بس ہوسٹس

یہ کسی ایک کی کہانی نہیں ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں

[email protected]

فریحہ کے والد تین بیٹیوں اور بیوی کو دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ایک حادثے کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ بیوی عام گھریلو عورت تھی جسے سوائے خانہ داری کے اور کوئی ہنر نہیں آتا تھا ۔ خاوند کی بے وقت موت اور تین معصوم بچیوں کا ساتھ ، اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے ؟

والدین حیات نہیں تھے اور بہن بھائیوں کے اپنے معاشی حالات اس قابل نہیں تھے کہ مستقل بنیادوں پر اس کی مدد کر سکیں ۔ سسرال والوں نے یہ مہربانی کی تین مرلے کا گھر اس کے اور بچیوں کے نام کر دیا اور کوئی مدد کرنے کی ان کے بھی حالات اجازت نہیں دیتے تھے ۔ خاتون تمام تر مشکلات کے باوجود اللہ کی شکر گزار تھیں کہ کم از کم چار دیواری میسر تھی ، لیکن اس چار دیواری کے اندر رہنے والی جانوں کی اور بھی بہت سی ضروریات تھیں جنہیں پورا کرنے کو پیسوں کی ضرورت تھی ۔

خاوند مزدور تھا جو کماتا ، اس سے روزمرہ کی ضروریات پوری ہو جاتیں ، کوئی جمع پونجی نہیں تھی جو اس آڑے وقت میں ان کے کام آتی ۔ خاتون کو احساس تھا کہ اب اسے ہی معاشی دوڑ دھوپ کرنا ہو گی کیونکہ بچیاں ابھی کم عمر تھیں ، بڑی بچی چھٹی کلاس میں تھی اور باقی دونوں اس سے چھوٹی تھیں۔

بہت کوشش اور دوڑ دھوپ کے بعد خاتون کو ایک نیک دل آدمی کے توسط سے سویوں کی فیکٹری میں پیکنگ کا کام مل گیا ۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق اس نے فوری کام پر جانا شروع کر دیا ۔ جاتے ہوئے بچیوں کو سکول چھوڑ جاتی اور واپسی پر لیتی ہوئی گھر آ جاتی ۔ سخت مشقت اور تھکا دینے والی روٹین کے باوجود وہ اس امر پر مطمئن تھی کہ اس کی بچیاں رات کو بھوکی نہیں سوتیں اور اسے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑ رہا۔

فریحہ جو بہنوں میں بڑی تھی ، وہ ماں کی اس مشقت بھری زندگی کو دیکھ کر مقدور بھر ماں کا احساس کرتی تھی ۔ گھر کے چھوٹے موٹے کام کرتی ، اپنا اور بہنوں کا یونیفارم ٹھیک کر لیتی اور ماں کے ساتھ لگی رہتی تاکہ ماں گھر آ کر ذرا سا سہی لیکن آرام کر لے ۔ وقت کا پہیہ اپنی رفتار سے چل رہا تھا ۔ فریحہ نے آٹھویں کا امتحان دیا تھا اور گھر پر ہوتی تھی ۔ ماں کو کام پر جاتے یہی فکر رہتی کہ بچی گھر میں اکیلی ہر اور ساتھ یہ احساس بھی ستاتا کہ وہ بچیوں کی حفاظت اور نگہداشت بڑھتی عمر کے ساتھ کیسے تنہا کر پائے گی ؟

انہی فکروں ، وقت سے پہلے پڑنے والی بھاری ذمہ داریوں اور ان تھک مشقت کا نتیجہ دل کی تکلیف کی صورت میں سامنے آیا ۔ حالات ایک بار قابو سے باہر ہونے لگے کہ بیماری کی وجہ سے ماں کے لئے کام پر جانا ممکن نہ رہا ۔

فریحہ کے ماموں ایک نجی بس کمپنی میں ملازم تھے ، انہوں نے حالات دیکھتے ہوئے فریحہ کو بس کمپنی میں میزبان کی ملازمت دلوا دی ۔ بچی خوش شکل اور سمجھ دار تھی ، حالات کے مطابق ڈھل جانے والی تھی ۔ جلد ہی اس نے کمپنی میں اپنی جگہ بنا لی۔ ایک سفر کے دوران میری فریحہ سے ملاقات ہوئی ، جس میں مجھے میزبان کے برابر والی نشست ملی ۔

سفر کے دوران گفتگو کرنا مجھے ہمیشہ سے ہی مشکل لگتا ہے ، لیکن اس بچی کے انداز میں کوئی ایسی بات تھی جس نے مجھے اس کی طرف متوجہ کیا ۔ وہ زندگی سے بھرپور ، شوخ و چنچل اور بات بے بات ہنسنے والی لڑکی تھی جو غیر محسوس انداز میں ساتھ بیٹھے کوئی نی کوئی ایسی بات ایک دم کہہ دیتی اور میں اس کا جواب دینے پر خود کو مجبور پاتی تھی۔

ہمارے برابر والی نشستوں پر دو خواتین مسافر ایک دس گیارہ سال کی بچی کے ہمراہ براجمان تھیں ۔ بچی والدہ کی گود میں ٹکی تھی اور اس کی تمام تر توجہ کا مرکز وہ ہنستی مسکراتی میزبان لڑکی تھی۔ بچی اس کے ایک ایک انداز کو نوٹ کر رہی تھی اور اس کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے کسی بچے کے چہرے پر من پسند کھلونا ملنے پر ہوتے ہیں ۔ فریحہ نامی میزبان بھی بچی کی خود میں دلچسپی محسوس کر رہی تھی اور آتے جاتے بچی سے بھی کوئی نہ کوئی بات کر رہی تھی ۔

جب میں نے اسے کہا کہ بچی آپ کو آیئڈیلائز کر رہی ہے تو وہ چہکتی مینا ایک دم خاموش ہو گئی اور کچھ دیر بعد اس نے اپنی کہانی سنائی کہ کس طرح وہ حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر یہاں تک پہنچی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کر کے خوش دکھائی رہنے کی اداکاری کرتی ہے ، کیوں کہ اسے ہر ماہ اپنی ماں کو تنخواہ بھیجنا ہوتی ہے جس سے ان کا گھر چلتا ہے ۔ اگر وہ ذرا سی غفلت اور بد دلی کا مظاہرہ کرے گی تو بس کمپنی اسے فارغ کر دے گی جو کہ اپنے حالات کی وجہ سے وہ برداشت نہیں کر سکتی ۔

وہ بس ڈرائیور سمیت کمپنی کے ملازم ہر مرد و عورت سے اسی طرح ہنس کر اور آگے بڑھ کر بات کرتی ہے تاکہ اس کی ملازمت قائم رہے ، کیونکہ سنجیدہ شکل میزبان کے ساتھ ڈرائیور حضرات ڈیوٹی کرنا پسند نہیں کرتے اور ان کی شکایات کرتے ہیں ۔ وہ فون پر ماں اور بہنوں سے بھی ہنس ہنس کر بات کرتی ہے تاکہ انہیں احساس ہو کہ وہ کتنی اچھی ملازمت پر ہے اور کس قدر مطمئن ہے ۔

بظاہر خوش اور مطمئن دکھائی دیتی وہ کم عمر معصوم جسے حالات کی ستم ظریفی نے وقت سے پہلے سمجھدار کر دیا ہے ، کسی کو نہیں بتا سکتی کہ اس کے اندر کیسا احساس محرومی جنم لیتا ہے جب وہ کسی ہم عمر لڑکی کو باپ اور بھائی کے محفوظ و مضبوط سائے میں دیکھتی ہے ۔

اپنی کہانی مجھے سنانے کے بعد وہ ساتھ والی نشست پر بیٹھی بچی کی والدہ سے کہنے لگی کہ آپ اپنی بچی کو اعلیٰ تعلیم دلائیے گا ۔ وہ دیہاتی سی دکھائی دیتی خاتون جیسے کسی ہمدردی کی منتظر تھیں ، کہنے لگیں کہ یہ بچی ان کے پہلے شوہر سے ہے ، جس نے شادی کے دو سال بعد انہیں طلاق دے کر بچی بھی انہی کے ہمراہ کر دی اور کسی بھی قسم کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا۔

خاتون کی دوسری شادی ہوئی تو شوہر بچی کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے اور یوں بچی کبھی ماں کے پاس اور کبھی نانی کے پاس رہ رہی ہے۔ میں سوچ رہی تھی ایسی نہ جانے کتنی بچیاں ہیں جو وقت سے قبل ہی معاشی دباؤ کا شکار ہو کر آگاہی کا درد اور شعور کی منازل طے کر جاتی ہیں ، جن پر خوشی اور بے فکری کا زمانہ آتا ہی نہیں ہے۔

ایک باپ کی بے وقت موت کی مجبوری میں گھر سے نکل کر حالات کی تلخیاں سہہ رہی ہے اور دوسری باپ کے زندہ ہوتے بھی در بدر ہو رہی ہے۔ وہ بھی حالات کی اسی چکی کی زد میں آئے گی ، اسے بھی معاش کا جن جلد ہی کسی بس اسٹینڈ پر لا کھڑا کرے گا ۔

کہانی چلتی رہے گی بس کردار بدلتے رہیں گے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں