اخبارات

میرے پاس کچھ بھی تو نہیں میرا اپنا ( حصہ اول )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں

میرے پیارے اباجی! کچھ دن پہلے آپ کے ساتھ دل کی باتیں کیں تو کچھ عزیز دوست اور بزرگ مہربان بہت پریشان ہوئے اور مجھ سے فوری رابطہ کیا کہ میں اس غم سے باہر کیوں نہیں آ رہی اور صبر کیوں نہیں کر رہی؟ انہیں کہہ نہ سکی کہ میرے اساتذہ کے مطابق صبر یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی تکلیف اور خسارے کا نام تک بھی نہ لیں، ساتھ چھوٹا ہے، دل ٹوٹا ہے، روح چھلنی ہے اور اذیت کا کوئی انت نہیں ہے ، صبر اللہ تعالیٰ سے شکایت نہ کرنا ہے، اپنے نقصان پر احساسات بیان کرنے سے صبر پر کوئی زد نہیں پڑتی ،

کہتی بھی کیسے کہ وہ تو پورے اخلاص اور خیر خواہی کے ساتھ میری تکلیف کو محسوس کر رہے ہیں اور کسی بھی طرح مجھے اس سے باہر آتا دیکھنا چاہتے ہیں ، ایسے مخلص اور مہربان تعلق ہی تو اس آزمائش بھری دنیا میں پھر سے جینے کا حوصلہ دیتے ہیں اور ان ہی کی وجہ سے اچھائی پر سے ایمان نہیں اُٹھتا.

انہیں تسلی دلائی کہ میں بحمد للہ ٹھیک ہوں اور راضی برضا ہوں لیکن جب جب اس لامتناہی خسارے کا احساس بے چین کرتا ہے تو پناہ لکھنے میں ہی ملتی ہے. آپ تو جانتے ہیں میں زبان سے اظہار پر ملکہ نہیں رکھتی، اس لیے تحریر کی آڑ لے کر خود کو بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں.

کیوں کہ اگر آج مجھے الفاظ کی صورت میں خود کو بیان کرنے کا جو تھوڑا بہت ڈھنگ نصیب ہوا ہے، اس کی وجہ بھی آپ ہیں، آپ کو یاد ہے پہلی بار میرا ایک تبصرہ ماہنامہ پھول میں شائع ہوا، اس وقت کے ایڈیٹر اختر عباس جنہوں نے بچوں کے رسائل میں اپنی محنت اور جدت پسندی سے ماہنامہ پھول کو ایک نمایاں مقام دلوایا اور ایڈیٹر بھیا کے نام سے مشہور تھے، انہوں نے مجھے حوصلہ افزائی کا خط لکھا.

مجھے اچھی طرح یاد ہے اس وقت میں چھٹی یا ساتویں کلاس میں تھی ، آپ نے شام کو گھر آنے پر ایسے ہی سربمہر لفافہ میرے حوالے کیا کہ آپ کا خط آیا ہے اور بھائی جان نے میرے ہاتھ سے ایک دم کھینچ کر پہلے خود پڑھا کہ کس کا خط ہے اور کہاں سے آیا ہے. آپ نے بغیر کھولے جس طرح وہ خط میرے حوالے کیا، اس میں پوشیدہ بنیادی اخلاقیات اور مجھ پر آپ کا اعتماد اس وقت تو سمجھ نہیں آیا، لیکن شعور کی منازل طے کرنے کے بعد سے اب تک وہ طرزِ عمل میرے دل پر نقش ہے.

میں کئی دن وہ رسالہ اور ایڈیٹر بھیا کا تعریفی خط کہ جس میں انہوں نے کمال شفقت سے میرے تبصرے کی حوصلہ افزائی کی تھی، بار بار پڑھتی اور خوش ہوتی رہی اور آپ میری اس خوشی سے لطف اندوز ہوتے رہے. اس کے بعد کبھی جنگ اخبار کے بچوں کے صفحے کے لیے میں لطائف بھیج دیتی اور کبھی اقوال زریں، کبھی نوائے وقت کا چھوٹا سا چار صفحاتی بچوں کا ہفتہ وار رسالہ، جو کہ آپ بطورِ خاص ہمارے لیے منگوایا کرتے تھے، میں کوئی کہانی لکھ دیتی. دور دراز کا دیہات جہاں اخبار بھی صرف آپ منگواتے تھے اور پڑھنے کے شوقین چند لوگ آپ کے پاس جمع ہو کر پڑھتے تھے ، وہاں اسی گاؤں کی ایک بچی کا اس طرح اخبار میں نام آنا ایک بہت بڑی اور مختلف چیز تھی،

آپ چونکہ کھلانے پلانے کے بہت شوقین تھے تو جب بھی میری کوئی چھوٹی بڑی تحریر شائع ہوتی، کوئی نہ کوئی کہتا چائے ہونی چاہئے، بیٹی کی تحریر شائع ہوئی ہے اور آپ فوراً خوشی خوشی اپنے پسندیدہ کام میں مشغول ہو جاتے.

آپ نے کبھی مجھے زبان سے نہیں کہا کہ لکھو یا آپ نے اچھا لکھا، لیکن جب آپ گھر آ کر بتاتے آج فلاں جگہ سے ایک شخص آیا تو اس نے بتایا کہ میں نے آپ کی بیٹی کا اخبار میں نام دیکھا، اس وقت آپ کے چہرے پر جو فخر اور معصوم سی خوشی ہوتی تھی، وہ مجھے اس راستے پر چلنے کی تحریک دینے والی ہوتی تھی. شعور سنبھالنے سے لے کر اپنے گھر میں جنگ اخبار باقاعدگی سے آتے اور والدہ اور آپ کو اس کے مطالعہ میں مستغرق ہوتے دیکھتے رہے، امی اور آپ بچوں کے صفحات سے کہانیاں، لطائف ہمیں پڑھ کے سنایا کرتے،

مجھے یاد ہے میں نے اس عمر میں اخبار پڑھنا شروع کر دیا تھا، جب مجھے اکثر الفاظ کے معنی بھی معلوم نہ ہوتے تھے اور اکثر امی سے مطلب پوچھ کر ڈانٹ کھایا کرتی تھی، انہیں میرا تجسس کبھی کبھی ناگوار گزرتا تھا، جب میں ایسے الفاظ کا مطلب پوچھ لیتی جن کی وضاحت میری عمر کے مطابق ان کے لیے مشکل ہوتی ،

مجھے اچھی طرح یاد ہے میں ساتویں کلاس میں تھی اور اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ ایک شادی شدہ عورت آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی، مجھے آشنا کا مطلب معلوم نہ تھا، امی سے رجوع کیا تو ڈانٹ سے تواضع ہوئی، تجسس کا کیا کیجیے کہ ڈکشنری نکال کر مفہوم سے جانکاری حاصل کرنے کی کوشش فرمائی گئی، اب فیروز اللغات میں جو مطالب تھے وہ ملاحظہ ہوں… دوست، ساتھی، قرابت دار… ہمیں نہ تو لفظ میں اور نہ مفاہیم میں کچھ قابلِ اعتراض معاملہ معلوم ہوا کہ ڈانٹ پڑنے والی کون سی بات تھی، لیکن مزید عزت افزائی سے بچنے کے لیے خاموشی اختیار کی.

اسی طرح جب امریکی صدر بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کا معاملہ اخبارات کی شہ سرخیوں کا حصہ بنا ہوا تھا، ہمارے اکلوتے ماموں نے گھر آ کر اخبار پڑھنے کے خلاف ایک طویل مباحثہ کیا کہ ایسی خبروں سے بچوں کی اخلاقیات پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اس وقت تو نہ مجھے اس مباحثے اور نہ اس کے پس منظر کی سمجھ آئی ، کیونکہ ہمیں تو آپ کو دیکھ دیکھ کر لاشعوری طور پر اخبار پڑھنے کی عادت پڑی تھی،

لیکن اب سوچتی ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ اسی گاؤں میں، ایسے لوگوں کے ساتھ قریبی رشتہ داریوں کے باوجود آپ کی سوچ کتنی صاف ستھری اور کھری تھی، آپ نے کبھی تنگ نظری اور تنگ دلی کا رویہ روا نہ رکھا، نہ دنیا کے تلخ حقائق کو ہم سے چھپا کر ہماری معصومیت برقرار رکھنے کی کوئی فضول کوشش کی، بلکہ آپ نے ہمیں ایک وسیع کینوس دیا، جس پر اپنی سوچ اور مرضی کے رنگ بھرنے کو ہم آزاد تھے.

مجھے یاد ہے ایک جمعہ کو ( تب ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو ہوا کرتی تھی اور اخبارات میگزین بھی اسی دن شائع کرتے تھے )، آپ کہیں سے روزنامہ نوائے وقت لے کر آئے، امی نے جب میگزین پڑھا تو اس میں رضیہ بٹ کے ناول سبین کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی، امی کے ناول پڑھنے کی فرمائش پر آپ نے ہر جمعہ کو نوائے وقت بھی منگوانا شروع کر دیا، یہ پہلا ناول تھا جو امی اور میں نے مل کر پڑھا، اس مل کر پڑھنے اور ناول کے اتار چڑھاؤ امی کے ساتھ ڈسکس کرنے نے ہمارے درمیان دوستی کا ایسا رشتہ قائم کیا کہ مجھے آج تک ماں، باپ اور بہن بھائیوں کے علاوہ کسی دوست کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوئی،

ہم چونکہ دو دریاؤں کے درمیانی علاقے کے رہائشی ہیں، جہاں گرمیوں میں سیلاب آنا بھی معمول تھا، تو ایسے ہی دنوں میں ذرائع آمد و رفت معطل ہونے کی وجہ سے اخبار بھی نہ پہنچ سکا اور انہی ناغہ والے دنوں میں رضیہ بٹ کے ناول کی آخری اقساط شائع ہو گئیں جو کہ ہم نہیں پڑھ سکے،

ہم دونوں اتنے بے چین تھے کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے، اس کیفیت کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں، جنہوں نے قسط وار ناول پڑھے ہوں، ہر ہفتے بے قراری سے اگلی قسط کا انتظار کیا ہو، اور سال بھر کے بعد جب ناول انتہائی ڈرامائی موڑ پر ہو اور آپ کی اس آخری اقساط پڑھنے سے محروم رہ جائیں،

ان دنوں میں آٹھویں جماعت میں پڑھ رہی تھی، جب سیلاب گزرنے کے بعد سکول کھلا تو ہماری شہر سے آنے والی اساتذہ اپنی ایک ساتھی استاد کے لیے رضیہ بٹ کے ناول کی آخری قسط والے میگزین کی ایک کاپی لے کر آئیں، میں تو کسی کے بھی ہاتھ میں کوئی اخبار رسالہ دیکھ کر دیکھنے پڑھنے کو بے قرار ہو جایا کرتی تھی اور آج تک یہی عادت قائم ہے، میں نے اساتذہ کی طرف مکمل توجہ مرکوز کیے رکھی اور جیسے ہی علم ہوا کہ یہ تو ناول کی آخری قسط والا ہفتہ وار رسالہ ہے تو دل کی دھڑکن جیسے قابو سے باہر ہو گئی،

آدھی چھٹی کے وقت وہ میگزین سٹاف روم کی میز پر دیکھا جب کہ وہاں کوئی موجود نہ تھا تو جلدی جلدی مطلوبہ صفحہ کھول کر ناول کا رٹا مار لیا ( اساتذہ سے پوچھ کر پڑھنے کی ہمت اس لیے نہ ہوئی کہ ڈانٹ پڑنے کا امکان تھا، انہوں نے کہاں یقین کرنا تھا کہ میں اس ناول کو باقاعدگی سے پڑھتی آ رہی تھی )، بہرحال گھر آ کر امی کو خوشی خوشی ناول کے اختتام سے آگاہ کیا اور یوں ہم دونوں پرسکون ہوئے،

امی اور میں آج بھی اس واقعے کو یاد کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں ، اس دن جو پوری جزئیات اور تاثرات کے ساتھ ناول کی آخری قسط سنائی، وہ امی کو اس قدر پسند آئی کہ اس کے بعد وہ اکثر کہانیاں مجھ سے پڑھوا کر سننا پسند کرتیں ،

اکثر سارے بہن بھائیوں کو اکٹھا کر کے خصوصاً سردیوں کی راتوں میں سب اپنے اپنے بستر میں دبک جاتے اور میں کسی نہ کسی رسالے سے کہانیاں سنایا کرتی، ایک بار ایسے ہی سردیوں کی برستی بارش والی رات میں بھائی جان لاہور سے آتے ہوئے ماہنامہ پھول لے کر آئے، ان دنوں اس میں بارود، بارڈر اور بملا نامی ایک قسط وار کہانی چل رہی تھی، جس کی ہر قسط کا ہمیں بے چینی سے انتظار ہوا کرتا تھا ، رسالہ پاس موجود ہو تو صبح تک کون انتظار کرے ،

دسمبر کی سرد رات ، جس میں مسلسل بارش ہو رہی تھی اور بجلی بند تھی ، اس پرفسوں رات میں اونچا سٹول درمیان میں رکھ کر اس پر لالٹین رکھی گئی اور اس کی مدھم روشنی میں میں نے کہانی پڑھ کر سنائی تو تب سب کو سکون سے سونا نصیب ہوا ،( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں