بادبان-،-عبید-اللہ-عابد

جناب عمران خان کا نیا منصوبہ اور میر تقی میر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

کیا پاکستان ایک بار پھر سن دو ہزار چودہ سے دوچار ہونے والا ہے؟ جب پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جناب عمران خان اور ان کے سیاسی کزن علامہ طاہرالقادری  اپنے پینتیس ہزار لشکریوں کے ساتھ بیٹھ گئے تھے، جب حزب اقتدار کے لوگوں کی شلواریں گیلی کرنے کے اعلانات ہورہے تھے، جب سپریم کورٹ کی دیواروں پر کپڑے سوکھائے جا رہے تھے، جب ڈی چوک کے اردگرد قبریں کھودنے کی باتیں کی جاتی تھیں۔ کیا وہ وقت پھر آنے والا ہے؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں اپنی ہی کہی ہوئی چند باتوں کو یاد کرنا چاہیے۔ مثلاً ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ مغربی قوتیں پاکستان میں امن و استحکام کے بجائے انتشار، بدامنی اور عدم استحکام چاہتی ہیں۔

ہم میں سے ہر ایک نے اسی نکتہ پر پاکستانی رہنماؤں کے طویل لیکچرز اور تقاریر ضرور سنی ہوں گی۔ اس بابت سابق وزیراعظم جناب عمران خان کے  خیالات سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں بشرطیکہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے کسی دفتر میں محفوظ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے امریکا کے خلاف نعرہ لگایا تھا ’کیا ہم آپ کے غلام ہیں؟ ایبسولیوٹلی ناٹ‘۔

پھر جناب عمران خان نے انکشاف فرمایا کہ امریکا نے اپنے ہاں متعین سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کی جیب میں 30 ہزار ڈالرز  ڈال دیے تھے اور انہی تیس ہزار ڈالرز سے ان کی حکومت گرا دی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اب جناب عمران خان اُس ’سنی اتحاد کونسل‘ میں مدغم ہوگئے ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امریکی حکومت سے خصوصی فنڈز حاصل کرتی رہی ہے۔ امریکی حکام نے سنی اتحاد کونسل کو اگست دو ہزار نو میں 36 ہزار چھ سو سات ڈالرز عطا کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

خیر! انھیں کھلے تضادات کہنا مناسب نہیں ہوگا، یہ عشق کا رتبہ ہے جسے عشق ہی جان سکتا ہے۔ معرفت کی ایسی باتیں ہیں جنھیں ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

ہمارے ہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف ایسے ادارے دنیا کی تمام اقوام کو ہمیشہ کے لیے اپنا باجگزار بنانا چاہتے ہیں، وہ انھیں اپنے قرضوں کی دلدل میں پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں۔ شاید اسی لیے جناب عمران خان سن دو ہزار اٹھارہ میں اقتدار میں آنے سے پہلے فرمایا کرتے تھے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بن کرخودکشی کرلیں گے لیکن آئی ایم ایف کے دروازے پر نہیں جائیں گے۔

یہ الگ بات ہے کہ اب جناب عمران خان نے اسی آئی ایم ایف، یورپی یونین اور دیگر عالمی مغربی اداروں کو ایک خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں وہ انھیں یاد کرائیں گے کہ ان اداروں کا اپنا ایک چارٹر اور مینڈیٹ ہوتا ہے، اور وہ چارٹر یہ کہتا ہے کہ وہ کسی ملک کو اس وقت قرضہ دیں گے اور وہاں کام کریں گے جب اس ملک میں گڈ گورننس ہوگی۔ اسی طرح جناب عمران خان تمام عالمی اداروں کو گڈ گورننس کی تعریف سکھائیں گے اور انھیں یہ نصیحت کریں گے کہ جہاں جمہوریت نہ ہو وہاں آئی ایم ایف سمیت دیگر اداروں کو کام نہیں کرنا چاہیے۔

جناب عمران خان نےآئی ایم ایف کو یہ خط کیوں لکھنے کا فیصلہ کیا؟  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس وقت سخت غضب ناک ہیں اور چاہتے ہیں کہ آٹھ فروری سن دو ہزار چوبیس کے عام انتخابات کے بطن سے جنم لینے والی نئی حکومت کو دنیا کے کسی بھی ادارے کی طرف سے قرض نہ ملے۔ ان کا خیال ہے کہ جب قرض نہ ملا تو ملکی نظام نہیں چل سکے گا۔ جب ملکی نظام ہی نہ چل سکا تو پھر مقتدر قوتیں  انھیں اڈیالہ جیل سے باہر نکالنے اور ایوان اقتدار میں پھر سے بٹھانے پر مجبور ہوجائیں گی۔ اس کے بعد وہ آئی ایم ایف، یورپی یونین اور دیگر عالمی مغربی اداروں کو ایک اور خط لکھیں گے جس میں انھیں پاکستان کو قرض فراہم کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے۔

اس موقع پر اللہ بخشے میر تقی میر، بہت یاد آ رہے ہیں۔ برسوں پہلے کہہ گئے تھے

میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

بہرحال سردست عمران خان آئی ایم ایف کو جو خط لکھیں گے اس میں عالمی مالیاتی ادارے کو ایک مکمل لائحہ عمل دیں گے کہ اگر کسی عالمی مالیاتی ادارے کو نو منتخب حکومت سے کوئی بات چیت کرنا بھی ہے تو وہ پہلے اس بات کو یقینی بنائے کہ جن حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے، وہاں آڈٹ ہو، اس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نہیں بلکہ ایک غیر جانبدارانہ آڈٹ ٹیم بیٹھے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کی سربراہی میں ہو۔ آڈٹ کے بعد جہاں  جس اُمیدوار کی جیت ثابت ہو جائے، وہ اس کی جیت کا نوٹیفیکشن جاری کرے۔ اس کے بعد ہی آئی ایم ایف حکومت کے ساتھ بات چیت کرے۔ جناب عمران خان اس خط میں آئی ایم ایف وغیرھم کو متنبہ کریں گے کہ اگر دھاندلی کا معاملہ حل نہیں کیا جاتا تو آئی ایم ایف کا پاکستان کو قرض دینا انتہائی نقصان دہ ہوگا۔

دوسری طرف مزید چند دن کے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف جناب بیرسٹر گوہر خان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف پارلیمنٹ کا حصہ بنے گی اور اپنا کردار ادا کرے گی۔  سنا ہے کہ تین مارچ کو جناب سینیٹر علی ظفر چیئرمین بنیں گے۔ بیرسٹر صاحب کے اس ارشادِ عالیشان سے واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اس بار پارلیمان کے باہر ہونے کی غلطی ہرگز نہیں کرے گی، اپنے کچھ عرصہ پہلے تک کے فلسفے بعنوان ’ ہم پارلیمان میں چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے‘ پر عمل پیرا نہیں ہوگی بلکہ پارلیمان کے اندر بیٹھ کر ملکی نظام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرے گی۔ اور اس نظام کو اس وقت تک نہیں چلنے دے گی جب تک جناب عمران خان وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر رونق افروز نہ ہوجائیں۔ پھر وہ خود قرض حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف، یورپی یونین سمیت دیگر عالمی اداروں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔

یہ ہے پاکستان میں آنے والے دنوں کا منظرنامہ جو جناب عمران خان کے تخیل میں ہے۔ پس! ثابت ہوا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اگر پاکستان میں یہ سب کچھ نہ ہو تو بھلا تاریخ کیسے اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے؟ پھر یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا گول ہے۔ پاکستانی قوم جہاں سے چلتی ہے، کچھ عرصہ بعد وہاں آن کھڑی ہوتی ہے۔ اب تو خیر سے چلتی ہی نہیں ہے، اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر چلنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “جناب عمران خان کا نیا منصوبہ اور میر تقی میر”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    بہت عمدہ تحریر ۔۔۔۔ خوب صورت طنز،مزاح۔۔۔ اور حقیقت نگاری ۔۔۔۔۔۔۔