہم یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ انھوں نے اپنے اس حسین انتخاب کو اپنے ہاتھوں سے سیلیکٹ کیا ہے اور یہ انتخاب ان کے لئے وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں قابل فخر کارنامہ قرار دیا جانا چاہئے۔

بعض ” دانشور “سردار عثمان بزدار کو عمران خان کا وژن قرار رہے ہیں۔ خود سردار صاحب بھی بہ تکرار خود کو کپتان کے وژن کا قابل فخر مقلد کہتے رہتے ہیں مگر اصل یہ ہے کہ سردار صاحب خود بھی اعلیٰ درجے کے صاحب وژن ہیں۔

ممتاز اینکر کامران خان نے اپنے شو میں وزیراعلیٰ پنجاب سے انٹرویو کے خود ان کی خواہش کے مطابق جو سعی سعید فرمائی اور تونسہ شریف کے اس سربر آوردہ سردار نے اپنی سیاسی مہارت تامہ کا جو مظاہرہ کیا وہ ان کے خیرہ کن وژن ہی کی ایک مثال ہے۔ دوسری مثال ان کی وہ نیوز کانفرنس ہے جس کے انعقاد اور التوا کی مشق کئی بار کی گئی مگر جب کانفرنس وقوع پذیر ہوئی تو موصوف کے وژن نے ایک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

اس پریس کانفرنس میں سردار بزدار نے اپنے ساتھ متعدد مصاحبین کو شامل کرلیا تھا کہ اس کی اہمیت غیرمعمولی تھی۔ نیوزکانفرنس میں بداخلاقی کے ایک مجرم کو جو پولیس کی ان تھک بھاگ ڈور کے باوجود ہاتھ نہیں آرہاتھا ، کے بارے میں انکشاف کرنا مقصود تھا، اس بنا پر کہ ملک بھر کے عوام مجرم کو قانون کے شکنجہ میں لانے کے منتظر تھے۔

نیوز کانفرنس میں سردار صاحب نے انکشاف فرمایا کہ اس مجرم کو گرفتار کرنے کے لئے 48گھنٹے کا وقت مقرر کیا گیا تھا مگر یہ وقت ابھی گزرا نہیں کہ اس کے بارے میں سراغ لگا لیاگیا اور یہ کارنامہ محض اس بنا پر عمل میں لایا جاسکا کہ پولیس کے بھاری جتھے اور حکام کے دستے کی کارروائی و کارگزاری کو جناب سردار بنفس نفیس مانیٹر کررہے تھے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب کچھ اعلیٰ درجے کے وژن کا عظیم الشان نتیجہ تھا۔

کارنامے کی تفصیل سے سب لوگ آگاہ ہیںکہ مجرم کی گرفتاری کی ٹیم موقع پر پہنچی تو مجرم بقول سردار صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ وہاں سے فرار ہوگیا مگر سردار صاحب ہوں یا ان کی پولیس یہ لوگ نچلے بیٹھنے والے تو تھے ہی نہیں۔ مجرم کی تلاش کے لئے گراں قدر وقت اور خزانہ خرچ کرتے رہے اور بالآخر اسے گرفتار کرکے ہی دم لیا۔

مجرم کے والد نے بتایا کہ یہ گرفتاری رضاکارانہ طور پر دی گئی تھی مگر سردار بزدار گرفتاری کے لئے مقررکردہ پچاس لاکھ روپے کی رقم کا مستحق پولیس کو قرار دے کر عدالت عالیہ کی ایک شرمناک قسم کی آبزرویشن کا موضوع بنا ڈالا۔ سرکارِ سردار کے پچاس لاکھ روپے کہاں گئے؟اس سوال کے جواب میں سرکار کے محاذ پر تادم تحریر ایک پراسرار خاموشی مسلط ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں