جنگل اور درختوں کا کٹائو

درخت ، ماحول اور انسان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

درخت اور انسان کا تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ انسانی تاریخ۔ درخت کے لفظی معنی
د سے دوا،
ر سے رحمت،
خ سے خوراک اور
ت سے توانائی
کے ہیں۔

یعنی ہمیں درختوں سے علاج معالجہ کے لیے ادویات، رحمتیں و برکتیں، کھانے کے لیے خوراک و غذا اور جسمانی و ذہنی توانائیاں اور قوتیں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری زندگی اور بقا کے لیے نہایت اہم اور مفید ہیں۔

شجر کاری کے معنی ہیں ” درختوں کے لیے کام کرنا “ یعنی انہیں اگانا، ان کی دیکھ بھال کرنا اور انہیں انسانوں اور دیگر جانداروں کے لیے فائدہ مند بنانے کے غرض سے مختلف اقدامات کرنا۔

زندگی کی ابتدا میں انسان نے سب سے پہلا قدم جب روئے زمین پر رکھا تو درختوں نے لہلہا کر، نباتات نے جھوم کر اور برگ و گل نے مسکرا کر اس کا پرجوش استقبال کیا تھا۔

اس سے قبل جنت میں بھی انسان کو درختوں اور ان کے پھلوں سے استفادے کا موقع ملا تھا اور ایک ممنوعہ درخت کا پھل کھانے کی بدولت ہی وہ جنت بدر کرکے زمین پر بھیج دیا گیا تھا۔

دنیا میں یہی درخت اس کی غذا کا سامان بنے اور برگ و گل اس کے درد کا درماں بنے۔ قدرت فیاض نے روئے زمین کے چپے چپے پر نباتات پیدا کرکے انسان کی غذا اور دوا کا اہتمام کر دیا۔ اللہ تعالی نے درختوں کو اس کے ذرائع و وسائل میں ایک اہم درجہ دے دیا اور بے شمار مزید فوائد انسان کے لیے درخت و شجر میں رکھ دیے۔

جب خالق کائنات نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا تو ساتھ ہی اس کے لیے تمام سامان زیست بھی مہیا کر دیا جیسا کہ کلام الٰہی میں ارشاد ربانی تعالیٰ ہےکہ:
ترجمہ: ” اور ہم نے اس دنیا میں تمہارے لئے گزران اور معیشت کا پورا بندوبست کردیا ہے۔“ (سورۃ الاعراف:10 )
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے ایک ضروری انتباہ بھی کردیا کہ
ترجمہ: ”( ہم نے تمہارے لیے یہاں ہر چیز ایک توازن اور اعتدال کے ساتھ پیدا کی ہے)، تم اس میزان میں بگاڑ مت پیدا کرنا۔“ (سورۃ الرحمٰن:8)

قرآن پاک میں دیگر کئی مقامات پر بھی جابجا اللہ تعالی نے درختوں کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو مزید واضح کیا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
ترجمہ: ” اور ہم نے نے ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اُگائیں۔“ (سورۃ الحجر 15: 19)

قرآن کریم میں مختلف حوالوں سے شجر ( درخت ) اور نباتات کا تذکرہ بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر نباتات و اشجار کو اپنی رحمت قرار دیتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ :
” وہی تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے، جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اُگے ہوئے درختوں سے تم اپنے جانوروں کو چراتے بھی ہو۔ اسی سے وہ تمھارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اُگاتا ہے۔ بے شک ان لوگوں کے لیے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔“ ( سورۃ النحل 16 : 10, 11)

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نسل اور کھیتی باڑی کو تباہ و برباد کرنے والے فسادی قسم کے لوگوں کی سخت مذمت اور تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ :
ترجمہ: ” جب وہ لوٹ کرجاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اورکھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالی فساد کو ناپسند کرتا ہے۔“ (سورۃ البقرہ 2 : 205)

جب راستے میں کوئی بھی سایہ نہ پائے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا

احادیث مبارکہ میں بھی درختوں کی کاشت اور دیکھ بھال کے حوالے سے واضح اور مفصل احکامات بیان کیے گئے ہیں۔

زراعت ایک افضل پیشہ ہے جو اختیار کرنا پسندیدہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرمﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ :
ترجمہ: ” کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی جانور کھالے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔“
(جامع ترمذي :1382)

اور صحیح مسلم کی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ
ترجمہ: ” اس میں سے کچھ چوری ہو جائے تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ شمار ہوتا ہے۔“

حلال رزق کا مطلب کسان سے پوچھو
پسینہ بن کے بدن سے لہو نکلتا ہے

شجر کاری کی اہمیت کا مزید اندازہ مندرجہ بالا حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
” اگر قیامت قائم ہورہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں قلم ہو اور وہ اس بات پر قادر ہوکہ قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے لگا لے گا تو وی ضرور لگائے ۔“ (مسند احمد: 12902 )

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک جرنیل کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
” پھل دار درختوں کوکبھی مت کاٹنا۔“
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اپنے گورنروں کو حکم دیا تھا کہ
” مفتوحہ علاقوں میں زراعت کے ساتھ ساتھ شجرکاری کی جائے۔“

مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں ہمیشہ اپنے علاقوں میں درختوں کے وجود، نباتات کی کاشت کاری اوران کی بقا پر خصوصی توجہ دی ہے۔

درختوں کے بے شمار فوائد ہیں۔
اگر یہ کسی بنجر اور بے آباد جگہ پر ہیں تو بارش برسانے کا سبب بنتے ہیں!!!
اگر سیم و تھور کی شکار کسی زمین پر ہیں تو زمین کو قابل کاشت بناتے ہیں!!!
اگر کسی پہاڑ کی چوٹی پر ہیں تو برف کو آہستہ آہستہ پگھلا کر زمین کو سیلاب اور آفتوں سے بچاتے ہیں اور لینڈ سلائیڈنگ سے بھی محفوظ رکھتے ہیں!!!
اگر کسی سڑک یا راستے پر ہیں توچھاؤں فراہم کرکے آنے جانے والوں کےلیے راحت کا سامان بنتے ہیں!!!
اور اگر کسی بھوکے انسان یا جانور کے سامنے ہیں تو اس کی بھوک مٹاتے ہیں!!!
اور اگر کسی بیماری کا علاج درکار ہے تو بہت سی ادویات میں استعمال ہوتے ہیں!!!

کیا یہ سب چیزیں زندگی کے لیے ضروری نہیں ہیں؟؟؟
کیا یہ زندگی میں بھرپور فوائد مہیا نہیں کرتے؟؟؟
کیا ان کے بغیر زندگی کی کوئی صورت ممکن ہو سکتی ہے؟؟؟

جو مخالف تھے ، اُنہیں بھی فیض پہنچاتا رہا
اُس شجر نے کاٹنے والوں پہ سایہ کر دیا

جب مسلمانوں نے سپین کو فتح کیا تھا تو مسلمان حکمران عبدالرحمن اول نے سپین کو ایک نرالا تحفہ دیا تھا۔ وہ تحفہ ایک کھجور کا درخت تھا۔ اس نے اسے ” آنکھوں کا نور“ اور ” دل کا سرور“ قرار دیا تھا۔

ہندوستان میں مغل بادشاہ بھی درختوں سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ انہی مغل بادشاہوں کی یادگاریں لکشمی باغ، لکھی باغ اور شالامار باغ وغیرہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔

سب سے زیادہ درخت ڈنمارک، سویڈن، پرتگال اور کیلی فورنیا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ وہاں کے لوگ درخت نہیں کاٹتے کیونکہ وہ ان کی افادیت سے آگاہ ہیں۔

پرتگال کے ایک باغ کے باہر درج ہے کہ
” اس راہ سے گزرنے والے انسان ! اس سے پہلے کہ تو مجھے کاٹنے کے لئے ہاتھ بڑھائے ، میری بات سنتا جا! میں موسم سرما کی راتوں میں تیرے چولہے کا ایندھن بن کر تیرے گھر کو گرم رکھتا ہوں ، موسم گرما میں تیرے لیے سایہ فراہم کرتا ہوں ، ہوا کو آلودگی سے بچاتا ہوں ، تیرے بچے کا پنگھوڑا اور موت کے بعد تیری قبر کا سامان بھی میں ہی ہوں۔“

کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

آج اگر ہم اپنے گردوپیش کے ماحول پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں بہت سے عناصر ایسے نظر آتے ہیں جو ہمارے ماحول کو بری طرح سے آلودگی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں مگر کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو ہمارے ماحول کو آلودگی سے بچا سکتی ہیں۔ ان میں درخت کا نام سرفہرست ہے۔

آج دنیا کو ایک بہت بڑا جو مسئلہ درپیش ہے، وہ ہے عالمی حدت ( Global warming ) ۔ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کو روکا نہ گیا تو یہ رفتہ رفتہ پوری دنیا کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتی ہے۔ اس خطرناک اور سنگین مسئلے کا حل صرف ایک ہے اور وہ ہے درخت ۔ درختوں سے گلوبل وارمنگ کے عالمی مسئلے کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں موٹریں، بسیں، ٹرک، ریل گاڑیاں، ہوائی جہاز، فیکٹریاں، ایٹمی ہتھیار اور فضلہ اور دوسری چیزیں اپنا دھواں پھیلا کر فضا کو آلودہ بنا رہی ہیں، تو یہ درخت ہی ہیں جو فضاء کو آلودگی سے بچا سکتے ہیں۔
یہ درخت اوزون (ozon) کی تہہ کو نقصان پہنچنے سے بچا سکتے ہیں.
اس کے علاوہ درخت بارش برسانے کا موجب بنتے ہیں.
اپنے پتوں سے پانی اور نمکیات جذب کرکے ہوا میں نمی پھیلاتے ہیں۔

کرہ ارض کے گرد موجود اوزون کی قدرتی تہہ اہل زمین کو سورج کے خطرناک بالابنفشی شعاعوں ( Ultra Violet Rays ) سے بچاتی ہے۔ اس تہہ کے ختم ہو جانے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے. جس سے قطبین (Poles ) کی برف پگھل کر کئی براعظموں کو زیر آب کر دے گی اور جنگلات وغیرہ تباہ ہوجائیں گے۔

اس قدرتی تہہ اوزون کی سب سے بڑی دشمن فضائی و ایٹمی آلودگی ہے جس کے خاتمے کے لیے روئے زمین پر درختوں کی کثیر مقدار کا ہونا بے حد ضروری ہے۔

اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے آلودگی کے خلاف جہاد کیا جانا چاہیے اور کرہ ارض پر ہر قسم کی زندگی کے تحفظ کے لئے ممکنہ اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف ممالک میں ماحولیاتی کانفرنسیں وغیرہ منعقد ہو رہی ہیں، جن میں یہ طے کیا جا رہا ہے کہ انسانی زندگی کی بقا کے لئے جنگلات اور درختوں میں اضافہ بےحد ضروری ہے۔ یہ شجرکاری ماحول کو صاف اور خوشگوار رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے

شجرکاری پاکستان کے حوالے سے
کسی بھی ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لئے اس کے پچیس فیصد (25) رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے مگر پاکستان میں یہ رقبہ صرف 4.5 فیصد ہے۔ پاکستان کا کل رقبہ 19 کروڑ 70 لاکھ مربع ایکڑ ہے۔ اس میں سے صرف 72 لاکھ ایکڑ رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔ پاکستان میں دو دفعہ ہفتہ شجرکاری منایا جاتا ہے جس میں نہروں، سڑکوں کے کنارے اور دیگر جگہوں پر درخت لگائے جاتے ہیں۔ مصنوعی جنگل چھانگا مانگا کی آباد کاری پاکستان کی شجرکاری کے لحاظ سے ایک قابل قدر کوشش ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک سائنسدان نے 100 فٹ اونچے ایک درخت پر مختلف تجربات کیے تھے۔ درخت پر تقریباً دو لاکھ پتے تھے اور یہ پتے فضا میں جو ٹھنڈک پیدا کر رہے تھے، اس کا اندازہ ایک لاکھ ٹن ایئرکنڈیشنرز کے برابر تھا۔ اور جو کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر رہے تھے، اور ماحول کی صفائی کے ساتھ خوراک بنا رہے تھے، وہ اس کےعلاوہ تھی۔ اس ایک درخت سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چھوٹے بڑے درخت مل کر نظام کائنات میں کس قدر اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ماحولیات اور نباتات کے ماہر ڈاکٹر ایس کا کہنا ہے کہ
” ایک اوسط سائز کا درخت دوخاندانوں سے خارج شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جذب کرکے ہوا میں کافی آکسیجن پیدا کردیتا ہے۔“

” ناسا “ کی تحقیق کے مطابق چھوٹے پودوں کے گلدستے گھروں میں رکھنے سے گھروں کی اندرونی فضا صاف ہوتی رہتی ہے۔

پورے پاکستان کی فضاؤں کو صاف اور خوشگوار رکھنے کے لیے ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ بقائے بشر کا بقائے شجر سے گہرا تعلق ہے۔ اس لیے ہمیں اس اصول کی روشنی میں حتی المقدور شجرکاری کرنی چاہیے۔ اس مہم میں ہر فرد خواہ مرد ہو یا عورت، طالبعلم شہری ہو یا دیہاتی، کسان ہو یا صنعت کار، سب کو بھرپور حصہ لینا چاہیے۔ اللہ تعالی نے اس ملک کو بیش قیمت اور بے ملک کو بیش قیمت اور بے بہا خزانے سے نوازا ہے۔ یہاں کی زمین سونا اگلتی ہے۔ بس سوچ، لگن، ہمت اور جذبے کی ضرورت ہے.

میں اک شجر کی طرح رہگزر میں ٹھہرا ہوں
تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا

کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ
” قدرت کی تمام خوبصورتیاں درختوں اور پودوں (یعنی سبزے) کی بدولت ہیں!!! “


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “درخت ، ماحول اور انسان” جوابات

  1. Abdurahman Avatar
    Abdurahman

    Good

    1. عندلیب علی Avatar
      عندلیب علی

      بہترین معلومات۔۔۔کاش یہ ارباب اقتدار کو بھی معلوم ہوتا۔ جہالت نے وطن عزیز کو بنجر کردیا۔

  2. احمد Avatar
    احمد

    ماشاء اللہ بہت خوب تحریر لکھی ہے

  3. احمد Avatar
    احمد

    بہت دلچسپ انداز بیان میں معلوماتی مضمون ہے. قرآن وسنت، سائنسی معلومات اور شاعری وغیرہ سبھی کچھ نے تحریر کو بہترین صورت میں نکھار دیا ہے.