بھاگتے ، دوڑتے ہوئے بچے

روشن ستارے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

طوبیٰ ناصر :

یہ معاذ کہاں چلا گیا؟
پارک میں بیٹھی سارہ کو اپنا بیٹا معاذ کچھ دیر سے نظر نہ آیا تو فکرمندی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔ تھوڑا ڈھونڈنے کے بعد اسے دور معاذ کھڑا دکھائی دے رہا تھا، اس کے ساتھ کچھ اور بچے بھی تھے اور وہ کسی بات کے بارے میں تجسس میں لگ رہے تھے۔

سارہ بھی ان کے پاس چلی گئی اور جا کر پتہ چلا وہاں کسی پرندے کا گھونسلہ ہے اور اس میں پرندے کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ معاذ اور اس کے ابھی کچھ دیر پہلے پارک میں بنے دوست اس پرندے کے بچوں کو اپنی تفریح کا سامان بنائے بیٹھے ہیں اور تو اور ۔۔۔۔۔۔ وہ پرندہ جب اپنے گھونسلے میں آنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اسے بھگا دیتے ہیں، معاذ سارہ کے پوچھنے پر چہک چہک کر اسے اپنی کارگزاری کی روداد سنا رہا تھا۔

سارہ نے گھونسلے کو دیکھا تو چڑیا کے پچے انسان کے بچوں کے رویے سے پریشان شور مچا رہے تھے اور چڑیا بھی دور بیٹھی بے بسی سے دیکھ رہی تھی اور قریب آنے کی کوشش میں بار بار پیچھے بھگا دی جاتی تھی۔

سارہ نے سب بچوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا آپ لوگ کب سے اکیلے کھیل رہے ہیں اب ہم سب مل کر ایک ایکٹیویٹی کرتے ہیں۔۔۔ بچوں نے بھی خوشی سے ہامی بھر لی۔

سارہ نے بیگ سے بسکٹ کا ایک پیکٹ اور پانی کی بوتل نکالی، جلدی سے بسکٹ کا چورا بنایا، اور پیکٹ کھول کر ایک بچے کے حوالے کیا، بوتل کے ڈھکن میں پانی ڈالا، معاذ کو دیا اور ان دونوں سے کہا :
یہ لے جائیں اور گھونسلے کے پاس رکھ کر آئیں۔

وہ دونوں رکھ کر وآپس آئے تو سارہ سب بچوں کو لے کر تھوڑا فاصلے پر بیٹھ گئی اور سب بچوں کو دیکھنے کا کہا۔ بچوں کے گھونسلے کے قریب سے ہٹنے پر چڑیا فوراً گھونسلے پر آ گئی۔ چڑیا کو دیکھ کر اس کے بچے بھی خوش ہوئے، پھر چڑیا نے وہاں سے پانی لیا اور بسکٹ کا چورا خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی دیا ۔

یہ سارا منظر سب بچے انہماک سے دیکھ رہے تھے، چڑیا کے پانی اور بسکٹ لینے پر ایک خوشی بچوں کے چہرے پر دوڑ جاتی۔ اب وہ حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے، اتنے میں معاذ نے آواز لگائی ” وہ دیکھو! چڑیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے اور مسکرا بھی رہی ہے۔ وہ شاید ہمیں شکریہ بول رہی ہے۔ سب کے پھول سے جیسے چہروں پر معصومیت اور خوشی بکھری تھی۔

سارہ نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور سب سے پوچھا:
” اب بتاؤ؟ ایسے چڑیا کی مدد کر کے اچھا لگ رہا ہے یا اسے تنگ کر کے اچھا لگ رہا تھا؟ “

سب بچے یک زبان بولے : ” چڑیا کی مدد کر کے“
سارہ مسکرا دی۔ اچھا تو اس سے ریلیٹڈ آپ سب کو ایک واقعہ سناؤں؟؟
” جی ۔۔۔۔۔ “ سب بچوں نے کہا تھا۔
” اچھا ! تو آپ سب کو پتہ ہے ہمارے آئیڈیل کون ہیں؟ “
” معاذ ! آپ بتاؤ؟ “

” ہمارے آئیڈیل ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان کی زندگی ہمارے لیے رول ماڈل ہے۔“

” بالکل۔۔ “ سارہ نے شفقت بھری نگاہ اپنے بیٹے پر ڈالی تھی، اسے کل کا سیرت کا پڑھایا گیا سبق یاد تھا۔

” اچھا تو میں اب آپ کو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ سناتی ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو آپ نے دیکھا ایک چڑیا بے چین ہوکر شور کر رہی ہے ، آپ نے دریافت کیا کہ چڑیا کس وجہ سے بے چین ہے تو صحابہ کرام نے بتایا کہ اس کے گھونسلے سے بچوں کو اٹھا لیا گیا ہے اس لیے بے چین ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بچوں کو وآپس اس کے گھونسلے میں رکھوایا اور دوبارہ ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ جب چڑیا نے اپنے بچوں کو گھونسلے میں دیکھا تو پر سکون ہو گئی۔ “

” تو بچوں آپ کو اس واقعے سے کیا سبق ملا؟؟ “
سب بچوں نے ایک زبان ہو کر کہا : ” ہمیں کبھی کسی کو ستانا نہیں چاہیے، ہمیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں کو ماننا چاہیے۔ “

سارہ نے شفقت سے سب کو دیکھا۔
” ما شاءاللہ آپ سب تو بہت اچھے بچے ہو ، بالکل ہمیں ایسا ہی کرنا ہے تاکہ ہم اس دنیا کو بتا سکیں کہ ہمارے نبی پوری انسانیت کے لیے رحمت ہیں اور ہم ان کی باتوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں بہترین انسان بننا ہے تاکہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں کو پوری دنیا تک پہنچا سکیں۔ ہم ایسا کریں گے نا؟؟ “ سارہ نے سوالیہ نظروں سے بچوں کے طرف دیکھا۔

سب بچوں نے رضامندی کا نعرہ لگایا تھا۔ ” جی۔۔۔۔۔۔“

” اچھا اب سب چلیں ، بہت دیر ہو چکی ہے۔ “ سب بچے اپنے مما بابا کے پاس جائیں۔ ہم یہ بسکٹ کا ریپر اور بوتل بھی اٹھا کر کوڑا دان میں ڈال دیتے ہیں کیوں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔“ بچوں نے چہک کر کہا اور سارہ حیرانگی اور خوشی کی ملی جلی کیفیت سے بچوں کو دیکھ رہی تھی جو اپنے ماں، باپ کے پاس جانے کے لیے بھاگتے ہوئے ننھے ننھے ستارے لگ رہے تھے جنھیں کل کو اسلام کا سورج بن کر دنیا پر چمکنا تھا ان شاءاللہ۔

سارہ بھی معاذ کا ہاتھ تھام کر پارک سے نکل رہی تھی کہ سورج غروب ہو چکا تھا لیکن اس کے اندر ایک رشنی چمک رہی تھی ، اس نے سوچ لیا تھا اب باقی کی زندگی وہ ایسے ہی اپنے آپ میں گم ہو کر نہیں گزارے گی بلکہ وہ اپنی زندگی ان مستقبل کے ستاروں کے لیے وقف کر دے گی۔ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کام کرے گی جنھوں نے دین اور ملک کا نام روشن کرنا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “روشن ستارے”

  1. زبیدہ روف Avatar
    زبیدہ روف

    طوبی صاحبہ، بہت اچھی اور موثر تحریر ھے۔۔اچھا ھو اگربادبان کے ساتھ منسلک والدین اپنے بچوں کو تربیت پر مبنی تحریریں پڑھنے کی ترغیب دیں یا خود پڑھ کر سنائیں۔