ایک-باحجاب-مسلمان-نوجوان-خاتون-دوسری-خاتون-کے-کان-میں-کھسر-پھسر-کر-رہی-ہے

پیغام صبح: غیبت سے بچنے کا آسان راستہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

’غیبت‘ کے معنی ہیں: کسی کے پیٹھ پیچھے اس کا ذکر اس طرح (برے الفاظ میں) کرنا کہ اگر اس بات کو وہ خود سنتا تو اسے  پسند نہ کرتا۔

اﷲ تعالیٰ نے غیبت کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’ اور تم ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی ایک چاہتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے تو اسے ِاس سے گھن آتی ہے‘۔ (الحجرات:12) دوسری جگہ ارشاد فرمایا:’ہر طعن کرنے اور غیبت کرنے والے کے لیے خرابی ہے‘۔ (الھمزہ )غیبت اتنا قبیح عمل ہے کہ سننے والوں کی بھی مذمت کی گئی ہے۔

ایک اور حدیث کے مطابق یہ گناہ کبیرہ ہے اور زنا جیسے گناہ سے بھی بدتر ہے۔ اللہ تعالی نے سورہ الحجرات میں اس برائی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ مردہ بھائی کی لاش کو نوچ نوچ کر کھانے کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ یہ وہ برا فعل ہے جس میں لوگ سب سے زیادہ مبتلا ہوتے ہیں اور اس کو ہلکا سمجھتے ہیں۔ ایک وبا کی مانند یہ اخلاقی بیماری ایک سے دوسرے تک پہنچتی جاتی ہے۔

زبان کی وجہ سے ہی انسان کو دنیا وآخرت میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور پیٹھ پیچھے عیب بیان کرنا ان سب میں نمایاں ہے۔ قرآن پاک میں جس طرح اللہ تعالی نے مثال دے کر سمجھایا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے معاشرے کا تصور کریں تو لاشوں کو نوچتے کھاتے ہوئے لوگ نظر آئیں گے۔ کچھ لوگ اس کام سے بچنے کی کوشش کریں تو دوسرے زبردستی ان کو شریک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کچھ بھی معاملہ ہو معاشرے میں اولادِ آدم مردہ بہن بھائیوں کی لاشوں کو کھانے میں مصروف ہے اور اس کو گپ شپ، بہترین وقت گزاری، لطف اندوزی اور بے تکلف دوستی کا نام دیا جاتا ہے۔ غیبت کرنے والے کا دل سخت ہو جاتا ہے۔ نیکی کر کے دل کوخوشی کا احساس چھن جاتا ہے۔ اک انجانے خوف کا احساس قلب و روح پہ چھایا رہتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو ہم سےکسی کی برائی بیان کرتا ہے لازم وہ ہمارے بارے میں بھی کسی اور کے پاس جا کر ہماری برائی کرتا ہے۔ غیبت جیسے گناہ سے بچنے کے لیے ہمیں اپنے نفس سے باقاعدہ جنگ کرنا ہوگی۔ اور یہ جنگ جیتنے کے لیے پوری تیاری کرنا ہوگی۔ اپنی عبادتیں اور تمام نیکیاں اگر محفوظ رکھنا ہیں تو اس کے لیے خاص اہتمام کرنا ہوگا۔

روزانہ اپنا محاسبہ کیا جائے کہ آج کتنے لوگوں کی غیبت کی اور اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ اگلے روز اس میں کمی لانی ہے۔ روزانہ اگر یہ تعداد ایک نمبر بھی کم ہوتی ہے تو اچھی کامیابی ہے۔ مسلسل کوشش سے پہاڑ بھی سر کیا جاسکتا ہے۔

جس فرد کی کوئی ہم سے برائی کرے تو اس کا دفاع کیا جائے، اس کی کوئی خوبی ضرور بیان کرکے گفتگو کا رخ موڑنے کی کوشش کی جائے۔

اپنی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ جس کی برائی کی ہے اس کے لیے دعائے خیر کی جائے۔ بار بار ایسا کرنے سے دل کی سختی دور ہوتی ہے۔

زبان کی حفاظت کے لیے یہ عادت بنانے کی مشق کی جائے کہ بات کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ اس بات کو کرنے سے فائدہ زیادہ ہے یانقصان؟ کام کی بات ہو تو کی جائے، محض بات برائے بات کرنا احمقوں کا طریقہ ہے۔

جس محفل میں یا جس ملاقات میں لوگ زیر بحث ہو تے ہوں ان سے دور رہا جائے۔ اپنی نیکیوں کو ضائع کرنے سے بہتر ہے تنہائی اختیار کی جائے۔

سائنس نے رابطے آسان کر دیے ہیں۔ گناہ اور ثواب کے راستے بھی کشادہ ہوگئے ہیں۔ یہ ہمارا انتخاب ہے کہ ہم ا پنے لیے کیا پسند کرتے ہیں۔

لوگوں کے بارے میں باتیں ہی کرنے کی عادت ہے تو انبیاء، امہات المومنین، صحابہ و صحابیات، سلف صالحین کی باتیں کی جائیں ہر بری عادت کو تبدیل کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ مل جاتا ہے، شرط صرف اپنے نفس کو نیک نیتی سے سیدھے راستے پہ لانے کا عزم ہے ’والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا‘۔

اللہ تعالیٰ تو منتظر ہے کہ اس کے بندے گناہوں سے باز آجائیں اور اپنے رب کی طرف پلٹ آئیں۔ اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں۔

اللھم ألف بین قلوبنا و أصلح ذات بیننا واھدنا سبل السلام و نجنا من الظمات الی النور۔ آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں