مینار پاکستان لاہور . یوٹیوبر لڑکی کی بے حرمتی

لاہور میں یوٹیوبر لڑکی کی بے حرمتی ، اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان

جس وقت یہ تحریر لکھ رہی ہوں ، سماجی رابطے ٹوئٹر پر تمام کے تمام ٹاپ ٹرینڈز کا تعلق مینار پاکستان کے سائے تلے رونما ہونے والے واقعہ سے ہے۔ چودہ اگست دو ہزار اکیس کو جشن آزادی منانے والوں کی کووریج کرنے کے لئے ایک معروف یوٹیوبر لڑکی وہاں پہنچی تو وہاں موجود سینکڑوں نوجوان اسے پکڑ لیا ، اس کے کپڑے کھیچنے لگے ۔ متاثرہ لڑکی کے مطابق وہ چار ساتھیوں کے ہمراہ ویڈیو بنا رہی تھی کہ اچانک ہجوم نے حملہ کردیا۔ لوگ جنگلہ پھلانگ کر ہماری طرف آگئے اور کھینچا تانی کرنے لگے۔ کپڑے پھاڑ دیے اور مجھے اٹھا کر ہوا میں اچھالتے رہے۔ مجھے زد و کوب کیا ۔موبائل ، پندرہ ہزار روپے ، سونے کی انگوٹھی اور ٹاپس اتار لئے۔

یہ ایک واقعہ ہے جو رپورٹ ہوا ورنہ چودہ اگست کے روز ایسے واقعات ہر شہر میں پیش آئے جن میں منچلے سڑکوں پر ہر آنے جانے والی لڑکی اور خاتون کو چھیڑتے رہے۔ ایسے واقعات صوبہ خیبر پختون خوا کے شہروں میں بھی پیش آئے۔ حالانکہ کہا جاتا تھا کہ پختون عورتوں بالخصوص پردہ دار خواتین کی عزت و احترام کرتے ہیں۔

تاہم اب حقیقت یوں ظاہر ہوئی کہ ہر پختون صرف اپنے گھر اور خاندان کی لڑکیوں اور خواتین کو قابل احترام سمجھتا ہے لیکن باقی لڑکیوں اور خواتین کو تنگ کرنا ، ان کی بے حرمتی کرنا جائز سمجھتا ہے۔ بہر حال یہ تو ایک بات تھی جو ایک دوسری بات سے نکل آئی۔

پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اسے ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں لیکن یہاں ہر آنے والا دن ہر پچھلے دن سے زیادہ برا نکلتا ہے۔ بچوں ، لڑکیوں اور خواتین کی بے حرمتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں لیکن حکومت مزید بری ہوتی صورت حال پر قابو پانے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے۔

سنا ہے کہ آج تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدار کے تین سال مکمل ہونے پر جشن منا رہی ہیں۔ حالانکہ ملک میں خراب حالات دیکھ کر حکمران طبقہ کو منہ چھپانا چاہئیے۔

دوسری بات ، جو میں عموما ہر ایسے واقعے کے بعد لکھا کرتی ہوں کہ حکمران عوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں ، اس لئے اب عوام کو خود ہی اپنی جان ، مال اور عزت کی حفاظت کا بندو بست کرنا چاہئے۔

خواتین ، لڑکیوں کو چاہئے کہ وہ گھر سے باہر کم از کم نکلیں، اشد ضرورت ہو تو نکلیں۔ بصورت دیگر باہر مردوں کے روپ میں درندے تاک لگائے بیٹھے ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کو دیکھتے ہی ان کی رال بہنا شروع ہوجاتی ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مردوں کی اکثریت گندی ذہنیت رکھتی ہے۔ وہ ہر خاتون اور لڑکی کو دیکھتے ہی اپنے مذموم منصوبے بنانا شروع کردیتی ہے۔ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کا انھیں کوئی خوف نہیں۔ وہ تو عورتوں اور بچیوں کے درپے ہوں گے۔

جب حکمران اپنی رعایا کو بچانے کی فکر نہیں کرتے تو پھر عوام کو خود ہی بچنا ہوگا۔

اس کی پہلی تدبیر ہے کہ خواتین اپنے آپ کو گھروں میں محفوظ رکھیں ۔ اس کے نتیجے میں وہ نوے فیصد سے زائد محفوظ ہوجائیں گی۔ ایسا اس وقت کرنا پڑے گا ، جب تک معاشرے میں حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہوجاتا۔ مردوں سے حفاظت کا واحد فارمولا مردوں کی رسائی سے دور رہنا ہے۔

تاہم اپنے گھروں میں خاموش نہیں رہنا، وہاں بیٹھ کر جدوجہد کرتے رہنا ہے کہ معاشرہ میں خواتین کی جان و مال اور عزت محفوظ ہوسکے۔ انھیں وہ حقوق حاصل ہوں جو ہر خاتون کا بنیای حق ہے۔ ہماری منزل ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے ، ایک ایسی دنیا کی تشکیل ہے جہاں زیورات سے لدی پھندی خاتون بلا خوف و خطر سفر کرے اور کوئی اسے بری نگاہ سے دیکھنے والا نہ ہو۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں