ماں بیٹے کا ماتھا چوم رہی ہے

جھجھکیے نہیں ، اپنے بچوں سے اظہار محبت کیجیے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر جویریہ سعید

والدین اور بچوں کے محبت اور اعتماد بھرے تعلق کے لیے اظہار محبت بہت ضروری ہے۔
والدین محبت تو کرتے ہیں مگر شاید سماجی روایات کی بنا پر ان کا اظہار کرنے سے جھجکتے ہیں اور کچھ مائیں اور اکثر باپ اظہار محبت کو چھپا کر خود پر مصنوعی خفگی طاری رکھتے ہیں۔


بعض اوقات ماں یا باپ اپنے اپنے مسائل کے بوجھ تلے دبے ہونے کی وجہ سے بھی ہر وقت چڑے ہوئے یا تلخ رہتے ہیں۔
ایسے میں بچے چھوٹے ہوں یا بڑے، ان کے قریب آئیں، پریشان ہوں، ضد کریں، کچھ مانگیں، کوئی صحیح یا غلط فرمائش کریں یا آپس میں زور زور سے ہنس بول رہے ہوں یا لڑ رہے ہوں تو ماں باپ ان پر غصہ اتارتے ہیں۔ طعنے بھی دینے لگتے ہیں۔ اگلا پچھلا سب بری باتیں یاد دلاتے ہیں۔


کبھی کبھی غصہ کرنا ، ڈانٹنا یا غلط باتوں کا احساس دلانا ضروری بھی ہوتا ہے لیکن اگر اس کے ساتھ اظہار محبت اور مستقل گفتگو نہ ہو تو گھر کی فضا تلخ، بوجھل اور نفرت و کینے سے بھرپور ہوجاتی ہے۔ سب ایک دوسرے سے چڑتے ہیں۔ یا ایک ہی گھرانے کے افراد کے درمیان بہت فاصلے پیدا ہوجاتے ہیں۔


ماں باپ کا کردار اس اعتبار سے بہت اہم ہے وہ زندگی کی تمام تر سختیوں اور آزمائشوں کے باوجود آپس میں محبت اور احترام و اعتبار کو کیسے فروغ دیں۔


میں یہاں ذاتی کوششوں کا تذکرہ اس لیے کروں گی کہ عموما ورکنگ خواتین کے لیے سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے موجود نہیں ہوتیں یا مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے والی خواتین و مرد حضرات جن پر بہت سی ذمہ داریاں ہوں وہ بھی اپنے بچوں سے انصاف نہیں کر پاتے۔
اسی طرح یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ایک خوشیوں بھرے گھرانے کے لیے شاید لازمی ہے کہ چھوٹا سا مسائل سے پاک خوش حال گھرانہ ہو۔
ایسا نہیں ہے۔


🌹 بچوں سے پیار کا زبانی اظہار کرنا ضروری ہے۔ مما کو آپ سے پیار ہے۔ آپ کے ابو آپ سے محبت کرتے ہیں۔ کل ابو آپ کے بارے میں یہ کہہ رہے تھے۔ واہ میرے بیٹے نے کتنا اچھا کام کیا۔ فلاں بچہ فنٹاسٹک ہے، فلاں بچہ اوسم ہے، فلاں بچہ شہزادہ ہے، فلاں بچہ یہ ہے
میں نے اپنے بھانجے بھانجیوں کو بھی نام دیے ہوئے ہیں ۔ ایک رپنزل ہیں، ایک جہاں آرا ہیں، ایک "میرے بنے میاں” ہیں، ایک ارورا ہیں، ایک حلیمہ ہیں۔۔۔ ان کو ان ناموں سے بلاؤں تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ ۔ اپنے اور دوسرے۔ بچوں کے ساتھ گلے لگانا ایک ایک بچے کو دیکھ کر شور مچانا” ارے فلاں آگیا ۔ ارے فلاں کتنا پیارا ہے ” وغیرہ وغیرہ۔ بچے خوش ہوتے ہیں ۔ شرماتے ہیں۔ آگے پیچھے پھرتے ہیں۔


🌹 بچے چھوٹے ہوں یا ٹین ایج میں ۔۔۔ بوسہ لینا، گلے لگانا خاص طور پر جب وہ اداس ہوں، خفا ہوں، ڈرے ہوئے ہوں۔ دیر تک گلے لگا کر رکھنا۔


🌹 کان میں سرگوشی کرکے پوچھنا۔۔ "اداس ہو؟” "کس بات سے ڈر لگ رہا ہے؟” "مما کو بتا دو.. بیٹا تم اس قدر گھبراتے کیوں ہو؟” وغیرہ وغیرہ کانوں میں سرگوشی کرکے مشکل مشکل سوال بھی کرلیتی ہوں۔ "فلاں وقت وہ کام کررہے تھے نا ؟ کیوں کیا؟ ” وغیرہ وغیرہ


🌹بچوں کی بات کو پوری توجہ سے مکمل سننا۔ بات غلط ہو تب بھی جتنی بات سے اتفاق ممکن ہو پہلے اس پر بات کرنا۔ مثلا واقعی یہ سوال تو میرے بھی ذہن میں آیا تھا۔ واقعی ڈر تو لگتا ہے۔ ایسا تو ہے کہ بندے کو غصہ آ جائے۔ گاڑی لے کر تو آپ کے ماموں بھی بھاگے تھے۔ میں بھی لنچ سڑا کرلاتی تھی۔۔ مگر۔ ۔ ۔۔ اس کے بعد آگے بات کرنا۔


🌹 اپنی مشکلات و مسائل کا بچوں سے تذکرہ کرنا اور ان کے ساتھ ڈسکس کرنا کہ ہم سب ایک خاندان ہیں اور یہ مشکل ہم سب کی مشکل ہے، ہم سب کو اس میں تعاون کرنا ہوگا۔ دادا ابو بیمار ہیں وہ معذور بھی ہیں، گھر میں بزرگ رہتے ہیں، ابو کی جاب نہیں ہے آج کل، مما کے امتحان ہیں ، آج کل پیسوں کا مسئلہ ہے، مصعب کل کی پریزینٹیشن سے ڈر رہا ہے ، عزام کو یہ ہوا ہے۔ مجھے آسٹریلیا جانا ہے، آپ کو کچھ عرصہ گزارنا ہوگا، وغیرہ۔


🌹 بچوں کے اچھے کاموں کی کھل کر تعریف کرنا۔


🌹 غلط کاموں پر ڈانٹتے وقت یہ کبھی نہیں کہا کہ تم لوگوں نے کبھی کچھ ڈھنگ کا نہیں کیا۔ جتنی بات غلط ہے اتنی کا ہی تذکرہ اور سختی سے تذکرہ کرنا۔ ڈانٹا بھی بتایا بھی کہ کیوں غلط ہے۔ مگر یہ نہیں کہا کہ تم نے کبھی کچھ ٹھیک نہیں کیا۔ ” آپ مما کی بات سنتے ہیں اور برتن دھوتے ہیں یہ بہت اچھی بات ہے مگر یہ دیر تک کمپیوٹر پر بیٹھنا یہ بہت غلط بات ہے.”


🌹 ٹین ایج میں بچوں کی یادداشت بہت دلچسپ ہوتی ہے۔ ساری بری بری باتیں یاد ہوتی ہیں اچھی باتیں یاد نہیں ہوتیں۔ ماضی سے متعلق اچھی باتیں شادی کے بعد یاد آتی ہیں کہ ہمارا گھر، ہمارا خاندان ہمارے امی ابا کتنے اچھے تھے۔ اس سے قبل تو بس یہ یاد رہتا ہے کہ کب ڈانٹا، کب کیا نہیں دلایا، فلاں وقت اکیلا چھوڑ گئے۔ ہم سب مل کر کبھی کبھی پرانی تصویریں دیکھتے ہیں۔فلاں وقت یہ ہوا تھا۔ یہ کیا تھا، آپ کو ایسے کپڑے پہنائے تھے۔ یہ پیار کیا تھا ۔ بچے بہت خوش ہوتے ہیں ۔ ان کو اچھی باتین یاد آتی ہیں۔


🌹 چھٹپن میں بھی اور بعد بھی ہر بچے کو یہ کہانی ضرور وقتا فوقتاً سنائی ہے کہ مما ابو کس قدر دعائیں مانگتے تھے آپ کے لیے اللہ تعالی بے بی دے دیں۔ اور جب بے بی آیا تو اس کا نام ۔۔۔ یہ رکھا۔ یہ بچوں کی فیورٹ کہانی ہے۔ ہم نے سالگرہ تو شاید کبھی کبھی ہی منائی ہو۔۔ مگر ان کو یہ اکثر بتایا ہے کہ ایک ایک بچے کے لیے مما ابو کس قدر شوق سے منتظر تھے۔


🌹بچوں کو کچھ اہم مواقع پر چھوٹے موٹے ہی تحائف دینا۔ اکثر ان کو گاڑیاں چاہیے ہوتی تھیں۔ میرا سارا گھر چھوٹی چھوٹی گاڑیوں سے بھرا ہے۔وہ ایک ڈیڑھ ڈالر کی گاڑی سے خوش ہوجاتے اور جمع کرتے رہتے۔ ان کے نام رکھتے، ان سے ماڈلز بناتے۔ مہنگے کھلونے بہت کم خریدے ، جب پر عید روزے رکھے، یا اپنی ساری منی بینک مسجد کو دے دی، تو اس وقت انہیں کوئی مہنگا کھلونا دلادیا۔ ورنہ بتایا ہوا تھا کہ یہ ہماری پرائس رینج ہے۔ اس میں بتادیں کیا چاہیے۔


🌹 کسی ایک بچے سے کوئی سنگین غلطی ہوگئی تو سب کے سامنے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ ہم دونوں تنہائی میں اس بچے سے طویل گفتگو کرتے،خفا ہونا، احساس دلانا، تلافی کی گفتگو، بچے سے پوچھنا آپ نے یہ اور وہ کیوں کیا۔ اور اس کے بعد اسے بتانا کہ آپ کی عزت کا اتنا خیال ہے کہ ہم کسی کو نہیں بتائیں گے اب آپ نے اس کو دہرانا نہیں ہے۔ اور اس کی تلافی کرنی ہے۔


🌹 بچوں کے ابو ہر طرح کے مشکل اور آسان حالات میں بچوں کو ہر ہفتے میں دو یا تین مرتبہ باہر چہل قدمی کو ضرور لے کر جاتے ہیں ، چاہے رات کی سخت ڈیوٹیاں ہوں، جاب نہیں ہو، گھر میں لڑائی ہوئی ہو۔ ان کے ابو کو فالج تھا، چودہ پندرہ برس سے مکمل طور پر بستر پر تھے۔ یہ ان کے بہت سے کام کیا کرتے تھے، ان کی اکثر طبیعت بہت خراب بھی ہوجاتی مگر اس کے باوجود والدین اور بچوں کو خوش رکھنے کے لیے خود محنت کرتے تھے۔

سارا دن ابو کو نہلانے میں صرف ہوا تو شام کو بچوں کو سائیکلوں پر لے گئے۔ برف باری میں ، گرمی میں ہر حال میں۔ پاکستان میں تھے تو کبوتروں کو دانا ڈلوانے لے جاتے ، قریبی پارک یا پرندوں اور جانوروں کی مارکیٹ لے جاتے۔ یہ سب باقاعدگی سے ہمیشہ کیا۔ اسی لیے بچے اپنے ابو سے بہت پیار کرتے ہیں۔ مجھے مذاق میں بھی انہیں کچھ کہنے نہیں دیتے۔ حالانکہ اصولوں کے معاملے میں وہ بہت سخت ہیں۔


🌹 بچوں کے دادا چونکہ کئی برس سے مکمل طور پر صاحب فراش تھے اس لیے عید اور اہم مواقع پر تحائف خرید کر ان کے ہاتھوں سے بچوں کو دلواتے۔


🌹 بچوں کے ساتھ چھٹپن میں بھی اور اب بھی طویل گفتگوئیں کرنا۔ اتنی مصروف زندگی کے باوجود میں اپنے بچوں سے بہت باتیں کرتی ہوں۔ ہر موضوع پر۔۔ دین ، سیاست، الحاد ،شادی، جہیز ، کلچر ،اسلامی تاریخ ، ادب، فلمیں ، کہانیاں۔۔۔ ہر حساس موضوع پر ان کی عمر کے اعتبار سے باتیں کرنا


🌹 اپنی مرضی کی چیزیں دکھانا تو ان کی مرضی کی چیزیں بھی دیکھنا۔ ان کے ویڈیو گیمز میں کبھی ساتھ بیٹھ جانا، ان کے ساتھ کرکٹ، بینڈ منٹن کھیل لینا، چھوٹے تھے تو ان کے ساتھ درخت پر بھی چڑھی اور ایک مرتبہ پیر میں موچ بھی ڈلوا بیٹھی۔ اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹر اور نرسیں حیران تھیں کہ اس عمر میں درخت پر کون اماں چڑھتی ہے۔ اور ان ایام میں شدید مشکل حالات بھی تھے۔ جذباتی طور پر اور دوسرے اعتبار سے بھی۔


مگر بچے آپ کی خوشی کا سامان ہوتے ہیں۔ جب آپ مسائل کے بوجھ تلے دبتے ہیں تو آپ بچوں پر اپنی بھڑاس نکال کر ان کو اپنے جذبات کا اگال دان بھی بنا سکتے ہیں اور آپ چاہیں تو یہ آپ کے لیے اسٹریس کی دوا بھی بن سکتے ہیں۔


شدید ڈیپریشن کے ایام میں بچوں کے ساتھ کہانیاں پڑھنا،کارٹوں دیکھنا، ان کے گلے لگ کر رو لینا، ان سے کتابوں۔ اور فلموں کی باتیں کرلینا، ساتھ مل کر قرآن یا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واقعات ڈسکس کرلینا بہت مدد دیتا ہے۔ بجائے اس کے کہ آپ ان پر چیخیں چلائیں، ان کو ماریں پیٹیں۔


اللہ کریم نے اگر فرمایا ہے کہ ہم تم کو ضرور آزمائیں گے، بھوک سے ، خوف سے ، جان و مال کے نقصان سے تو پھر ہم سب آزمائے جاتے ہیں۔
یہ بھی فرمایا کہ "انسان درحقیقت مشقت میں پیدا کیا گیا”.


آپ کے اپنے حالات ہوں گے۔ یقیناً کئی اعتبار سے مشکل بھی ہوگا۔ آپ اپنے لحاظ سے ان کوششوں کو جاری رکھیے۔ مگر یاد رکھیے کہ سخت حالات ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں۔ ان کا تذکرہ نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ زندگی آسان اور آسائش سے بھرپور تھی۔ مگر اس دوران آپ نے حالات کا مقابلہ کیسے کرنا ہے اور سوچنا ہے کہ آزمائش نے مجھے سڑانا جلانا نہیں بلکہ میچور، سمجھدار ، اور کندن بنانا ہے


اس مقصد کے لیے بہت توانا اور پازیٹیو انرجی کی ضرورت ہے اور بلاشبہ اللہ کا کرم اور اس سے دعائیں
بچوں کی تربیت دل کا سکون ہے۔ ان کے ہونے سے خوشی ہے۔ اللہ کریم انہیں ہمارے آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے رکھے۔ آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں