عرفات

وقوف عرفہ (حج 2014ء کی یادداشتیں – تیسرا اور آخری حصہ )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

پہلے یہ پڑھیے
وقوف عرفہ (حج 2014ء کی یادداشتیں – پہلا حصہ )

وقوف عرفہ (حج 2014ء کی یادداشتیں – دوسرا حصہ )

ہم نے راستے میں کچھ لوگ دیکھے جو خیموں اور کیمپوں سے باہر کھڑے ہو کر دعائیں مانگ رہے تھے۔
"کہیں میں ثواب میں پیچھے نہ رہ جاؤں۔”مجھے دل میں بڑی پریشانی لاحق ہوئی۔

لیکن اس کے لیے تازہ دم ہونا بہت ضروری تھا اور تازہ دم ہونا اس وقت چائے کے ساتھ لازم و ملزوم لگ رہا تھا۔

اکثر کیمپوں میں کھانے کا دور بھی چل رہا تھا۔ کچھ دیر بعد راستے میں دائیں بائیں گزر کر ہم ایک کینٹین نما جگہ پہنچے جو کسی کیمپ کا کچن تھا۔ اس طرح کا کینٹین نما ایک کچن مِنی میں ہمارے خیمے سے تھوڑی دور موجود تھا۔

"دیکھیں۔ ادھر کاؤنٹر پر پلاسٹک کے بڑے خوبصورت میڈیم سائز کے چائے کے کپ رکھے ہوئے ہیں۔” باجی رفعت نے کہا۔

"ہمیں بھی ایک ایک دے دیں ۔” باجی نے کاؤنٹر پر موجود بندے (باورچی) سے کہا۔
اس نے فوراً ہمارے ہاتھوں میں ایک ایک کپ تھما دیا۔

لیکن یہ کیا؟
یہ تو گرم ہونے کی بجائے ٹھنڈا یخ تھا۔ کھلا ہونے کی بجائے اس پر ڈھکن لگا ہوا تھا۔
"یہ چائے نہیں بلکہ آئس کریم ہے۔”مجھے کپ ہاتھ میں پکڑتے ہی فورًا احساس ہو گیا۔

"اس کی قیمت کیا ہے؟ "باجی نے پوچھا۔
"ہدیہ حجہ، ہدیہ حجہ”(حاجن! یہ تحفہ ہے) بے نیازی سے جواب ملا۔ پھر وہ دوسروں کو آئس کریم دینے میں مصروف ہو گیا۔

ایام حج میں یہ جملہ کثرت سے سننے کو ملتا تھا۔ اور سچی بات ہے کہ یہ سن کر بڑی خوشی ہوتی تھی۔ لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم حجاج کے لیے خصوصی پروٹوکول کا بندوست کیا ہوتا ہے۔ اپنا آپ بڑا قیمتی اور معزز لگتا تھا۔

ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور بے ساختہ ہنس پڑیں۔ ہمیں بڑا مزا آیا جب ہم نے وہیں اس کیمپ میں بیٹھ کر گرما گرم چائے کے بجائے ٹھنڈی یخ آئس کریم تناول فرمائی۔

"اللہ کا بہت شکر ہے جو ہمیں عرفات میں بھی اپنی نعمتیں عطا فرما رہا ہے۔” میں نے دل سے شکر گزار ہوتے ہوئے کہا۔
"الحمد للّٰہ۔” باجی نے بھی کہا۔
"آئس کریم کی پیکنگ ( پلاسٹک کے دل فریب ڈبے میں ) اتنی خوبصورت اور فینسی ہے کہ میرا دل چاہ رہا ہے کہ اسے عرفات کی یادگار کے طور پر پاکستان لے جاؤں۔ "میں نے باجی سے کہا۔
"بالکل۔” باجی نے بھی تائید کی۔

یہ لذیذ آئس کریم مجھے بعد میں بھی کئی مرتبہ مکہ اور مدینہ میں کھانے کا موقع ملا۔

اس کے بعد میں اور باجی رفعت اپنے کیمپ میں واپس آ گئیں۔
"یہ دل ہنوز چائے کا طالب ہے۔” کچھ دیر بعد مجھے دوبارہ اندازہ ہوگیا۔

اب میں اور باجی روبینہ چائے کی تلاش میں نکلیں۔ دائیں بائیں کچھ گھوم گھما کر، اپنے کیمپ کی نشانیوں اور راستے کو اچھی طرح ذہن نشین رکھتے ہوئے بلکہ بار بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی ہوئی ہم ذرا دور ایک کیمپ میں جا پہنچیں

"یہاں کئی افراد کے ہاتھوں میں گرما گرم چائے پلاسٹک کے ڈسپوز ایبل گلاسوں میں موجود ہے۔”میں نے دیکھتے ساتھ کہا۔

وہاں بھی کینٹین نما کچن موجود تھا۔ وہاں سے ہم دونوں نے چائے ڈسپوز ایبل گلاسوں میں لی۔ اگرچہ وہ اس کیمپ کے لوگوں کے لیے تھی لیکن دینے والے نے ہمیں بھی”ہدیہ حجۃ، ہدیہ حجۃ” کہہ کر فراخ دلی سے ایک ایک گلاس بطور ہدیہ عطا کر دیا تھا۔

"جزاک اللہ خیرا۔”ہم نے اسے دعا دی اور اپنے کیمپ میں واپس آگئیں۔ راستے میں ہم نے کئی کیمپ دیکھے۔

"یہاں کھانا رنگا رنگ ورائٹی پر مشتمل ہے۔ بے حد خوبصورت پیکنگ میں خوبصورت سے لنچ باکسز اس کیمپ کی خواتین و مرد حضرات کے ہاتھوں میں نظر آرہے ہیں ۔”ایک کیمپ کے قریب سے گزرتے ہوئے میں نے کہا۔

"اتنی خوبصورت پیکنگ ہے کہ سجائے جانے کے قابل لگ رہی ہے۔ ایسے خوبصورت کھانے کی پیکنگ کو کھولنے کی بجائے بند رکھنے کو ہی دل چاہتا ہوگا۔ شاید اسی لیے کیمپ کے بیشتر افراد کے قریب وہ ڈبے ایسے ہی رکھے ہوئے ہیں۔” باجی نے کہا

"ممکن ہے کہ عبادت میں مصروف ہونے کی وجہ سے لوگوں نے ابھی کھانے کا دھیان نہیں کیا ہوگا۔ یا شاید ایسی پیکنگ کھولنے کو دل نہیں کرتا ہوگا۔”میں نے کہا۔
"واللہ اعلم۔” باجی بولیں۔

"تاہم اکثر کیمپ اس وقت میدان عرفات کا حصہ لگنے کی بجائے کھانے کے میدان زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔”میں نے مزید کہا۔

کیمپوں میں جگہ جگہ خالی پلیٹیں، گلاس، چاولوں والے کولر، پانی، جوس اور لسی کی خالی بوتلیں اور کہیں کہیں پھلوں کے چھلکے، بسکٹوں کے خالی ڈبے دکھائی دے رہے تھے۔

"کئی کیمپ تو کھانے کے میدان کے ساتھ ساتھ فروٹ مارکیٹ کا منظر بھی پیش کر رہے ہیں۔”باجی نے ہنستے ہوئے کہا۔

ایک کیمپ میں بوفے کا وہ دور دورہ تھا کہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔
"کیا حج لذتوں کی تلاش کا نام ہے؟ جو میدان عرفات میں بھی کھانے پینے کا اتنا زیادہ دھیان ہے ۔”میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

” منی، مزدلفہ اور عرفات میں حج پیکجز والے ایسے گروپ موجود ہیں جن کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور عشائیہ تینوں بوفے سسٹم پر مشتمل ہوتا ہے۔” باجی نے کہا۔

"ہم بھی تو چائے کی طلب میں یہاں سے گزر رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالی میدان عرفات میں اپنے بندوں کو اپنی شفقت و رحمت کے ساتھ طرح طرح کی دنیاوی نعمتیں بھی عطا کررہا ہے تو اس میں مجھے کیا پریشانی اور ٹینشن ہونی چاہیے ؟” میرے دل میں خیال آگیا اور میں نے باجی سے شئیر بھی کر لیا۔

"بالکل۔ یہ تو اللہ اور اس کے بندوں کے معاملات ہیں۔ یہاں جو بھی پہنچ گیا ہے وہ خالی ہاتھ تھوڑا ہی واپس جائے گا، اپنی کوشش بساط اور عمل کے مطابق اللہ تعالی سے اجر و ثواب لے کر واپس جائے گا۔ ” باجی نے میرے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا۔

چائے کے گلاس ہاتھوں میں لیے ہم اپنے کیمپ میں واپس پہنچیں اور اپنی جگہ بیٹھ کر میں نے چائے پینا شروع کردی۔ باجی روبینہ نے چائے اپنے میاں حافظ ثناءاللہ صاحب کو دے دی۔ میرے ہاتھ میں چائے کا گلاس "بارش کا پہلا قطرہ” ثابت ہوا

"آپ نے چائے کہاں سے لی ہے ؟” اردگرد کی خواتین مجھ سے دریافت کرنے لگیں۔
"ایک دوسرے کیمپ سے لے کر آئے ہیں۔”میں نے بتا دیا۔
خواتین ہوشیار سی ہو گئیں اور ان کی کچھ ہل چل، کچھ سرگرمی اور مردوں سے بات چیت نظر آنے لگی۔

تھوڑی دیر بعد بہت سے مرد حضرات کے ہاتھوں میں چائے نظر آنے لگی۔ کسی کے ہاتھ میں چائے ڈسپوز ایبل گلاسوں میں تھی تو کوئی پانی کی چھوٹی خالی بوتلوں میں چائے بھر بھر کر لا رہے تھے۔ جو وہ ہاتھوں میں پکڑے ڈسپوز ایبل گلاسوں میں انڈیل کر استعمال کرتے تھے۔
"لوگ چائے کہاں سے لارہے ہیں ؟”میں نے باجی عائشہ سے پوچھا۔
"کیمپ سے باہر ایک پک اپ گاڑی میں سوار عرب لوگ چائے حاجیوں میں بطور ہدیہ تقسیم کر رہے ہیں۔” انہوں نے جواب دیا۔

"سبحان اللہ۔”بے ساختہ میری زبان سے نکلا۔

"اللہ تعالی ضیوف الرحمان کے عرب میزبانوں کے دلوں کو ٹھنڈا رکھے اور انہیں اجر کثیر عطا کرے۔”میں نے دل سے دعا دیتے ہوئے کہا۔
” آمین۔”باجی بھی بے ساختہ بولیں۔

کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں آئس کریم ہے۔ مجھے بھی ایک بہن نے دی مگر میں نے دوبارہ نہیں کھائی اور میں نے وہ کسی اور کو ہدیہ دے دی کیونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں چائے پی تھی۔

پانی اور لسی کی چھوٹی بوتلیں بھی وقتا فوقتاً تقسیم ہوتی رہیں لیکن میں نے ایک دفعہ پینے کے بعد لسی دوبارہ استعمال نہ کی کیونکہ مجھے وہ ترش سی محسوس ہوئی تھی۔ پانی کی مجھے بار بار ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ لہٰذا وہ وقتا فوقتاً پیتی رہی۔ الحمدللہ۔

چائے پی کر میں تازہ دم ہوگئی۔ دو سوا دو بجے کا وقت ہوگیا تھا اور وقت لمحہ بہ لمحہ تیزی سے گزر رہا تھا۔ مجھے گھڑیاں ہاتھوں سے پھسلتی محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے دورۃ المیاہ (Wash room) جا کر دوبارہ وضو کیا۔ منہ پر بار بار پانی ڈالا۔ آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مارے، تھوڑا سا پانی سر پر ڈالا اور اپنے کیمپ میں واپس آگئی جہاں لوگ ذکر، نفل، تلاوت اور سب سے زیادہ ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگنے کے مشاغل میں مصروف تھے۔

میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جو وقوف کا سارا وقت یعنی تقریباً ڈیڑھ دو بجے سے غروب آفتاب تک دوسروں سے ملے جلے بغیر دعائیں مانگتے رہے، قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہے ، تلبیہ، درود اور دیگر دعائیں پڑھتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ وقوف کا حق ادا کرتے ہیں اور ان کو دیکھ کر دوسروں کو بھی عبادت کی ترغیب ملتی ہے۔ مجھے ایسے لوگوں پر رشک آرہا تھا!

اب میں نے دل لگا کر عبادت کرنا شروع کر دی۔ "تلبیہ”کی انگلیوں پر تسبیح کی, پھر لا الہ وحدہ لا شریک لہ۔۔۔ کی اسی طرح انگلیوں پر تسبیح کرتی رہی۔
"یہ ایسی گھڑیاں ہیں جن کا کوئی مول نہیں۔
یہ ایسا دن ہے جو زندگی میں بار بار آنے والا نہیں۔” میرے دل میں بار بار خیال آتا تھا۔

میری زندگی کا قیمتی ترین دن!
دعاؤں کی قبولیت کا دن!
میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ آنسو پلکوں پر امنڈ آنے کے لیے بے تاب تھے۔ میرا دل بے حد حساس ہو رہا تھا۔ اپنی بے بسی اور کم مائیگی کا جہاں بھرپور احساس تھا، وہیں رحمان و رحیم رب سے اس کی بے پناہ شفقت و رحمت کی بھی امید تھی۔

میرے دل میں تڑپ اور توقع تھی کہ ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والا رب یقیناً سب کچھ عطا کرے گا۔ گناہوں کی مغفرت، اجر و ثواب ، صحت و تندرستی، رحمتیں اور برکتیں ، رزق حلال ، علم نافع ، عمل کی توفیق، اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کی توفیق وغیرہ – امت مسلمہ کے اتفاق و اتحاد، مسلمانوں کی نشاط ثانیہ اور اس کے لیے مسلمانوں میں جذبہ جہاد کی بیداری کے لیے بھی میں دل سے دعائیں کرتی رہی۔

جہاں میں اپنے لیے دعائیں کرتی رہی، وہیں دوسروں کے لیے بھی میں نے ہاتھ پھیلائے رکھے۔ اب تک پاکستان سے تقریباً سارے بہن بھائیوں اور دیگر احباب کے فون یا میسجز آچکے تھے کہ "عرفہ کی خصوصی دعاؤں میں ہمیں اور ہمارے بچوں کو یاد رکھنا ۔”

جدہ میں مقیم حسن بھائی اور بھابھی نے دیگر دعاؤں کے علاوہ خصوصی طور پر بڑے بھتیجے عبداللہ کے لیے دعاؤں کا کہا۔

عبداللہ کی عمر تقریباً چودہ سال ہے۔ آج سے لگ بھگ ڈیڑھ دو سال پہلے سے وہ کمر درد کی تکلیف میں مبتلا ہے۔ اچھا بھلا روٹین کے مطابق سکول جاتا تھا۔ ماشاءاللہ ذہین بچہ ہے ،حافظ قرآن ہے۔
اچانک اس کو کمر درد کا مسئلہ شروع ہو گیا۔ والدین نے معمولی تکلیف سمجھی لیکن علاج معالجے کی طرف بھرپور توجہ دی تاکہ بچے کے لیے زیادہ مسئلہ نہ بن جائے لیکن مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی والا حساب ہوگیا۔ واضح طور پر کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ مسئلہ کیا ہے؟ اور کیوں ہے ؟

لیکن رفتہ رفتہ اس کی تکلیف اتنی بڑھ گئی کہ اس کا سکول جانا بھی چھوٹ گیا۔ اب وہ تقریباً بستر پر ہے، گھر میں تھوڑا بہت خود چل پھر لیتا ہے، خود نہا دھو لیتا ہے ، باتھ روم چلا جاتا ہے ، باقی وہ ہوتا ہے اور بستر! ہمارے دل کو بڑی تکلیف ہوتی ہے جب اچھے بھلے صحت مند چلنے پھرنے والے عبداللہ کو ہم اس طرح دیکھتے ہیں۔

"آپ اجتماعی دعا کروا دیں۔”اردگرد کی خواتین نے مجھے کہا۔
"ڈاکٹر محسن صاحب نے ایک دفعہ اجتماعی دعا کروادی ہے۔ بہتر ہے کہ اب ہم سنت کے مطابق اپنی انفرادی دعائیں مانگیں۔”میں نے جواب دیا۔

"واقعی ایک دفعہ اجتماعی دعا ہو تو چکی ہے۔” سب نے اتفاق کیا اور علیحدہ علیحدہ ہو کر اپنی اپنی دعاؤں کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔

مجھے جس جس نے اور جس دعا کے لیے کہا تھا ، میں بڑے دھیان سے ذہن میں ان کے نام اور ان کی دعائیں یاد کر کے ان کے لیے دعائیں کرتی رہی۔

دعاؤں کا بحر بیکراں جاری رہا۔ میں نے اپنے، شوہر اور بچوں کے لیے ، والدین ، ساس، مرحوم سسر کے لیے ، بہن بھائیوں اور نندوں اور جیٹھوں سمیت سب چھوٹے بڑے سسرالی رشتہ داروں کے لیے ، اپنے اساتذہ کے لیے ، نام بہ نام ہمسایوں ، طالبات ملنے جلنے والیوں اور اپنے اداروں کے لیے۔ غرض ممکن حد تک ہر ایک کے لیے دعائیں کرتی رہی۔

انسان صرف اپنے لیے مانگتے تو کتنی دیر تک مانگ سکتا ہے ؟
دوسروں کے لیے مانگے تو دیر تک مانگ سکتا ہے ۔ دوسروں کی خواہشات و ضروریات کو اللہ کے حضور پہنچاتا ہے تو ثواب اس کے لیے ہوتا ہے۔ کتنا عجیب معاملہ ہے!
مانگتے ہم دوسرے لوگوں کے لیے ہیں لیکن اجر و ثواب ہم پاتے ہیں۔ وہی تو بادشاہوں کا "بادشاہ "ہے۔ اپنے لیے مانگیں تو بھی عطا کرتا ہے اور دوسروں کے لیے دست طلب دراز کریں تو بھی دعائیں قبول کرتا ہے۔

عصر کے بعد حاجیوں کی اکثریت اپنے کیمپوں سے باہر نکل کر کھلی جگہوں پر یا راستوں کی ایک سائیڈ پر یا کیمپ کے اندر دوسروں سے تنہا، سب سے کٹ کر ہاتھ اٹھائے، آنکھوں میں آنسو لیے، سسکیوں کے ساتھ ، روتے کرلاتے اللہ سے اپنے من کی مرادیں مانگنے میں مصروف تھی۔

میں بھی مانگنے والوں میں شامل تھی ۔ زندگی میں دعا مانگتے ہوئے میں کبھی اتنا نہیں روئی جتنا اس دن روتی رہی ۔ رو رو کر میری ہچکیاں بندھ گئیں تھیں۔ محھے یہی خیال دامن گیر تھا کہ "سب کو نوازنے والا رب کہیں مجھے میرے گناہوں کی وجہ سے محروم تو نہیں رکھے گا ؟”

پھر اس کی رحمانیت کا خیال آتا تو میرے دل کو امید بندھ جاتی کہ "اگر رب نے بلایا ہے تو سب کچھ عطا بھی ضرور کرے گا۔ ان شاءاللہ خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا۔”

وقوف کا آخری وقت مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔ ہر طرف مانگنے والوں کے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے ، اکثر لوگ کھڑے ہو کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ آہوں اور سسکیوں کی گھٹی گھٹی صدائیں وقتا فوقتاً میرے کانوں میں پڑتی تھیں۔

مغرب کی اذان کا وقت قریب تھا مگر میری دعائیں ختم نہیں ہو رہی تھی۔ پھر جی بھر کر ندامت کے آنسو بہا کر ، دعائیں کر کر کے جب میرا وجود ہلکا پھلکا ہوگیا ، اللہ تعالی کی مغفرت کی "امید "ہو گئی تو میں نے دعا ختم کی۔ مغرب کی اذان کی صدا آنی شروع ہو گئی۔ لیکن گولہ چھٹنے کو آواز نہیں آئی بلکہ بعد میں بھی میں نے نہیں سنی۔

میں نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا تو ہر طرف لوگوں کے چہروں پر خوشیاں رقصاں تھیں۔ سب ایک دوسرے کو حج کی مبارکباد دے رہے تھے۔ میں نے بھی دوسروں کو اور دوسروں نے مجھے حج کی مبارکباد دی۔ کچھ دیر بعد مجھے ڈاکٹر محسن صاحب نظر آئے۔ میں نے انہیں اور انہوں نے مجھے حج کی مبارکباد دی۔

غروب آفتاب کے وقت ہمیں عرفات سے کوچ کرنا تھا لیکن ابھی ہمارے کوچ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اپنا رخت سفر میں نے فوری طور پر سمیٹ لیا تھا بلکہ پہلے سے سمٹا ہوا تھا- مغرب کا وقت گزر رہا تھا۔ لیکن کوئی فرد مغرب کی نماز کی ادائیگی نہیں کر رہا تھا۔

یہ واحد وقت اور جگہ ہے جہاں مغرب اور عشاء کی نماز کا وقت ہوجانے کے باوجود باذن اللہ یہاں ادائیگی نہیں کرنی ہوتی بلکہ مزدلفہ پہنچ کر کرنی ہوتی ہے۔

دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں "حج مبرور "کا ثواب عطا فرمائیں اور ہمیں بار بار اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمائیں۔ آمین ثم آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں