برتن میں سالن کا بچا کھچا مسالہ

بچے رزق کی قدر کے احساس سے عاری کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین

جب بھی سالن کی پتیلی کو خالی کرو تو امی بہت یاد آتی ہیں۔ ہمیشہ پتیلی خالی کرنے کے بعد اس کا سارا مسالہ کسی روٹی کے ٹکڑے سے صاف کر کے علیحدہ سے رکھ لیتی تھیں اور کھاتے وقت خود ہی اس ٹکڑے کو کھاتی تھیں۔

چاول اور سالن کی پتیلیاں صاف کرنا ہوں یا کھانے کی پلیٹیں صاف کرنا ، کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا (ٹشو پیپر سے صاف کرنے کے بجائے) ۔۔۔۔۔۔۔یہ چیزیں اتنی معمولی نہ تھیں بلکہ ان میں رزق کی قدر اور حفاظت کا پہلو بہت نمایاں تھا ۔اور یہ ساری چیزیں گھروں میں ہی اپنی امیوں کو دیکھ کر سیکھی گئی ہوتی تھیں ۔کلی تک ہمیں پانی پینے کے بعد کرنا سکھائی گئی تھی کہ منہ میں موجود کھانے کے ذرات پیٹ میں چلے جائیں اور رزق نالی میں جا کر ضائع نہ ہو۔

پتیلیاں چاٹنا تو بلکہ ایک فن تھا۔۔۔۔۔آخری سالن اور پیندے سے لگے چاولوں کا ذائقہ بھی علیحدہ نوعیت ہی کا لطف دیتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مشہور بھی تھا کہ انہی لوگوں کی شادیوں میں بارش بھی ہوتی ہے جو کہ پتیلیاں چاٹتے تھے ۔

چھوٹے بچوں کی مائیں تو بے چاری بدنام ہی اسی وجہ سے رہتی ہیں کہ بچوں کا بچھا کچھا وہی کھاتی ہیں۔۔۔۔لیکن اب شاید آگے نزاکت و نفاست کے معیارات اتنے زیادہ ہوتے جارہے ہیں کہ اکثر بچوں کے بچے ہوئے کھانے اور ان کی پلیٹیں صاف کرنے سے بھی کراہت محسوس کرتی ہیں مائیں۔

رزق کی جو قدر ہم نے اپنے بڑوں سے سیکھی کیا ہم اپنے بچوں کو سکھا پارہے ہیں ؟
ایک نوالہ لینے کے بعد جب شان بے نیازی سے پورا کھانا ایک طرف کردیا جائے ۔۔۔۔۔۔

چند نوالے کھانے کے بعد بچھی کچھی روٹی۔۔۔اور ڈھیر سارا سالن پلیٹ میں بچا نظر آئے جو سنک کی نذر ہونا ہو تو بہت احساس ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔۔رزق کا نعمت ہونا ، گھر بیٹھے حلال رزق کا ملنا اور اس کے زمین یا فارم سے ہم تک پہنچنے کے بعد پکائی کی محنت تک جو مراحل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں۔ کتنے ہی دنوں اور لوگوں کی محنت شامل ہوتی ہے ۔
کیا وجہ ہے کہ ہمارے بچے اس احساس سے عاری ہوتے جارہے ہیں ۔۔۔۔کوئی ترکیب ہے آپ کے ذہن میں؟ ہے تو بیان کریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں