پاکستان ماسک پہنے طالبات سکول جارہی ہیں

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( ساتویں اور آخری قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( پہلی قسط )

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( دوسری قسط )

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( تیسری قسط )

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( چوتھی قسط )

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( پانچویں قسط )

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( چھٹی قسط )

خنساء اور اس کے بہن بھائی بے چینی سے سکول جانے کے منتظر تھے کیونکہ سکول کھلنے کا سرکاری حکم نامہ آچکا تھا۔

” میں تو دن گن گن کر گزار رہا ہوں جب سے سکول کھلنے کی پکی (confirm) خوش خبری ملی ہے۔“ خالد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

” لاک ڈاؤن کا اتنا لمبا عرصہ ہمارے لیے کافی بورنگ رہا ہے کیونکہ یہ سب کچھ اتنے غیر معمولی طریقے سے ہوا ہے۔ لیکن سکول کھلنے کے بعد ایک دفعہ ہمیں کافی مسائل درپیش ہو ں گے۔“ ساجد نے کہا۔
” اگرچہ ہمارے والدین نے ہمیں مصروف رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اور ہمیں گھر بیٹھ کر ان کوششوں کا فائدہ بھی بہت ہوا ہے۔“ خنساء نے والدین کی محنتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا۔

” لیکن ہم دلی طور پر سکول سے بہت اداس ہو گئے تھے۔“ شمسہ نے بھی گفتگو میں شامل ہونے کہا۔
” بالکل۔“ سب نے اس کی تائید کی۔

15 ستمبر2020ء کو جب چھ ماہ بعد تعلیمی ادارے کھلے تو خنساء اور اس کے بہن بھائی بہت پرجوش تھے۔ انہوں نے اہتمام سے اپنے اسکول بیگ، یونیفارم، شوز وغیرہ سب کچھ پہلے سے تیار کر رکھے تھے۔

” میں نے تین فیس ماسک سکول بیگ میں رکھ لیے ہیں۔ ایک ماسک میں لگا کر سکول جاؤں گا۔ باقی ماسک احتیاطاً رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے ہاتھ دھونے کے لیے سینیٹائزر کی چھوٹی بوتل بھی رکھ لی ہے۔“ خالد بولا۔
” ہم سب نے بھی سکول جانے کی تیاری پوری کی ہوئی ہے۔“ شمسہ چہک کر بولی۔
” اپنی طرف سے ہم سکول جانے کے لیے پوری احتیاط کر رہے ہیں۔“ خالد بولا۔

” میں نے گزشتہ روز کانفرنس کال کرکے اپنی سہیلیوں سے پہلے روز سکول لازمی آنے کا وعدہ لے لیا ہے۔“ خنساء نے بتایا۔

خنساء پہلے روز خوشی خوشی سکول گئی۔ اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے آج عید کا دن ہو۔ چھوٹوں بڑوں سب نے فیس ماسک لگائے ہوئے تھے۔ ہاتھ سینیٹائزر کی خوشبو سے مہک رہے تھے۔ کئی بچوں کے ہاتھ میں لنچ باکس تھے۔ چہروں پر ماسک لگانے کی وجہ سے چند بچوں کی پہچان مشکل سے ہوئی تھی۔

” وین میں لدے پھندے چھوٹے بڑے بچے، ایک دوسرے کے اوپر گرتے پڑتے احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سکول جا رہے ہیں۔ معلوم نہیں سکول میں کیا صورت حال ہوگی؟“ خنساء نے وین میں اپنی سہیلی اور کلاس فیلو فاطمہ سے کہا۔
”حیرت انگیز طور پر آج وین کے تقریباً تمام بچے آئے ہوئے ہیں۔“ فاطمہ نے ایک اور بات کی طرف توجہ دلائی۔

” ہماری طرح انہیں بھی اسکول کھلنے کی بے حد خوشی ہورہی ہے۔ وہ بھی بے چارے گھر بیٹھ کر تھکے ہوئے اور بورنگ تھے۔ میں آج پہلی دفعہ وین کے سارے بچوں کو اتنا خوش دیکھ رہی ہوں۔“ خنساء نے ان کے پر مسرت چمکتے دمکتے چہرے دیکھ کر فاطمہ کے کان میں سرگوشی کی۔
” بالکل! “ اس نے خنساء کی بات کی تائید سر ہلا کر کی۔

وین سکول کے گیٹ پر پہنچی تو سب جلدی جلدی نیچے اترے لیکن گیٹ کیپر انکل نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں گیٹ کے اندر جانے سے منع کر دیا۔ اور سب طالبات کو قطار بنانے اور پھر قطار میں لگ کر گیٹ کے اندر داخل ہونے کے لیے کہا۔ گیٹ پر ہی قطار بندی طالبات کے لیے نئی بات تھی۔

” مین گیٹ پر ہم جو نئی چیز دیکھ رہے ہیں، اس کا نام کیا ہے؟“ ایک طالبہ نے سوال کیا۔

” داخلی دروازے پر یہ ایک جراثیم کش سپرے والا ’ واک تھرو گیٹ ‘ لگا ہوا ہے۔ سکول میں اندر جانے سے پہلے طالبات کو اس میں سے گزارا جائے گا۔“ خنساء نے اخبارات میں دیکھی گئی تصاویر سے اندازہ لگاتے ہوئے بتایا۔
” ویسے بھی میرے ابو جان نے ہمیں سکول میں ہونے والے متوقع حفاظتی اقدامات کے بارے میں بتایا تھا تو ’ واک تھرو گیٹ ‘ کا بھی تذکرہ کیا تھا۔“ خنساء نے مزید بتایا۔

بچوں کی حفاظت اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سکول انتظامیہ کافی سختی اور حفاظتی اقدامات کررہی تھی۔

” یہ دیکھیں۔ ادھر نوٹس لگا ہوا ہے کہ فیس ماسک کے بغیر سکول میں داخلہ ممنوع ہے۔“ شمسہ نے نوٹس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
” ہم سب نے تو ماسک لگائے ہوئے ہیں۔ ہمیں تو گیٹ کیپر انکل آرام سے اندر جانے دیں گے۔“ ایک بچی نے کہا۔

” ماسک لگائے گیٹ کیپر انکل پہلی نظر میں کچھ مختلف اور عجیب سے لگ رہے ہیں۔“ شمسہ نے سرگوشی کرتے ہوئے خنساء سے کہا۔

” ہم نے بھلا کب گیٹ کیپر انکل اور ملازمین کے بارے میں سوچا تھا کہ انہوں نے ماسک لگائے ہوں گے۔ ہمارے خیال کی پرواز یہاں تک تھی کہ پرنسپل اور ٹیچرز نے ماسک لگائے ہوں گے۔“ خنساء نے ہنستے ہوئے کہا۔

گیٹ سے اندر داخل ہونے کے بعد ماسک لگائے آپاجی (آیا) نے سینی ٹائزر سے سب کے ہاتھ دھلائے۔ چند قدم آگے ماسک لگائے ایک ٹیچر نے سب کا ٹمپریچر چیک کیا۔ دیگر ٹیچرز بھی جگہ جگہ نگرانی کے لیے قریب موجود تھیں۔

” حتیٰ کہ آج پہلے دن پرنسپل صاحبہ بھی موجود ہیں اور طالبات اور سارے سسٹم کی نگرانی کررہی ہیں۔“ شمسہ نے سرگوشی کی۔

طالبات ٹیچرز کو پرجوش سلام کررہی تھیں۔ ٹیچرز اور پرنسپل سلام کا جواب دیتے ہوئے نگرانی کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ ہدایات جاری کر رہی تھیں۔

” میرا جوش و خروش پرنسپل صاحبہ کی موجودگی، ان کی ہدایات اور اتنی سخت چیکنگ سے کچھ ماند پڑ گیا ہے۔“ خنساء نے کہا۔

” اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ میری تمام سہیلیاں آئی ہوئی ہیں۔“ خنساء نے سکول کے گیٹ سے اندر داخل ہونے والی اپنی ایک سہیلی کو دیکھ کر خوشی سے کہا۔
” اس کے علاوہ آج تقریباً تمام کلاس فیلوز بھی حاضر ہیں۔“ فاطمہ نے کہا۔

کلاس میں پہنچ کر ٹیچرز کی نظر بچا کر خنساء اور اس کی سہیلیاں ایک دوسرے سے گلے ملیں۔
چند ایک دیگر طالبات نے ایس او پیز کا نام لیتے ہوئے ان کے گلے ملنے اور مصافحہ کرنے پر ناک بھوں بھی چڑھائی۔ مگر اکثر طالبات کی خوشی دیدنی تھی۔

کلاس ٹیچر نے کلاس میں آتے ہی طالبات سے حال احوال پوچھنے کے بعد ہدایت نامہ میں سے ہدایات پڑھ کر سنائیں اور اچھی طرح سمجھا بھی دیں۔
” ان میں سے اکثر ایس او پیز پر سکول سٹاف عمل پیرا ہے اور پرنسپل صاحبہ طالبات سے بھی عمل درآمد کروانا رہی ہیں اور مستقل کروانا چاہتی ہیں۔“ ٹیچر نے سکول انتظامیہ اور پرنسپل کی کوششوں کو سراہا۔

” کلاسوں میں طالبات کو ایک سیٹ چھوڑ کر بٹھانے کا آرڈر دیا گیا ہے۔ لہذا طالبات سماجی فاصلے (social distancing) کا خیال رکھیں۔“ ٹیچر نے سماجی فاصلے کا تذکرہ کیا۔
” اب یہاں سکول میں سماجی فاصلہ کیسے اور کتنے فاصلے تک ممکن ہو سکے گا؟“ فاطمہ نے خنساء سے ہولے سے کہا۔

پھر انہیں دیگر احتیاطی تدابیر بتا دی گئیں۔
” آپ کو آپس میں کتاب، کاپی، پین، رجسٹر اور لنچ باکس وغیرہ کچھ بھی شئیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا گھر سے سب اشیاء لے کر آیا کریں اور اس بارے میں بہت محتاط رہیں۔ ویسے بھی آپ بڑی کلاس کی طالبات ہیں۔ امید ہے کہ شکایت کا موقع نہیں دیں گی۔“ ٹیچر نے آپس میں شیئرنگ کی بھی ممانعت کردی۔

کچھ دیر بعد چہرے پر ماسک لگائے بیٹھی طالبات تنگ آگئیں۔ جب کوئی طالبہ ماسک نیچے کرنے کی کوشش کرتی، ٹیچر کی عقابی نظریں اسے گھورتیں تو وہ گھبرا کر ماسک دوبارہ سیٹ کرلیتی۔

وہ ایک دوسرے سے دور بیٹھ کر گھٹن محسوس کررہی تھیں۔ پیریڈ ختم ہونے پر ٹیچر کلاس سے باہر گئیں تو بچیاں کچھ ریلیکس ہوگئیں۔

” ماسک لگائے ہوئے مجھے گھٹن محسوس ہو رہی ہے۔ کانوں میں درد ہو رہا ہے۔ میں تھک بھی گئی ہوں۔“ فاطمہ ماسک سے گویا تنگ آکر بولی۔
” ماسک کی وجہ سے مجھے بہت گرمی محسوس ہورہی ہے۔“ خنساء نے کہا۔
” میرا تو ماسک لگانے کا سارا چارم ختم ہوگیا ہے۔“ فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو ارد گرد کی لڑکیاں کھل کر قہقہے لگانے لگیں لیکن پھر انہوں نے خنساء کی گھورتی نظروں کو دیکھ کر فوراً ہی اپنے قہقہوں کا گلا گھونٹ دیا۔

” کیا آپ لوگوں کو یاد آ گیا ہے کہ ہم گھر میں نہیں، بلکہ کلاس میں موجود ہیں؟“ خنساء نے توجہ دلائی۔

” ٹیچر کسی بھی لحظہ کلاس میں آسکتی ہیں۔ بلکہ پرنسپل صاحبہ بھی آسکتی ہیں۔“ فاطمہ نے انہیں خاموش ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
” پھر میرے لیے یہ مسئلہ بھی بن گیاہے کہ اساتذہ کے ماسک پہننے کی وجہ سے ان کی باتیں اور لیکچر بھی پوری طرح سمجھ نہیں آرہے۔ ٹیچر کوئی بات کرتی ہیں اور میں کچھ اور سمجھتی ہوں۔“ خنساء نے ایک اہم بات کی طرف انہیں متوجہ کیا۔

” ماسک لگائے اساتذہ اور کلاس فیلوز سب لوگ مجھے اجنبی اجنبی لگ رہے ہیں۔“ فاطمہ نے کہا۔
” بالکل۔“ لڑکیوں نے اس کی تائید کی۔
” مجھے اپنی کلاس کا سابقہ ماحول بار بار یاد آرہا ہے۔ ہمیں ہماری پرانی شفیق اور مہربان ٹیچرز چاہیئں۔ چھٹیوں کے بعد ساری ٹیچرز مختلف اور سخت سی لگ رہی ہیں۔“ فاطمہ نے کھل کر کہہ دیا۔

اکثر طالبات کو ماسک میں گرمی لگ رہی تھی اور ماسک اتار کر پھینک دینے کے لیے ان کا دل چاہتا تھا۔

” سکول کھلنے کی خوشی میں ہم نے ان ایس او پیز پر عمل کرنے کا ارادہ تو کررکھا ہے مگر عملاً کافی مشکل ہورہی ہے۔ پھر بھی جس حد تک ممکن ہوا، ہم ضرور عمل کریں گے۔“ خنساء نے سمجھایا۔
” ان شاءاللہ۔“ چند طالبات نے کہا۔

ابتدا میں ٹیچرز کی نگرانی بڑی کڑی تھی۔
لہذا ہدایات کا خیال رکھنا ضروری تھا۔
لیکن جب ٹیچر جب کلاس سے باہر جاتیں، تو بعد میں طالبات چہروں سے ماسک نیچے کر دیتیں اور ایک دوسرے سے حسب موقع کچھ نہ کچھ بات چیت کرلیتیں۔

رفتہ رفتہ اساتذہ کی نگرانی میں کچھ نرمی آتی گئی۔ طالبات نے بھی نئے ماحول میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیا۔ سکول کی پڑھائی اور تعلیم میں ان کی دلچسپی بحال ہو گئی۔
” شکر ہے کہ اب سلیبس پہلے سے آدھا بلکہ منتخب کروایا جارہا ہے۔“ فاطمہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
” تمام بڑی کلاسز کو بورڈ یا یونیورسٹی کے امتحانات کے لیے منتخب (تقریباً نصف) سلیبس پڑھایا جا رہا ہے۔ ابھی تو ہمیں آسانی محسوس ہو رہی ہے لیکن اگلے سال میٹرک کے امتحانات کی تیاری میں ہمیں مشکل ہوگی۔“ خنساء نے فاطمہ سے کہا۔

” میرے لیے پڑھائی آسان ثابت ہو رہی ہے کیونکہ میں نے تعطیلات میں گھر میں سلیبس تقریباً مکمل کر لیا تھا۔“ خنساء نے بتایا۔
دن تیزی سے ریت کی مانند مٹھی سے پھسلتے جا رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” وطن عزیز میں ’ کورونا وائرس‘ کی بیماری دوبارہ پھیل رہی ہے۔ پہلے معاملہ کافی حد تک کنٹرول ہو گیا تھا لیکن اب پھر یہاں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ حکومت سکول دوبارہ بند کرنے پر غور کر رہی ہے۔“ ابو جان نے مزید بتایا۔

اگلے روز سکول میں ٹیچرز نے بھی یہ باتیں بتائیں۔
” پاکستانیوں کا دفاعی نظام (Immune system) بھی الحمداللہ مضبوط ہے۔ پاکستان میں گرم آب وہوا کا بھی بہت فرق ہے۔ لہذا ابھی تک مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ اور امریکہ کی نسبت پاکستان میں کم کورونا کیسز سننے اور دیکھنے میں آرہے ہیں لیکن ہمیں اب مزید احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ سکولوں میں دوبارہ چھٹیاں کر دی جائیں۔“ ٹیچر نے بتایا۔

بعد میں چند طالبات پریشان ہو کر ایک دوسرے سے نئی صورتحال ڈسکس کررہی تھیں۔ لیکن طالبات کا دوسرا گروپ چھٹیاں کے بارے میں سن کر خوش ہو رہا تھا۔

” مجھ سے ایس او پیز پر زیادہ عمل نہیں کیا جاتا۔ مجھے تو گھر کی بے فکر زندگی اچھی لگتی ہے۔“ ایک طالبہ نے اپنا حال بیان کیا۔
” واہ! کیا اب پھر چھٹیاں ہو جائیں گی؟“ ایک طالبہ نے خوشی سے کہا۔
” حیرت ہے۔ آپ کو چھٹیوں کی خوشی نہیں ہورہی۔“ ایک لڑکی نے خنساء وغیرہ سے تعجب سے پوچھا۔

” نہیں، بالکل نہیں۔ ہم تو فکر مند ہیں کہ کہیں اب دوبارہ سکول بند نہ ہو جائیں۔ کیونکہ چھٹیوں میں گھر میں اتنی باقاعدگی اور محنت سے پڑھائی نہیں ہوتی۔“ خنساء نے اپنا درد دل بیان کیا۔
” ویسے بھی سکول لائف اور سہیلیوں کے ساتھ کا اپنا مزا ہوتا ہے۔“ فاطمہ نے لقمہ دیا۔
” سکول کا مختلف ماحول اور سہیلیوں کا ساتھ بسااوقات ٹانک کا کام کرتا ہے۔“ خنساء نے تائید کرتے ہوئے کہا۔

اور پھر۔۔۔
24 نومبر کو تعلیمی ادارے دوبارہ بند کر دیے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ” کورونا کی نئی قسم دریافت ہوئی ہے جوایک دوسرے سے منتقل ہونے میں 70 گنا زیادہ تیز ثابت ہو رہی ہے۔“ چند دنوں بعد گھر میں ابو جان نے بتایا تو بچے پریشان ہو گئے۔
” اب کیا ہوگا؟“ خالد نے پریشانی سے پوچھا۔
” مغربی حکومتیں اس سلسلے میں فوری اقدامات کر رہی ہیں۔ نئی کورونا بیماری کی وجہ سے برطانیہ میں عوام الناس کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔“ ابو جان نے بتایا۔

” اس نئے ایڈوانس کورونا وائرس کا کہاں سے آغاز ہوا ہے؟“ عابد نے پوچھا۔
” برطانیہ سے۔ اس سلسلے میں برطانوی حکومت بہت زیادہ محتاط ہو کر حفاظتی اقدامات کر رہی ہے۔“ ابو جان نے جواب دیا۔

” برطانیہ میں بھی ایک دن میں ریکارڈ 50 ہزار سے زائد کیسز سامنے آ گئے جس کے بعد اسپتالوں میں جگہ تقریبا ختم ہو گئی۔
اور قبرستانوں میں بھی جگہ باقی نہ رہی۔“ ابو جان نے پریشانی سے بتایا۔
” پھر اب۔۔۔؟ “ خنساء نے تاسف سے کہا۔
” برطانوی حکومت نے پابندیاں مزید سخت کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔
اساتذہ یونینز نے اگلے ہفتے اسکول کھولنے کے بجائے آن لائن کلاسز کروانے کا مطالبہ کردیا ہے۔“ ابو جان نے افسردگی سے بتایا۔

برطانیہ کا نیا کورونا وائرس امریکا بھی پہنچ گیا اور ایک مریض میں نئی قسم کے کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔“ ابو جان نے مزید بتایا۔
” کیااب یہ دیگر ممالک میں بھی پہنچ جائے گا؟“ شمسہ نے پوچھا۔
” اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس بیماری سے محفوظ رکھے۔“ ابو جان نے کہا۔
” آمین۔“ سب نے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تدبیر بہت محکم ہے۔ وہ جو چاہے، کر گزرتا ہے۔ وہ جس کام کے لیے ” کن “ فرما دے، وہ کام ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات ظاہری اسباب سے کام اور مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ کئی دفعہ اللہ تعالیٰ مافوق الفطرت اسباب سے اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے۔“ ابو جان نے افسردہ بیٹھے بچوں کو سمجھایا۔

” ابو جان! کورونا بیماری کا سلسلہ آخر کب اور کیسے ختم ہوگا؟“ خنساء نے دل ودماغ میں گردش کرتا سوال پوچھ ڈالا۔
یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں لیکن میں آپ کو ایک پیاری سی حدیث سناتا ہوں۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
ترجمہ: ” مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے! اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے، تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہے۔ اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے۔“ (صحیح مسلم)
ابو جان نے پوری حدیث بیان کی۔

” اس کورونا بیماری میں خیر کا کیا معاملہ ہو سکتا ہے؟ “ خالد نے پوچھا

” دراصل ہر آزمائش اور بیماری کے پیچھے اللہ تعالی ٰکی کوئی مصلحت اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہےاور صرف ایک سچا و پکا مومن ہی اس مصلحت کو پہچان سکتا ہے۔ جبکہ کمزور ایمان والا انسان مشکل حالات اور آزمائشوں میں صبر کرنے کے بجائے ناشکری اور شکوہ شکایات کا مظاہرہ کرتا ہے۔

جب انسان کٹھن حالات اور بیماری میں صبر اور شکر دونوں طرح کا رویہ اختیار کرتا ہے تو بالآخر اللہ سبحانہ و تعالٰی اسے اپنے فضل و کرم سے ان مشکلات سے نکال دیتا ہے۔

یہ بیماری اپنے ساتھ انسانیت کے لیے بہت سے سبق بھی لے کر آئی ہے مثلاً سادہ اور آسان زندگی، محنت ومشقت کی عادت، صفائی اور نظافت کا خیال، حلال و حرام کی پابندیوں میں انسانیت کی خیر و بھلائی، اہل خانہ کے ساتھ بھرپور وقت گزارنا اور ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ کرنا، مضبوط قوت مدافعت اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا خیال وغیرہ۔
یقیناً اللہ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے!“ ابو جان نے کرونا کی آمد سے دنیا میں ہونے والی چند عالم گیر تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید دلائی تو بچے مطمئن ہوگئے۔

” کبھی کبھارایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ کیا یہ معاملہ ہمارے ساتھ ہی پیش آنا تھا؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا! مگر وقت گزرنے اور نتیجہ سامنے آنے پر انسان سمجھ جاتا ہے کہ
” محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب!“
امی جان نے ایک بہت اہم بات کی طرف اشارہ کیا۔

” بالکل! رب رحمان و رحیم اپنے بندوں سے غلط کر بھی نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ماؤں سے بھی ہزار گنا زیادہ محبت کرنے والی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائشوں کی بھٹی سے گزار کر کندن بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے کامیاب بندوں کو ڈگری دیتا ہے، اس مشقت یا عبادت کی مزدوری عطا کرتا ہے۔“ ابو جان نے امی جان کی بات کو بڑھایا۔

” یعنی اس عالمی وبا میں کورونا جیسے ننھے جرثومے نے انسانوں کو ان کی اوقات یاد دلا دی ہے۔ اور ان کو بہتر زندگی وصحت کی طرف لوٹانے کی کوشش کی ہے۔ تب بے ساختہ دل ودماغ میں خیال ابھرتا ہے کہ
” یارب! آپ کی تدبیر کتنی محکم ہے!“
خنساء نے اس ساری گفتگو کا حاصل بیان کیا۔
” بالکل درست!“ ابو جان نے خنساء کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی۔

” اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ عالمی کورونا وبا کی مشکلات کے یہ شب و روز جلد اس کی حفظ و امان میں گزر جائیں۔ اور سب لوگ پھر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے احسن طریقے سے فیض یاب ہوسکیں۔“ ابو جان نے دعا کی۔
” آمین یارب العالمین!“ سب کی آواز ان کے دلوں کی پکار تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

5 پر “محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب ! ( ساتویں اور آخری قسط )” جوابات

  1. ابو سعد Avatar
    ابو سعد

    ماشاء اللہ بہت خوب تحریر لکھی ہے. بہتر اچھا اختتام کیا ہے. واقعی اللہ تعالیٰ کی تدبیر محکم ہے.

  2. احمد حسن Avatar
    احمد حسن

    ماشاء اللہ. پڑھ کر بہت مزہ آیا. خوب لکھا ہے.

    1. Abid Avatar
      Abid

      ماشاء اللہ. بہت اعلیٰ.
      ایسی نیک خواتین ہمارے لیے مشعل راہ ہیں. اللہ تعالیٰ بیگم مولانا یوسف صاحبہ کی مغفرت فرمائے. آمین ثم آمین.

  3. الیاس Avatar
    الیاس

    ماشاء اللہ بہت اچھی تحریر ہے

  4. زکریا شمسی Avatar
    زکریا شمسی

    ماشاءاللہ۔ بہت اچھا اختتام ہو ا ہے۔