حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

شان عمر فاروق رضی اللہ عنہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

یکم محرم الحرام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے جو اسلام کے دوسرے خلیفہ راشد، دعائے رسول کا نتیجہ، عالم و زاہدصحابی، کاتب وحی، عشرہ مبشرہ کی بشارت اور شہادت کی خوشخبری کے حامل، نبی اکرم ﷺ کے سسر، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے داماد ، 22 لاکھ مربع میل سے زیادہ علاقے کے حکمران، فاتح بیت المقدس اور بے مثال عادل و منصف حکمران تھے۔

آپ رضی اللہ عنہ کا مکمل نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص تھی۔ آپ عدوی قرشی تھے۔ اور آپ کی پیدائش 586ء
تا 590ء کے درمیان مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ اور آپ نے 6 نومبر 644ء بمطابق یکم محرم الحرام 24ھ کو مدینہ منورہ میں شہادت پائی۔ آپ کا بے مثال دورِ خلافت تقریباًساڑھے دس برس پر محیط تھا۔
رضی اللہ عنہ۔

آپ جیسی نابغہ روزگار اور فقید المثال شخصیت محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً صدیوں بعد جنم لیتی ہیں۔ اور پھر زمانہ تا ابد ان کی عظمت و رفعت کے تذکرے کرتا اور ان کے کارناموں کو یاد رکھتا ہے۔ آپ اسلام کی وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں جن کے قبول اسلام کے لیے خود خاتم النبیین ﷺ نے اللہ سے دعائیں مانگی تھیں۔
(اللهم اعز الاسلام باحب هذين الرجلين اليک بابی جهل او بعمر ابن الخطاب۔)
(جامع ترمذی: 3681)
ترجمہ:”اے اللہ! آپ ابوجہل یا عمر بن خطاب
دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ آدمی کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما دیں۔”
؎ جنہیں ابراہیم نے مانگا، انہیں محمد کہتے ہیں
جنہوں نے محمد مانگا، انہیں عمر بن خطاب کہتے ہیں

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کی یہ دعا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں قبول فرمائی اور انہیں قبول اسلام کی توفیق عطا فرما دی۔ آپ 6 نبوی میں پینتیس برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں قبول اسلام کے شرف سے فیض یاب ہو چکے تھے۔

ان کو گزرے ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں مگر ان کے کارناموں کی دھوم اور گونج آج بھی زمانے میں باقی ہے۔ غیر مسلم بھی ان کے نام و کام سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ دنیا کے قوانین میں ان کے بنائے گئے قوانین کو بنیادی اہمیت و حیثیت حاصل ہے، خواہ غیر مسلم اس کو تسلیم کریں یا نہ کریں۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا:
"اے محمد ﷺ! اہل اسلام نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے، تو آسمان پر ملائکہ نے بھی خوشی منائی ہے۔” (سنن ابن ماجه: 103)

جب آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اس وقت مکہ کے گنے چنے سترہ پڑھے لکھے لوگوں میں آپ بھی شامل تھے۔ بعد میں آپ کو کتابتِ وحی کا شرف بھی حاصل ہوتا رہا۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(لوکان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب.) (جامع ترمذی:3686)
ترجمہ: "اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔”

حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "تم پر ایک شخص داخل ہوگا جو جنتی ہے۔”
چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے. پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
"تمہارے پاس ایک اور جنتی شخص آنے والا ہے.”
پس اس مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ (جامع ترمذی :3694)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نبی مکرم ﷺ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے ہمراہ کوہ احد پر تشریف لے گئے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ حرکت کرنے لگا۔ آپ ﷺ نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا:
(اثبت احد، فما عليک الا نبی او صديق او شهيدان۔) (صحيح بخاری: 3483)
ترجمہ: "اے احد! ٹھہر جا۔ تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔”

آپ کا شمار علماء و زاہدین قسم کے صحابہ میں ہوتا تھا۔ آپ سے کئی احادیث مروی ہیں۔ آپ نبی نہیں تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان پر وہ حقائق جاری کردیے جو وحی کا حصہ بن گئے۔ مثلاً اذان دینے کا طریقہ، خواتین کے لیے پردہ و حجاب کا حکم اور شراب کی حرمت وغیرہ۔

اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہے۔”(صحیح بخاری:3689)

اسی مفہوم کی ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ
ترجمہ: "تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ وہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر ہیں۔”(صحیح بخاری:3689)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند روز پہلے بیماری کے دوران چند صاحب فہم و فراست اور صائب رائے رکھنے والے مسلمانوں کے مشورے سے حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کو اپنے بعد کا خلیفہ نامزد کر دیا۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 23 اگست 634ء مطابق 22 جمادی الثانی 13ھ کو خلافت کی بھاری ذمہ داری سنبھالی اور اس کو اپنی شہادت تک اتنے احسن طریقے سے نبھایا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

آپ نے اپنے لیے "امیرالمومنین”کا لقب اختیارکیا۔ آپ کا دور خلافت ایسا عظیم الشان، فقید المثال اور سنہرا دور ہے جس کی آج تک کوئی نظیر پیش نہیں کر سکا۔

آپ کے دور میں اسلامی سلطنت کی حدود 22 لاکھ مربع میل سے زیادہ علاقے تک پھیل گئیں۔ اس دور کی قیصر و کسریٰ جیسی سپر پاورز اسلام کے زیر نگیں آگئیں اور زمین میں انسانوں کی غلامی کے بجائے اللہ کی غلامی اور اللہ کا بنایا گیا نظام حکومت قائم ہوا۔

اگر آج امت مسلمہ کے تقریباً 60 ممالک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا ایک بھی حکمران ہوتا تو امت کا حال فرق ہوتا۔ امت مظلومیت اور بے بسی کے اس حال کو نہ پہنچتی۔ شام و فلسطین، کشمیر، برما، آسام اور دیگر اسلامی ممالک لہو لہان نہ ہوتے۔ امت قرآن و سنت کو تھام کر، اس پر عمل پیرا ہو کر عروج کے بام فلک کو چھو رہی ہوتی۔

لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قوانین کو اپنانے کا راستہ تو آج بھی کھلا ہے!!!
"رجوع الی اللہ” اور "رجوع الی الجہاد” میں امت مسلمہ کی بقا اور نشاۃ ثانیہ کا راز پوشیدہ ہے!!!
امت مسلمہ کو آج پھر عمر فاروق ثانی کی اشد ضرورت ہے!!!
رضی اللہ عنہ۔

آپ ایسے عادل و منصف حکمران کی حیثیت سے معروف ہیں جن کی عدالت میں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو یکساں انصاف حاصل ہوتا تھا۔ آپ کا عدل و انصاف تاریخ میں بین الاقوامی طور پر مشہور ہے۔

حضرت عمر فاروق کا اس قول سے ان کے نظام عدل وانصاف پر روشنی پڑتی ہے کہ
"اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ ) سے اس کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔”

فاروق کا معنی ہے "حق اور باطل میں فرق کرنے والا، صحیح اور غلط میں تمیز کرنے والا۔” آپ نبی کریم ﷺ کے عطا کردہ اس لقب کے مصداق تھے۔

حضرت عمر کے فضائل و مناقب اور ان کے کارنامے اور ان کی اولیات اتنی زیادہ ہیں کہ قلم ان کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔

اولیات عمر
امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جن اچھے اور نیک کاموں کا آغاز کیا، ان کو اولیات عمر اور اولیات فاروقی رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے۔ بعض محققین نے ان کی تعداد 70 کے لگ بھگ بیان کی ہے۔ یہ قوانین بعد والے حکمرانوں کے لیے عملی لحاظ سے نہایت سود مند ثابت ہوئے ہیں۔ بلکہ یہ قانون سازی میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ حتی کہ غیر مسلم بھی ان کی افادیت کے معترف ہیں۔
تاریخ میں دنیا کے کئی ممالک میں ان کو رائج کیا گیا۔ عصر حاضر میں بھی یہ کئی ممالک حتیٰ کہ مغربی ریاستوں میں بھی یہ لاگو ہیں۔

اولیات عمر مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے واقعہ ہجرت کو بنیاد بنا کر ہجری تقویم (کیلنڈر) کا آغاز کیا اور تاریخ اور سن ہجری کا اجرا کیا۔
2۔ عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کردیا۔
3۔ بیت المال کا باقاعدہ نظام قائم کیا۔
4۔ فوج کامحکمہ قائم کیا اور رضاکار مجاہدین اور غازیان اسلام کی تنخواہیں مقرر کیں۔
5۔ مُستعمرات یعنی نئے شہروں کی آبادکاری پر توجہ دی۔ کوفہ، بصرہ، جیزہ، موصل، فسطاس وغیرہ کئی نئے شہر آباد کئے۔

6۔ عرب خطے میں تاریخ میں پہلی بار مردم شماری (Census) کروائی۔
7۔ مجرموں کو بطور سزا قید کرنے کے لیے جیل خانے بنائے۔
8۔ فوجی گھوڑوں کوچوری سے محفوظ رکھنےاور ان کاحساب کتاب رکھنے کے لیے ان پر نشان "جیش فی سبیل اللہ” داغے گئے۔
9۔ شہروں میں امن و امان کے لیے پولیس کا محکمہ قائم کیا جو فوج کے باقاعدہ محکمہ سے بالکل الگ تھا۔
10۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مسافروں کے لیے سرائیں قائم کیں۔

11۔ نئی نہریں کھدوائیں اورآب پاشی کے نظام کا بندوبست کیا۔
12۔ ڈاک کا نظام قائم کیا اور مختلف مقامات پر ڈاک چوکیاں بنائیں۔
13۔ لاوارث اور بےسہارا بچوں کے لیے وظیفے مقرر کیے۔
14۔ چاندی کے سکے جاری کیے۔
15۔ رات کو رعایا کا حال معلوم کرنے کے لیے گشت کا طریقہ ایجاد کیا۔

16۔ عشور یعنی مال تجارت پر 1/10 محصول (ٹیکس) مقرر کیا۔
17.باجماعت نماز تراویح کو مختلف ٹولیوں کی بجائے، ایک امام پر جمع کیا۔
18۔ علماء کے اجماع سے شراب نوشی پر 80 کوڑوں کی حد مقرر کی۔
19۔ مساجد میں وعظ ونصیحت کا سلسلہ
شروع کیا۔
20۔ دریا کی پیداوار پر محصول لگایا اور محصول مقرر کئے۔

21۔ مساجد کے آئمہ کرام اور مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
22۔ قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم کے لیے دینی مکاتب و مدارس (Schools and institutions) قائم کیے ۔

اور ان مکاتب و مدارس میں تنخواہ دار معلمین و مدرسین (teachers) مقرر کیے۔
24۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔
25۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی۔

26۔ وقف کا طریقہ ایجاد کیا۔
27۔ عدالتوں کے قاضی مقرر کئے۔
28۔ جابجا فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔
29۔ مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔
30۔ حربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔

اس کے علاوہ بھی آپ نے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے بہت سے فلاحی و اصلاحی احکامات اور اصطلاحات جاری کیں جن سے لوگ ایک زمانے تک مستفید ہوتے رہے اور آپ کے حق میں دست دعا کے لیے ہاتھ دراز کرتے رہے۔

بلاشبہ آپ کی حیات طیبہ اسلامی تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔

آپ تمام خلفائے راشدین میں سب سے زیادہ شعر و ادب کے گرویدہ تھے بلکہ اشعار کی اصلاح بھی کیا کرتے تھے۔ وہ موقع کی مناسبت سے خود بھی شعر کہتے تھے۔آپ کو عربی زبان و ادب پر بھی بڑا عبور حاصل تھا۔

طاعون جیسی متعدی اور خطرناک وباء میں آپ کا کردار بھی منفرد اور بہترین رہا تھا۔ آج کرونا وائرس کی متعدی وباء میں یہ مشعل راہ ہے۔

حضرت عمر فاروق اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں یہ دعا کرتے تھے۔
ترجمہ:”یارب! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول کے شہر میں مجھے موت عطا فرما۔” ( صحیح بخاری)

26 ذوالحجہ 23ھ کو آپ رضی اللہ عنہ پر نماز کی امامت کے دوران ایک کافر مجوسی غلام ابولؤلو فیروز نے خنجر کے وار کرکے قاتلانہ حملہ کیا۔جس سے آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہوگئے اور چار دن تک حیات و ممات کی کشمکش میں مبتلا رہے۔

آپ نے یکم محرم الحرام 24ھ کو اپنے بیٹے سے کہا کہ "میری پیشانی زمین سے لگادو۔” اس طرح سجدے کی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔

آپ کی تاریخ شہادت کے بارے میں بعض لوگوں نے اختلاف بھی کیا ہے۔ تاہم اکثریت نے یکم محرم الحرام کی رائے کو اختیار کیا ہے۔

آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی گئی ہے کہ
"جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو (شہادت کے بعد) ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو تمام لوگوں نے نعش مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لیے (اللہ سے) دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے، نعش ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، (ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ) میں بھی وہیں موجود تھا۔
اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا رحمت کی اور (ان کی نعش کو مخاطب کر کے) کہا کہ :

"آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جا ملوں اور اللہ کی قسم ! مجھے تو (پہلے سے) یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔
میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ :
"میں (یعنی جناب محمد ﷺ)، ابوبکر اور عمر گئے۔”
"میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے … میں، ابوبکر اور عمر باہر آئے۔”
(صحیح بخاری: 3685)

حضرت عمر فاروق اپنی بےمثال خدمات کی بنا پر مسلمانوں کے دلوں میں بستے ہیں۔
لیکن افسوس کہ اتنی عظیم المرتبت شخصیت کو بعض نام نہاد مسلمانوں نے own نہیں کیا، بلکہ اس عظیم صحابی کے آتش پرست، مجوسی، کافر قاتل کو اپنا سمجھا، اور ابولؤلو فیروز مجوسی قاتل عمر، کا باقاعدہ مزار بنایا اور اس بطل جلیل صحابی کو شہید کرنے والے لعین بزدل کو "بابا شجاع” کا لقب دیا۔
ہمیں اپنی صفوں میں چھپے ایسے دشمنوں سے باخبر رہنا ہوگا!!!

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور عظمت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے بچوں کے نام عمر، فاروق، یا اکٹھا عمر فاروق رکھنا بھی ایک سعادت ہے۔ بلاشبہ امت اسلامیہ کو ایسی ہستیوں کی اشد ضرورت ہے جو آپ کے نقش قدم پر چلنے کو اپنا مقصد حیات سمجھیں۔

اللہ تعالیٰ کی لاتعداد رحمتیں ہوں ان پر!!! رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “شان عمر فاروق رضی اللہ عنہ” جوابات

  1. حافظ عبداللہ سلیم Avatar
    حافظ عبداللہ سلیم

    خوبصورت مضمون… بہترین سرچ

  2. حافظ عبداللہ سلیم Avatar
    حافظ عبداللہ سلیم

    دشمنان عمر کی بھی خوب خبر لی… هداهم الله