محترمہ فاطمہ جناح ، میر ظفراللہ خان جمالی

مادر ملت فاطمہ جناح کا باڈی گارڈ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فاروق عادل :

وہ کہا کرتے تھے: ” ہمارا انداز سیاست ہو گا، عاجزی“۔
یہ ذکر ہے، میر ظفر اللہ خان جمالی کا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب 2002ء کے انتخابات کے بعد قرعہ فال ان کے نام نکلا اور وہ ایک ووٹ کی برتری سے پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد صحافی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اس بھاری بھرکم سیاست دان گرد اکھٹے ہوئے اور ان سے سوال کیا کہ جمالی صاحب، وزیراعظم کی حیثیت سے آپ کی پالیسی کیا ہوگی؟

دھیمے لہجے میں بات بات کرنے والے وزیراعظم نے نگاہ اٹھا کر سوال کرنے والے کی طرف دیکھا، مسکرائے اور کہا، عاجزی، ہم اپنی سیاست کی بنیاد عاجزی پر رکھیں گے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ انھوں نے اپنی زبان کا پاس رکھا۔

انھیں وزیراعظم بنے ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ بعض طاقت ور طبقوں میں ان سے ناخوشی کی کیفیات ظاہر ہونے لگیں اور انھیں پیغام ملنے لگے کہ اب انھیں اپنا منصب چھوڑ دینا چاہئے۔

جمالی صاحب جنرل پرویز مشرف کو اپنا باس کہا کرتے تھے، انھوں نے کہا کہ اگر باس ایسا چاہیں گے تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے گھر روانہ ہو جانے میں ذرا دیر نہیں کریں گے۔

اور پھر یہی ہوا، ایک صبح ان کے سیکرٹری ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ جنرل صاحب یاد فرماتے ہیں۔ طلبی کا مقصد واضح تھا، اس شریف آدمی کے ماتھے پر کوئی بل آیا اور نہ دل میں کچھ ملال ، وہ اٹھے اور نصف دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے سرد گرم اور خوشی غمی کی ساتھی یعنی اپنی اہلیہ سے بات کی۔

اس نیک دل خاتون نے وہی بات کہی جو ان کے اپنے دل میں تھی۔ بیگم صاحبہ نے کہا کہ لڑنا نہیں جمالی صاحب، یہ منصب اور ہمیں لڑائی کے ذریعے ملا نہ اسے چھوڑنے کے مطالبے پر ہم لڑائی کریں گے۔ جمالی صاحب نے اہلیہ کا مشورہ سنا اور کچھ دیر کے بعد اپنے باس کی طرف چل دیے۔

اب یہ راز بھی تاریخ کی امانت ہے کہ جب اقتدار کے ایوانوں سے انھیں نکال باہر کرنے کی خبریں عام ہوئیں تو حزب اختلاف کی دو طاقت ور شخصیات نے انھیں پیغام بھجوایا کہ ڈٹ جائیں جمالی صاحب، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ان راہ نماؤں میں ایک قاضی حسین احمد تھے اور دوسرے مخدوم امین فہیم۔ پارلیمانی اعداد و شمار سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ حزب اختلاف کی یہ دو قوتیں اکٹھی ہو کر ان کی پشت پر کھڑی ہو جاتیں تو پیچ ایسا پھنستا کہ انھیں نکالتا ناممکن نہ ہوتا تو مشکل تو ضرور ہو جاتا۔

کوئی اور ہوتا تو ممکن ہے، ایسی پر کشش پیش کش سے ضرور ریجھ جاتا لیکن یہ جمالی صاحب تھے جو کہا کرتے تھے کہ میں نے کسی انسان سے کبھی کچھ نہیں مانگا جب بھی مانگا، اپنے اللہ سے مانگا۔ برادر محترم عظیم چوہدری راوی ہیں کہ وہ ہمیشہ کہا کرتے کہ جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی، وہ اللہ کی بارگاہ میں جھک کر اسی سے مانگ لیا کرتے، ہر سال عمرہ کرنے اور بیت اللہ کے پردوں سے لپٹ کر التجائیں کرنے کی عادت بھی شاید اسی کے باعث پختہ ہوئی یوگی۔

جمالی بلوچ تھے اور دنیا جانتی ہے کہ بلوچ غیرت مند اور مضبوط انا والے رکھتے ہیں۔ جمالی صاحب کے مزاج کی تشکیل میں غیرت مندوں کے خطے بلوچستان کی سر زمین کے اثرات بھی یقیناً رہے ہوں گے لیکن دو باتیں ایسی ہیں جن میں شاید ہی کوئی ان کی برابری کرسکے۔

جمالی صاحب سیاست دانوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جن کے بزرگ تحریک پاکستان کے کارکن اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے با اعتماد ساتھیوں میں سے تھے، ان کی رخصتی کے بعد شاید ان بزرگوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچا جس نے بانیان پاکستان کی آنکھیں دیکھ رکھی ہوں۔

پاکستان کے اہل سیاست میں انھیں ایک اور چیز بھی ممتاز کرتی ہے جس وہ ہمیشہ فخر کیا کرتے، انھیں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے باڈی گارڈ رہنے کا فخر حاصل تھا۔ وہ زمانہ جب مادر ملت نے پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان کو چیلنج کیا اور اس کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑا، ان کی حفاظت کی ذمہ داری تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے بزرگوں کے اسی فرزند کے ہاتھ میں تھی۔

جمالی صاحب نے اپنے سیاسی کیرئیر کی ابتداء پیپلز پارٹی سے کی پھر وہ جنرل ضیاالحق سے ہوتے ہوئے جنرل مشرف تک پہنچے، اس کے بعد وہ سب سے بے نیاز ہو گئے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “مادر ملت فاطمہ جناح کا باڈی گارڈ”

  1. زبیدہ روف Avatar
    زبیدہ روف

    فاروق عادل صاحب بہت سارے لوگوں کے لئے یہ بات نئی ھو گی میر صاحب فاطمہ جناح صاحبہ کے باڈی گارڈ بھی رہے تھے۔۔ اگر آپ ان کے بارے میں کچھ مزید لکھتے تو زیادہ اچھا لگتا۔مضمون اچھا ھے لیکن تشنگی باقی ھے۔