کورونا ویکسین

کورونا ویکسین سے ڈرنے والے یہ ضرور پڑھیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

"ہم دونوں میاں بیوی کو کورونا وائرس کی ویکسین جلدی لگوا لینی چاہیے۔” گزشتہ کئی روز سے پروفیسر اکرام صاحب اپنی بیوی عاتکہ سے اصرار کر رہے تھے۔ جو مقامی گورنمنٹ کالج میں فزکس کی لیکچرار تھیں۔

پروفیسر صاحب ویکسین لگوانے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ تھے۔ اس معاملے میں چند قابل ڈاکٹرز، کولیگز اور علماء سے ڈسکشنز کے بعد وہ یکسو ہو چکے تھے۔

"گورنمنٹ ملازمت کی وجہ سے یہ ہم دونوں کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی میرے ساتھ ہی ویکسین لگوالیں تاکہ ہم دونوں کا یہ کام اکٹھے نمٹ جائے۔” وہ عاتکہ کو بار بار بتا کر ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے۔ کیونکہ وہ ویکسین لگوانے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہو پا رہی تھیں۔ اور اس معاملے کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتی رہی تھیں۔

"اگر گورنمنٹ ملازمین نے جلد ویکسینیشن نہ کروائی تو ان کی تنخواہ روک لی جائے گی۔”گورنمنٹ کی طرف سے جاری کردہ اس اطلاع نے سرکاری ملازمین کو مجبور کر دیا تھا۔

اگلے روز کالج میں تقریباً گیارہ ساڑھے بجے پروفیسر صاحب نے عاتکہ کو فون کیا۔
"آپ تیار رہیں۔ میں ابھی آپ کو لینے کے لیے کالج آرہا ہوں۔ پھر ہم دونوں ویکسین لگوانے کے لیے اکٹھے چلے جائیں گے۔ آپ پرنسپل صاحبہ سے لیٹر بنوالیں۔ جاب کرنے والے لوگوں کے لیے محکمہ کی طرف سے لیٹر اشو ہونا ضروری ہے۔”وہ بتا رہے تھے۔

"لیٹر تو ہمیں پہلے مل چکا ہے۔”عاتکہ نے بتایا۔
"ٹھیک ہے۔ میں کچھ دیر بعد پہنچ جاؤں گا ان شاءاللہ۔”اس کے بعد پروفیسر صاحب نے کال منقطع کر دی۔

چنانچہ بارہ بجے پروفیسر صاحب گرلز کالج پہنچ گئے۔ وہاں سے عاتکہ کو لیا اور فوراً ویکسینیشن کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستے میں سورج کی شدید حرارت سے جلتا بھنتا بلکہ آگ بگولہ بنا ہوا موسم قدرے بہتر ہونا شروع ہوگیا تو انہیں بہت خوشی ہوئی۔
"موسم کتنا اچھا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ الحمد للّٰہ۔”پروفیسر صاحب نے کہا۔
"جی ہاں۔”عاتکہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
"اللہ جی! سارے معاملے میں آسانیاں فراہم فرمانا۔”عاتکہ کے دل سے دعائیں نکلیں۔

"ویکسین لگوانے کے معاملے کو میں نے حتی الامکان ٹالنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اللہ تعالی کا حکم پورا ہوکر رہتا ہے۔ اور آج ہمیں ویکسین لگوانے کے لیے جانا پڑ رہا ہے۔”عاتکہ نے پروفیسر صاحب سے کہا۔
"آپ پریشان نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ بہتری کرے گا ان شاءاللہ۔”انہوں نے عاتکہ کو تسلی دی۔

"فطری طور پر ویکسین لگوانے کے لیے میرے دل میں خوف و ڈر چھپا بیٹھا تھا۔ کیونکہ اس بارے میں مختلف لوگوں کے مختلف خیالات اور نظریات سامنے آتے رہے تھے۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ عام لوگوں اور طلبہ و طالبات کے علاوہ اساتذہ کے لیے بھی ویکسین ایک مختلف اور ڈراؤنا لفظ ہے۔” عاتکہ نے ان سے اپنی دلی کیفیات شئیر کیں۔

"جی ہاں۔ لوگوں میں اس کے متعلق بہت زیادہ خوف و ڈر پھیلا ہوا ہے۔ کیونکہ اس کے بارے میں پھیلی افواہوں اور غلط معلومات نے اکثر لوگوں کو بری طرح ڈرایا ہوا ہے۔” انہوں نے اس کی تائید کی۔

"ویسے بھی اس کاروائی کی نگرانی نادرا جیسے سرکاری ادارے کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اب ہم چاہیں یا نہ چاہیں، اس پلاننگ کا حصہ بننے پر مجبور ہیں۔ حسن ظن تو ہے کہ ہمارے فائدے اور صحت کے تحفظ کے لیے ہے۔” پروفیسر صاحب نے کہا۔

"کورونا ویکسین لگوانے کا بھلا کیا فائدہ ہوگا؟”عاتکہ نے پوچھا۔

"کورونا ویکسین انسانی جسم میں کورونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت (Immune) بڑھانے کا کام کرتی ہے۔ لہذا یہ ویکسین لگوانے کے بعد عموماً کورونا وائرس کی بیماری سے انسان کی حفاظت رہتی ہے۔” پروفیسر صاحب نے بتایا۔
"مجھے ویکسین لگوانے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا؟” عاتکہ نے پوچھا۔

"اپنے موبائل سے اپنا شناختی کارڈ نمبر لکھ کر ڈبل ون ڈبل سکس (1166) ہیلپ لائن پر میسج کر دیں۔ کچھ دیر بعد آپ کو کوڈ وصول ہوجائے گا۔ ویکسین لگوانے کے لیے وہ کوڈ ضروری ہے۔” پروفیسر صاحب نے عاتکہ کو ہدایت کی۔

تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ ویکسینیشن سینٹر پہنچ گئے۔ سنٹر کا پہلا منظر صاف ستھرا اور خوبصورت تھا۔ خوبصورت جھومتے پودے، لہلہاتے گھنے درخت اور سر سبز گھاس کے شاداب قطعے بڑے اچھے لگ رہے تھے۔ گرمی کا شدید سخت اور تلخ موسم کافی بہتر ہو رہا تھا۔ کبھی کبھی ٹھنڈی ہوا کا کوئی شرارتی جھونکا چھو جاتا تو جسم و جاں میں بڑی خوشگواریت محسوس ہوتی۔

سینٹر کے اندر داخل ہوئے تو مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ ہال نما کمرے مختص کیے گئے تھے۔ ریسیپشن پر ڈیوٹی پر موجود ایک جاگتے بندے نے ان کی رہنمائی کی جبکہ دوسرا بندہ کرسی کی پشت سے سر ٹکائے "قیلولہ” کرتے ہوئے غالباً نندیا پور پہنچا ہوا تھا۔ جگہ جگہ فلیکسز پر ہدایات لکھ کر بھی لوگوں کی رہنمائی کی گئی تھی۔

عاتکہ نے موبائل چیک کیا۔ اسے 1166 نمبر سے جواب کا انتظار تھا۔ تقریبا آدھ پون گھنٹے کے بعد کنفرمیشن کے لیے جوابی میسیج آیا جس میں 4 ہندسوں پر مشتمل کوڈ بھی بتایا گیا تھا۔

سینٹر میں رش کم تھا۔ خواتین تو بہت کم نظر آرہی تھیں۔ پروفیسر صاحب اپنے اور عاتکہ کے آئی ڈی کارڈ کی فوٹو کاپیاں کروانے سینٹر میں موجود فوٹو کاپی شاپ پر چلے گئے۔ تقریباً تمام درکار ضروریات سینٹر میں ہی پوری کرنے کا انتظام موجود تھا۔

عاتکہ خواتین ویکسینیشن ہال میں چلی گئی۔ ریسیپشن پر فیس ماسک لگائے ایک مرد اور یونی فارم میں ملبوس ایک نرس موجود تھے جو ویکسین لگوانے سے پہلے کی تحریری کاروائی کر رہے تھے۔ کمرے کے ایک دروازے میں سٹاف کے لیے رکھا گیا ایئر کولر ٹھنڈی ہوا بکھیر رہا تھا۔ جبکہ دوسرا دروازہ آمد و رفت کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔

ہال نما کمرہ صاف ستھرا تھا۔ لگتا تھا کہ
کمرے میں تازہ پینٹ کیا گیا ہے۔ چھت پر لگے نئے اور صاف ستھرے پانچ چھ پنکھے چل رہے تھے۔

اندر گرمی بہت زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ اوپر پنکھے چل تو رہے تھے لیکن ان کی ہوا گرمی دور کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ تھوڑی دیر میں ہی انسان پسینے سے شرابور ہو جاتا تھا۔

تھوڑی دیر بعد پروفیسر صاحب نے عاتکہ کو اس کا آئی ڈی کارڈ اور اس کی تین فوٹو کاپیاں دیں اور خود مردانہ ہال میں داخل ہو گئے۔

"ورکنگ ویمن (working women) اپنے محکمہ کا لیٹر اور آئی ڈی کارڈ کی فوٹو کاپی جمع کروادیں۔”ریسیپشن پر موجود نرس خواتین کی رہنمائی کررہی تھی۔

"عام خواتین اور ہاؤس وائف وغیرہ کے لیے صرف آئی ڈی کارڈ کی فوٹو کاپی کافی ہے۔ ساتھ اپنا فون نمبر اور 1166 سے جاری کردہ 4 ہندسی کوڈ بھی بتائیں۔”مستعد سی نرس گھریلو خواتین کو بھی گائیڈ کر رہی تھی۔

عاتکہ نے شناختی کارڈ کی کاپی پر ایک سائیڈ پر خالی جگہ پر اپنا موبائل نمبر اور کوڈ دونوں لکھ کر ریسیپشن پر جاکر نرس کے حوالے کردیئے۔ اس نے رجسٹر پر چیکنگ کی، کچھ اندراج کیا اور پھر ریسیپشن والے مرد کے حوالے کردیا۔ اس نے بھی یہی کاروائی کی اور پھر کمرے کی سائیڈ پر پردے کے پیچھے موجود سینئیر نرسز کے حوالے کردیا۔ جہاں وہ خواتین اور لڑکیوں کو انجکشن لگا رہی تھیں۔

کچھ دیر بعد عاتکہ کی باری آنے پر ریسپشن پر موجود نرس نے اس کا نام لے کر پکارا۔ تو وہ جلدی سے ریسیپشن پر چلی گئی۔
"پردے کے پیچھے جاکر ویکسین لگوائیں۔”نرس نے کہا اور اشارہ بھی کیا۔

پردے کے پیچھے دو سینئر نرسیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس نے سلام کیا تو دونوں نے جواب دیا۔ ایک نے اس کے نام کی تصدیق کی۔ پھر آئی ڈی کارڈ کی فوٹو کاپی کی سائیڈ پر پوائنٹر سے لکھا ہوا فون نمبر اور کوڈ چیک کیا۔
عاتکہ کو ڈر لگ رہا تھا کہ پتہ نہیں ویکسینیشن پروسیس کیا ہوگا؟
حالانکہ اسے معلوم تھا اور وہ اس تسلی بھی کرکے گئی تھی کہ صرف ایک انجکشن لگے گا جس میں ویکسین کی ڈوز ہوگی۔

"آپ بائیں بازو کی آستین اوپر کریں۔” نرس نے اسے کہا۔
اس نے ڈھیلے ڈھالے کپڑوں اور گاؤن کی آستین اوپر کی۔ تو نرس نے فوراً بازو کے بالکل اوپر کے حصے پر انجکشن لگا دیا۔ وہ زیر لب دعائیں پڑھ رہی تھی۔

اسے یاد آیا کہ بچوں کو لگائے جانے والے حفاظتی انجیکشن بازو کے تقریباً اسی حصے میں لگائے جاتے ہیں۔

نرس نے ویکسین لگانے کی کاروائی پوری کی۔

"انجکشن والی یہ جگہ کچھ دیر ہاتھ سے مسلتی رہیں۔”اس نے اسے کہا اور خود رجسٹر میں کچھ اندراج کیا۔

"بس۔ کیا ویکسین لگانے کا کام مکمل ہوگیا ہے؟”اس نے تعجب اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے بچوں کی طرح کہا۔

"جی بس۔ اب کام مکمل ہے۔”وہ جواب میں کہنے لگیں۔

"اچھا بس اتنا کام تھا جس سے دنیا ڈر رہی ہے۔” اب اس نے ہنس کر کہا۔
"جی۔ دنیا ایسے ہی ڈر رہی ہے۔ یہ تو ہماری صحت کی حفاظت اور بہتری کے لیے ہے۔” اس کی بات سن کر نرس نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے کہا۔
"آپ نے اب اکیس دن بعد دوبارہ آکر ویکسین کی دوسری ڈوز لگوانی ہے۔”اس نے مزید کہا۔

"یہ کون سی ویکسین ہے جو یہاں لگائی جا رہی ہے؟”عاتکہ نے پوچھا۔
"یہ سینو فام (میڈ ان چائنہ) ویکسین ہے جو اس سنٹر میں اب لوگوں کو لگائی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے سینو ویک ویکسین لگائی جاتی رہی تھی جو اب ختم ہو چکی ہے۔” نرس نے بتایا۔
"یہ دیکھیں۔ یہ باتیں یہاں لکھی ہوئی بھی موجود ہیں۔” نرس نے پیچھے دیوار پر آویزاں فلیکس کی طرف اشارہ کیا۔

"کیا کسی احتیاطی تدبیر یا پرہیزی خوراک وغیرہ کا خیال رکھنا ہے؟” عاتکہ نے مزید پوچھا۔
"نہیں۔ بالکل نہیں۔ "نرس نے جواب دیا۔
"گھبرانے یا پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں۔ سب کچھ نارمل ہوگا ان شاءاللہ۔” اس نے مزید تسلی دی۔

عاتکہ پردے کے پیچھے سے اٹھ کر ہال سے باہر آگئی۔ ابھی پروفیسر صاحب فارغ نہیں ہوئے تھے۔ وہ اسی کمرے میں دوبارہ آکر پیچھے بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد پروفیسر صاحب فارغ ہو کر آگئے۔ اور وہ گھر کے لیے روانہ ہوئے۔

"یہ خوبصورت اور صاف ستھرا سنٹر گورنمنٹ ہسپتال نہیں بلکہ مقامی گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہے جو موسم گرما کی تعطیلات کی وجہ سے بند ہے۔ اور عارضی طور پر ویکسینیشن سینٹر کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔” پروفیسر صاحب نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اسے بتایا تھا۔

"اب دیکھتے ہیں کہ ویکسین لگانے کے بعد آگے آگے ہوتا ہے کیا؟” عاتکہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ان شاءاللہ. بہتری ہوگی۔” پروفیسر صاحب نے پر امید لہجے میں جواب دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے روز عاتکہ کی دیورانی، جٹھانی اور ایک ہمسائی نے عاتکہ کے گھر آکر اس سے ویکسین لگوانے کا سارا معاملہ پوچھا۔ جیسے اس نے کل ویکسین لگوا کر نامعلوم کتنا بڑا کارنامہ سر انجام دے لیا تھا۔

"میرے ذہن میں یہ خوفناک سا تصور آتا تھا کہ شاید ڈاکٹر نے انجکشن کے بجائے پتہ نہیں کون سی چیز لگانی ہے؟ یا شاید کھبو دینی ہے۔
یا شاید خنجر یا تلوار نما کسی تیز دھار آلے سے کوئی آپریشن کرنا ہوتا ہے۔”عاتکہ کی دیورانی نے ہنستے ہوئے بے تکلفی سے تبصرہ کیا تھا۔

"آپ کو ڈاکٹر نے بس ایک انجکشن لگایا تھا؟” ہمسائی نے بے یقینی سے پوچھا تھا۔
"جی ہاں۔ بس انجکشن میں ڈوز بھر کر بازو میں لگا دیتے ہیں۔” عاتکہ نے انہیں تسلی دی تھی۔
"کتنا درد ہوا تھا؟”اگلا سوال تیار تھا۔
"بس اتنا ہی، جتنا عام انجیکشن لگانے سے درد ہوتا ہے۔” اس نے جواب دیتے ہوئے انہیں تسلی دی تھی۔
"اچھا بس۔” اس نے حیرت کا اظہار کیا۔

"اچھا اچھا۔ ویکسینیشن میں بس انجیکشن لگاتے ہیں۔ میں سمجھتی تھی کہ اس کے علاوہ ، شاید کوئی بدمزہ، کڑوی اور ہیوی (heavy) سی کھانے والی دوائیوں کی ڈوز بھی ہوتی ہے۔ یا یہ دوائیں ڈرپ میں ڈال کر بندے کو لگاتے ہیں۔” جٹھانی صاحبہ نے بھی اپنی رائے بیان کی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عاتکہ نے ویکسین لگوانے کے بعد کے سائیڈ ایفیکٹ کے بارے میں بھی بھانت بھانت کی بولیاں سن رکھی تھیں۔ کوئی کچھ بتاتا تھا، تو کسی سے کوئی اور بات سننے کو ملتی تھی۔

"میری بہن اور بہنوئی کو ویکسین لگوانے کے بعد تیز بخار ہو گیا تھا۔” کیمسٹری کی کولیگ نے بتایا تھا۔
"بعد میں ایک دو دن مجھے کافی تھکن اور کمزوری محسوس ہوتی رہی تھی، سارا جسم جیسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہا تھا۔” باٹنی کی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے اپنا تجربہ بیان کیا تھا۔

"میرے میاں کو سر درد کی بہت تکلیف رہی تھی۔ چکر بھی آتے تھے۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ جانے اب میرے ساتھ کیا ہو گا! انہیں تو جیسے رہ رہ کے ہول اٹھتے تھے کہ پتہ نہیں اب میرا کیا بنے گا؟ وہ ہسپتال چیک اپ کروانے گئے ہوئے تھے، وہاں میرے دیور نے انہیں زبردستی ویکسین لگوا دی تھی۔” ایک اور کولیگ نے بتایا تھا۔

"میرے میاں کو متلی ہوتی رہی تھی۔ پٹھوں میں بھی درد ہوتا رہا۔ کمزوری سے ان کے جسم کے جوڑ جوڑ میں درد ہوتا تھا۔” ایک واقف کار نے اظہار خیال کیا تھا۔

” الحمد للّٰہ ویکسین لگوانے کے بعد ہمیں کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوا۔ نہ کوئی جسمانی تکلیف، نہ بخار، نہ بدن کا ٹوٹنا ، نہ کوئی اور علامت۔ بس جہاں ٹیکہ لگا تھا وہاں کچھ دیر کے لیے ہلکی سی چبھن محسوس ہوتی رہی تھی۔” عاتکہ نے بھی بتایا۔
"اس کے علاوہ، مجھے پہلے دن نیند بہت زیادہ آتی رہی تھی۔” اس نے کالج میں سٹاف روم میں اپنی کولیگز سے ڈسکس کیا۔
"پروفیسر صاحب کو بھی اگلے دن سر درد اور چکر آنے کا کچھ مسئلہ رہا۔
"بس ہمیں اور کوئی پرابلم نہیں ہوا۔
الحمد للّٰہ ثم الحمدللہ۔” عاتکہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میم! کورونا ویکسین لگوانے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ سنا ہے اس کے خطرناک قسم کے سائیڈ ایفیکٹ ہوتے ہیں؟” بی ایس سی کی ایک طالبہ نے واٹس ایپ پر میم عاتکہ سے پوچھا۔

"سائیڈ ایفیکٹ تو کسی بھی کھانے والی دوائی یا انجیکشن وغیرہ کے ہو سکتے ہیں۔حتیٰ کہ پیناڈول، ڈسپرین، پیرا سیٹا مول اور نمز (Nims) گولیوں کے بھی ہو سکتے ہیں لیکن بلینز (billions) میں سے کسی کو سائیڈ ایفیکٹ ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ کورونا ویکسین کا ہے۔

ابھی تک جتنے لوگوں نے ویکسین لگوائی ہے، ان کے معمولی مسائل تو سامنے آئے ہیں مثلاً بخار، سر درد یا سر چکرانا، متلی ہونا وغیرہ لیکن بہت کم لوگوں پر اس کے سیریس یا خطرناک سائیڈ ایفیکٹ نظر آئے ہیں۔”عاتکہ نے تفصیلی جواب دیا۔

"ویکسین لگوانے کے بعد ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کورونا ویکسین لگوانے کے بعد اب احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی؟” عاتکہ نے پروفیسر صاحب سے پوچھا۔ وہ خود بھی اس کا جواب جانتی تھیں لیکن اردگرد کی خواتین کے کثرت سوال کی وجہ سے اس نے پروفیسر صاحب سے تسلی کرنی چاہی۔

"نہیں۔ کیوں نہیں۔ اس کے بعد بھی لوگوں کو احتیاطی اقدامات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً ماسک پہننا، سماجی فاصلہ رکھنا، بوقت ضرورت سینی ٹائزر کا استعمال اور مصافحہ کرنے اور ایک دوسرے سے ملنے سے اجتناب کرنا وغیرہ ابھی بھی لازمی ہیں۔”پروفیسر صاحب نے بتایا

"اس کے علاوہ وہ لوگ جو کورونا سے متاثر ہو کر صحت یاب ہوگئے ہیں، کیا انہیں بھی SOPs کا پورا خیال رکھنا چاہیے؟”عاتکہ نے پروفیسر صاحب سے پوچھا۔
"چونکہ ان کو ایک دفعہ کورونا ہوچکا ہے تو انہیں ماسک پہننے اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تو یہ تصور غلط ہے۔ لوگوں کا یہ سمجھ لینا درست نہیں۔” پروفیسر صاحب نے بتایا۔

"طبی علاج اور احتیاطی تدابیر کے علاوہ، قرآن وسنت کی بتائی اور سکھائی ہوئی حفاظتی تدابیر ضرور اختیار کرنی چاہئیں۔” عاتکہ نے کہا۔

"جی بالکل۔ قرآنی و مسنون دعاؤں کا اہتمام لازمی کرنا چاہیے۔ صبح و شام کے مسنون اذکار، دیگر دعاؤں کا اہتمام لازمی کیا جائے۔ خصوصاً سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس تینوں سورتیں صبح و شام تین تین بار ضرور پڑھنی چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہنے اور ہر طرح کی برائی اور شر سے بچانے کے لیے نہایت مؤثر ہیں۔ "پروفیسر صاحب نے کہا۔

"عقیدہ تقدیر پر ایمان بھی تو ہمارے دین کا حصہ ہے۔” عاتکہ نے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی۔

"جی ہاں۔ عقیدہ تقدیر پر ہمارا کامل ایمان ہونا چاہیے کہ زندگی و موت اور نفع و نقصان سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ اور اس کے حکم کے بغیر ہمیں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی، اور اس کے حکم کے بغیر کسی کو موت نہیں آسکتی۔ بلکہ اس کے ہر کام میں حکمت و بھلائی ہوتی ہے۔” پروفیسر صاحب نے اس کی تائید کی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہمیں عقیدہ تقدیر پر کامل ایمان رکھنے والا بنائے۔
آمین ثم آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں