موٹاپا

شوگر سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا پانا آسان ، جرمن ادارے کی رپورٹ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دنیا میں ذیابیطس کے مریضوں میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے ۔ سن 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں 53کروڑ ، 70 لاکھ بالغ افراد ذیابیطس کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ، انسانوں نے اپنی غذائی عادات سمیت طرزعمل میں تبدیلی پیدا نہ کی تو سن 2030 تک یہ تعداد 64کروڑ 30لاکھ اور سن 2045 تک 78 کروڑ 30لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس ڈرامائی صورت حال کا جائزہ لینے سے ثابت ہوتا ہے کہ وزن کم کرنے سے ذیابیطس کو روکا بھی جاسکتا ہے۔

ہیمبرگ سے تعلق رکھنے والے ماہر خوراک ڈاکٹر ماتھیاس ریڈل ذیابیطس روکنے کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے لئے یہ ایک سنگ میل ہے اور واضح بھی کہ ذیابیطس قابل علاج ہے۔ یہ تقدیر میں لکھی گئی ایسی بیماری نہیں ہے جسے زندگی بھر جھیلا جائے۔

یہ جائزہ انگلینڈ میں کرایا گیا ہے ، جس کے مطابق ذیابیطس کے ابتدائی چھ برسوں کے دوران میں ادویات استعمال کئے بغیر بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے اور وہ بھی صرف وزن کم کرنے سے ۔ اس جائزے میں شامل افراد کے کھانے پینے کی عادات کو شدید انداز میں کنٹرول کیا گیا۔

تین ماہ تک انھیں صرف غذائیت سے بھرپور مشروبات پلائے گئے ، یعنی نو سو کیلوریز یومیہ ۔ اس دوران میں ان افراد کی نفسیاتی طور پر بھی دیکھ بھال کی گئی۔ انھیں غذائی مشورے بھی دیے گئے اور جسمانی تربیت بھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو شرکا سات کلو تک وزن کم کرنے میں کامیاب رہے ، ان میں سے سات فیصد نے ذیابیطس کی گولیاں کھانا بند کردیں۔ جبکہ پندرہ کلو تک وزن کم کرنے والے چھیاسی فیصد یہ منزل حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

ڈاکٹر ماتھیاس ریڈل کہتے ہیں کہ یہ جائزہ ذیابیطس کے علاج میں انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹروں اور مریضوں کی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ زندگی بھر گولیاں کھانا اور انسولین کے انجیکشن لگانا ضروری نہیں۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈوائچے ویلے کی ایک رپورٹ میں ایک جرمن شخص گروبے کا قصہ بھی بیان کیا گیا جو انسولین کے انجیکشن لگایا کرتا تھا۔ تاہم اب وزن کم کرکے وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہےوہ بہت زیادہ کھایا پیا کرتا تھا۔ کاربو ہائیڈریٹس کی وافر مقدار اور میٹھی اشیا بھی اسے بہت پسند تھیں۔ گاڑی میں بیٹھے دو تین برگر کھانا ایک معمول کی بات تھی . یہ سلسلہ جاری رہا ۔ اس طرح اس کا وزن بڑھتا گیا اور وہ ذیابیطس کے مریض بن گیا۔

شوگر ہونے کی اہم ترین وجہ

ڈاکٹر ماتھیاس ریڈل کہتے ہیں کہ ذیابیطس ہونے کی اہم ترین وجوہات میں اعضا اور پیٹ میں چربی کا جمع ہونا ہے۔ جتنی زیادہ چربی ہوگی ، اتنی زیادہ انسولین کی ضرورت پڑے گی۔ جتنی زیادہ انسولین ہوگی ، اتنی زیادہ مقدار میں چربی جمع ہوتی جائے گی۔ یہ چکر بہت سے انسانوں کے لئے بہت ہی خطرناک اور مہلک ہوتا ہے۔

شوگر کا مرض کیسے لاحق ہوتا ہے ؟

ہمارا نظام کاربوہائیڈریٹس کو بلڈ شوگر میں تبدیل کردیتا ہے جبکہ لبلبہ انسولین پیدا کرتا ہے تاکہ خون سے شوگر کو خلیوں میں منتقل کیا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں خون میں شکر کم ہوجاتی ہے۔ اگر خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہو تو خلیے انسولین کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔اس سے لبلبہ متاثر ہوتا ہے اور آخر کار انسولین بنانا بند یا کم کردیتا ہے۔ شوگر خون سے خلیوں میں منتقل نہیں ہوپاتی۔ اور شوگر کی مقدار کو کم کرنے کے لئے مریض کو انسولین کا ٹیکہ لگانا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر گروگر ، ماہر ذیابیطس کہتے ہیں کہ وزن جتنا زیادہ ہو انسولین اتنا ہی کم اثر کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر میں وزن کم کرنے کی کوشش نہیں کروں گا ، تو میرے جسم میں بننے والی انسولین بھی صحیح طور پر اثر نہیں کرے گی۔ اگر میں انسولین کا ٹیکہ بھی لگائوں ، پھر بھی فرق نہیں پڑے گا۔

گروبے نے ماہرین کے مشوروں سے اپنی غذائی عادات مکمل طور پر بدل ڈالیں ، اس نے تیس کلو وزن کم کیا۔ اس طرح اس کی ادویات بھی نمایاں طور پر کم ہوگئیں۔ پہلے وہ دن میں تین گولیاں کھاتا تھا ، اب وہ دو گولیاں کھاتا ہے۔ اگر وہ اسی طرح طرز عمل جاری رکھے گا تو وہ آگے بڑھتا رہے گا۔ گروبے اپنی بلڈ شوگر کو قابو کرنے میں کامیاب رہا ۔ یہ ایک سچی کہانی اور حقیقی مثال ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں