کیا صورتیں تھیں جو خاک میں پنہاں ہوگئیں

حیرت انگیز روشن تصاویر کا مجموعہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

” کیا صورتیں تھیں کہ خاک میں پنہاں ہوگئیں “ ایک بہو کے قلم سے لکھے گئے اور بادبان ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے اپنے سسر اور ساس کی سوانح کے طور پر لکھے ہیں ۔

حیرت ہوتی ہے کہ آج کے معاشرے میں ایسے سسر ، ساس اور بہو بھی ہوسکتے ہیں بھلا !! ساس اور سسر اپنی بہو پر فدا رہے ، دوسری طرف بہو بھی اپنے سسرال کو اس قدر محترم جانتی تھی کہ ایسی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہی ان کے اصل والدین ہیں۔

اس کتاب میں مذکورہ سسر ہیں شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف ( دارالحدیث الجامعۃ الکمالیہ، راجووال، ضلع اوکاڑہ ، صوبہ پنجاب ) اور بہو ہیں محترمہ ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی ، جو ایک معروف محقق ، سکالرجناب مولانا عبدالوکیل علوی اور بلند پایہ خاتون سکالر محترمہ پروفیسر ثریا بتول علوی کی صاحبزادی ہیں۔

ساس ، سسر اور بہو میں ایسا شاندار تعلق کیسے قائم ہوا؟
زیر نظر کتاب اسی سوال کا جواب ہے۔ جس میں جہاں اس شاندار تعلق کی بنیادوں کا ذکر موجود ہے ، وہاں اس تعلق کی کئی تصاویر بھی موجود ہیں، لفظوں سے تخلیق کی گئی متحرک تصاویر۔ یہ تصاویر اس قدر روشن ہیں کہ ہمارے معاشرے کے تمام خاندانوں کو روشن کرسکتی ہیں۔ ان شااللہ

کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے محترمہ ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی کے شوہر محترم ڈاکٹر عبیدالرحمن لکھتے ہیں:

” میں نے یہ مضامین متعدد مرتبہ پڑھے۔ جب بھی پڑھے، میری آنکھیں بھیگ گئیں اور دل و دماغ میں والدین سے جنت میں ملاقات کا شوق تازہ ہو گیا۔ یہ کتابچہ درحقیقت انہی مضامین کا مجموعہ ہے۔ میری اہلیہ محترمہ ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی حفظہا اللہ ۔۔۔۔۔۔ ان کی تحریر کا ایک خاصا تو یہ ہے کہ اسلوب انتہائی سلیس، دلچسپ اور سہل ہے۔

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان کے قلم میں روانی اور مکالمہ نگاری کی صلاحیت، تحریر میں پختگی، اور خیالات و احساسات کو لفظی جامہ پہنانے کی اچھی صلاحیت موجود ہے۔

تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اہلیہ کا مشاہدہ بہت گہرا اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ بہت سے ایسے واقعات جن کو میں سرسری لیتا تھا، اہلیہ محترمہ نے ان پر قلم اٹھا کے انہیں اور ہی زاویہ سے دیکھا اور لکھا ہے۔ کچھ باتیں میں نے کبھی نوٹ ہی نہیں کی تھیں لیکن انہوں نے ان کو بھی زیب قرطاس کیا ہے۔
.
چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اہلیہ نے میرے والدین کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے، بلکہ والدہ محترمہ کے آخری لمحات جس باریک بینی سے انہوں نے تحریر کیے ہیں، شاید میں خود بھی قلم بند نہ کرسکتا۔

پانچویں بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مضامین ایک بہو نے اپنی ساس اور سسر کے متعلق تحریر کیے ہیں۔

ساس بہو کا رشتہ کس قدر نازک، اور حساس ہوتا ہے، یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ بالخصوص جب رہائش بھی اکٹھی ہو۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ ایک بہو کی اپنی ساس اور سسر کے بارے میں اس قدر پر جوش اور مبنی بر حقائق تحریر ان کی عظمت اور بلندی کردار پر شاہد عدل ہے۔

چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے سوانح نگاری میں کسی حد تک مکالمہ نگاری کا اسلوب اختیار کیا ہے جو قارئین پر بہت اچھا تاثر پیدا کرتا ہے۔

ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ اختتام پر انہوں نے موجودہ صورتحال پر ایک حساس دل رکھنے والے انسان کی پریشانی اور دل گرفتگی کو بھی بیان کیا ہے۔ لیکن مایوسی کے بجائے عزم و امید اور کچھ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ جو آج کے پر فتن حالات میں ایک اچھا اور امید افزا پیغام ہے۔

اپنی اہلیہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے بڑی محبت اور خلوص کے ساتھ یہ مضامین لکھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم عطا فرمائے. آمین ثم آمین۔
ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين آمنوا ربنا إنك رؤف رحيم۔
رب ارحمهما كما ربياني صغيرا۔
وصلی الله وسلم وبارك على النبي۔ “

کتاب پر قیمت درج نہیں ۔
کتاب حاصل کرنے کا پتہ :
ریاض الحدیث للطالبات ، راجووال ، تحصیل دیپالپور ، ضلع اوکاڑہ


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں