باحجاب خاتون شاپنگ کرتے ہوئے

پیسہ خرچ کرنا بھی ایک آرٹ ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین

پیسہ خرچ کرنا بھی ایک آرٹ ہے ۔
کہاں خرچ کرنا ہے ؟
کدھر خرچ کرنا ہے ؟
کیوں خرچ کرنا ہے ؟

عام طور جتنا پیسہ کمانا مشکل سمجھا جاتا ہے اتنا اس کو خرچ کرنا مشکل نہیں سمجھا جاتا ہے۔

زیادہ پیسہ ہاتھ میں آ جائے تو ہمارے رویے خواہشات کو پورا کرنے کی طرف مائل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

اسی لئے اللہ رب العزت انسان سے یہ دونوں سوال پوچھیں گے کہ
پیسہ کہاں سے کمایا؟
کدھر خرچ کیا؟
کچھ لوگ پیسہ خرچ کرنے میں تو میانہ روی کا سوچتے ہیں لیکن کماتے وقت جنونی ہوجاتے ہیں۔ دن رات ایک کر کے کماتے ہیں ۔
اپنی ذات ، جان ، خاندان سب کا حق مار کر بس کماتے ہیں ۔حلال حرام سب کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں ۔

پھر یہ سوچ بہت عام ہے کہ کمانا ہمارا کام تھا ، محنت ہم نے کی تو اب خرچ کرنے میں بھی ہم آزاد ہیں۔
جس جگہ ، جس طرح ، جب ، جہاں ۔۔۔۔ جی چاہے . اسی لئے اگر تنگی کی وجہ سے کہیں دل پسند جگہ خرچہ نہ ہوسکے تو ہمارا دل بہت تنگ ہوتا ہے ۔ حسرتیں جنم لینا شروع ہوجاتی ہیں ۔

بچوں کو چھوٹی عمر ہی سے پیسے کی کمی یا تنگی کی حسرت میں مبتلا کرنے والے ہم والدین ہی ہوتے ہیں جو یہ بات بار بار بتاتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز اس لئے نہیں دلائی جاسکتی کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ۔

پیسے سے چیزیں حاصل کرنے کا تصور ہم ہی بچپن سے قائم کرتے ہیں ۔

بھلا یہ بات اہم ہے کہ پیسے نہیں ہیں یا یہ اہم ہے کہ ہمیں اس جگہ پیسہ کیوں خرچ کرنا چاہیے ؟

اپنے بچوں کی فرمائش پوری کرتے وقت یا خود کوئی چیز لیتے وقت ہم میں سے کون یہ بات کہتا ہے کہ فلاں فلاں چیز اس لئے نہیں خریدی جاسکتی کہ اس کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔

۔یا یہ چیز اس سے کم قیمت میں یا کسی اور جگہ سے بھی مناسب دام ملے گی تو ٹھیک رہے گی ۔

یا ہم اس کے بغیر بھی گزارہ کر سکتے ہیں ، یہ اتنی اہم نہیں ۔

یا ہم اس کو لے کر کیا کریں گے کتنے دن کام آئے گی ۔
یا اس جیسی اور کتنی ہی چیزیں پہلے ہی ہمارے پاس ہیں جن کا ہم استعمال کررہے ہیں یا کر چکے ہیں ۔یا نہیں کرتے ہیں ۔

بے تحاشہ چیزوں سے ماحول آلودہ ، دل آلودہ ، چیزوں کی قدر ختم ہوجانا ، ہر ایک نئی چیز کے بعد دوسری کی خواہش پیدا ہوجانا ایک عام رویہ بن گیا ہے ۔
چھوٹی عمر سے ہی بچے کے دل میں پیسے کے لئے محبت انہی وجوہات کی بناء پر جگہ بنانی شروع کرتی ہے کہ جب وہ اس بات سے آشنا ہوتا جاتا ہے کہ پیسہ خواہشات کے حصول کا ذریعہ ہے ۔

جب کہ تربیت کے لئے ضروری ہے کہ یہ رویہ بنایا جائے کہ پیسہ خواہشات کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے ، ایک آزمائش ہے ، اس کی جواب دہی ہے۔

جب جب معاشرے میں لوگ اپنی ضروریات سے بڑھ کر پیسہ اپنے اوپر خرچ کریں گے ، لازما مسائل پیدا ہوں گے۔

جدید اشتہاری دنیا ہر چیز کو ضرورت بنا کر پیش کرتی ہے ۔لوگ اشتہار دیکھ کر خریدنے کے لئے دوڑے چلے جاتے ہیں ۔ضرورت کا دائرہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔اپنی ذات سے نظر پڑتی نہیں کہ کہیں اور خرچ ہو۔

اسی لئے شادی اور دیگر ایسے مواقع پر جو کہ رسوم و رواج کی وجہ سے بوجھل ہیں پیسہ خرچ کرتے وقت ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا اس پیسے کے خرچ کرنے سے آگے آنے والی زندگی کی شروعات میں کوئی فائدہ ہوگا ؟

دکھاوا اور رسم و رواج کو پورا کرنے کے یا واہ واہ کے چکر کے فضول خرچیوں سے اگر ایک شرعی کام بوجھل بن رہا ہے تو ہمیں اپنے کردار پر غور کرنا چاہیے ۔
معاشرے میں ایسا پیسہ خرچ کرنا جس سے بے چینی ، تکبر مقابلہ اور لوٹ مار شروع ہونے کا امکان ہو تو اس خرچے پر سوچنا چاہیے بات کرنی چاہیے۔

پیسہ کمانا آرٹ ہے تو خرچ کرنا بھی ۔اس آرٹ کو سیکھئے ۔اس کو ذمہ داری سمجھیے ، آزمائش سمجھیں ۔

اعتدال اور میانہ روی یہی ہے کہ نہ تو فضول خرچ بنیے نہ ہی بخیل ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں