راج محمد آفریدی
آپ بیتی کو Autobiography کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، اپنے ذاتی احوال و کوائف کو ایک خاص ترتیب سے ادبی رنگ میں لکھی گئی ہے۔ انسان میں کئی خصوصیات ہوتی ہیں جن میں سب سے اہم اپنے حالات سے دوسروں کو آگاہ کرنا ہے۔ مصنفین قارئین کو مذکورہ آگاہی مختلف طریقوں سے پہنچاتے ہیں۔
آپ بیتی میں صرف اپنے ذاتی احوال نہیں ہوتے۔ اس میں حقیقت کے ساتھ فسانہ بھی ہوتا ہے (یادوں کی برات)، تاریخی پہلوؤں اور تہذیب و تمدن کا ذکر بھی ہوتا ہے (کار جہاں دراز ہے)، زندگی کے اچھے دنوں کے ساتھ بُرے دنوں کا احوال بھی ہوتا ہے (جہاں دانش)، کسی کے کیرئیر کی کہانی بھی بیان ہوتی ہے (شہاب نامہ) وغیرہ۔ الغرض آپ بیتی اس کتاب کا نام ہے جس میں آپ دنیا کو اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں آپ بیتی کی روایت نہایت شان دار ہے۔ مختلف طبقہ ہائے فکر نے اس میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا ہے لیکن خواتین کی طرف سے اس صنف ادب میں شرکت تسلی بخش نہیں۔ اس سلسلے میں سیدہ عطیہ پروین کی حالیہ شائع کردہ آپ بیتی ’آپ بیتی۔۔۔سچ مچ بیتی‘ ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوئی ہے۔
بنیادی طور پر سیدہ عطیہ پروین کا تعلق زیارت کاکا صاحب نوشہرہ سے ہے۔ آپ 5 مارچ 1953ء کو پشاور میں معروف ادیب سید داؤد شاہ برق کے ہاں پیدا ہوئیں۔ آپ کی والدہ تعلیم و تعلم سے وابستہ تھیں۔ عطیہ پروین کو بچپن ہی سے گھر میں تعلیمی و ادبی ماحول ملا۔ آپ کی شادی محض 16 برس کی عمر میں اپنے وقت کے معروف وکیل ہدایت اللہ سے ہوئی۔
کہتے ہیں کہ سچ بولنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ قوی امکان ہے کہ آپ کے سچ سے کسی کی دل آزاری ہو کیونکہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے مزاج کے مطابق بات سننا چاہتا ہے۔ چاہے وہ بات جھوٹ پر مبنی ہی کیوں نہ ہو۔ بعض لکھاری دوسروں کے مزاج کی فکر نہیں کرتے اور سچ لکھتے ہیں۔ انہی میں سے ایک سیدہ عطیہ پروین بھی ہیں جنھوں نے اپنی آپ بیتی کو سچ مچ بیتی کا نام دیا ہے جو اسم با مسمیٰ ہے۔ مصنفہ کی حقیقت بیانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنی آپ بیتی میں چند ایسے لوگوں کی مدح سرائی کی ہے جن کے ساتھ ان کا دوستی، محبت اور عزت کے سوا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے خونی رشتے داروں کو واضح الفاظ میں پیغام دیا ہے کہ ان کا رویہ مصنفہ کے ساتھ ٹھیک نہیں تھا۔ اپنے جاننے والوں کے متعلق اس طرح لکھنا مشرقی خواتین کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ قاری کا منہ اس وقت کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے جب عطیہ پروین اپنے جگر کے ٹکڑے کا ذکر کرتی ہے کہ وہ والدین کے کام کبھی نہیں آیا۔ مصنفہ نے ان جذبات و احساسات کی عکاسی کے لیے علامتی انداز کا سہارا نہیں لیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مصنفہ ایک بے باک لکھاری ہیں۔ ایسے لکھاری ہی آپ بیتی کا حق ادا کرسکتے ہیں۔
سیدہ عطیہ پروین نے اس کتاب میں ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے جنھوں نے ان کی پیدائش پر خوشی یا غمی کا اظہار کیا ہے، جنھوں نے ان کے ساتھ اچھائیاں یا برائیاں کی ہیں، جنھوں نے ضرورت کے وقت ان کا ہاتھ تھاما یا چھوڑا ہے، جنھوں نے ان کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کی ہے، جنھوں نے ان کو بابرکت یا منحوس قرار دیا ہے، جنھوں نے ان کے ساتھ انسانوں یا حیوانوں جیسا سلوک روا رکھا ہے۔
سیدہ عطیہ پروین نے اپنی پیدائش سے اس داستان نما آپ بیتی کا آغاز کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہونے کے باوجود ان کے ہاں لڑکی کی پیدائش پر افسردہ ہونا عام تھا۔ عطیہ لکھتی ہیں کہ جب وہ پیدا ہوئیں تو نانی نے منہ پیٹنا شروع کیا :
’ایک بلا بہت نہ تھی کہ ایک اور منحوس ٹپک پڑی۔ انھوں نے اندر آ کر میری والدہ کو حکم دیا کہ میں تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی اگر تو نے اس بد صورت، کمزور اور منحوس بچی کو اپنے نزدیک کیا۔‘
عطیہ کی پیدائش کے چند روز بعد ان کے والد کا انتقال ہوا تو خاندان بھر میں بچی پر منحوس کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔ بیشتر رشتہ داروں نے ان کے ہاں آنا جانا چھوڑ دیا۔ بعض نے تو عطیہ اور ان کے خاندان سے مراسم تک ختم کردیے لیکن جب ان کے مالی حالات بہتر ہوئے تو رشتہ دار دوبارہ ان کے قریب آئے۔ یہی وجہ ہے کہ عطیہ کا قلم رشتہ داروں کا ذکر کرتے ہوئے خود بخود تلخ ہوجاتا ہے۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
عطیہ نے بچپن کی خوب صورت یادوں کو بھی اس کتاب میں سمیٹا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان یادوں میں تلخ یادیں زیادہ ہیں۔ انھوں نے اسکول دور کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ آپ ایک ایتھلیٹ تھیں۔ آپ نے اسکول میں مختلف کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔ کھیل کے سلسلے میں آپ کو بیرون ممالک جانے کا کئی بار موقع ملا مگر ماں کی طرف سے اجازت نہ ملنے پر آپ یہ مواقع گنوا بیٹھیں۔ آپ کی یہ خواہش پھر روٹری انٹرنیشنل میں شامل ہونے کے بعد پوری ہوئی۔ آپ نے کئی ممالک کے سفر کیے جن میں امریکا، ہندوستان اور ایران اہم ہیں۔
آپ نے ایران کے دورے کو سفرنامے کی صورت میں ’دوستی کا سفر‘ کے عنوان سے محفوظ کرلیا ہے۔ آپ نے ان ممالک میں رہتے ہوئے وہاں کے تہذیب و ثقافت کا گہرائی سے جائزہ لے کر اسے اپنی آپ بیتی کا حصہ بنایا ہے۔ آپ امریکیوں کی مہمان نوازی سے بہت متاثر ہیں۔ اس کے ساتھ آپ نے آپ بیتی میں خود سے جڑے کئی واقعات بھی شامل کیے ہیں جن میں جعلی پیروں کا ذکر، معذور بیٹی کی خدمت کا ذکر، کسی واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے اسی واقعے کو خواب میں دیکھنے کا ذکر، مختلف ادبی تنظیموں کا ذکر، ڈیمینشیا کے شکار شوہر کا ذکر اہم ہے۔
عطیہ پروین پیدائشی لکھاری ہیں۔ انھوں نے جماعت ہفتم سے باقاعدہ افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ اسکول کے زمانے ہی میں مختلف اخبارات و رسائل میں آپ کی تخلیقات شائع ہوتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اردو ، پشتو اور انگریزی ادب کی خدمت مختلف اصنافِ ادب کے ذریعے کی ہے۔ آپ نے بڑوں سمیت بچوں کے لیے بھی لکھا ہے۔ آپ کو فنون ادب سے گہری دل چسپی ہے۔ اوائل عمری میں آپ کو سینما ہال فلم دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔
سیدہ عطیہ پروین اپنی والدہ سے بہت متاثر رہی ہیں۔ انھوں نے کتاب کا انتساب اپنی ماں کے نام کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ:
’اپنی بہت ہی بہادر ماں مسز عائشہ داؤد شاہ کے نام جنھوں نے مجھے ہر قدم پر سہارا دیا، میری ہمت بندھائی اور مجھے مایوسی کے لفظ سے دور رکھا۔۔۔۔۔’
ماں کے علاوہ عطیہ پروین نے اپنی معذور بیٹی ارم گل کو بہت یاد کیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ جس انسان سے متاثر ہیں وہ بشریٰ فرخ صاحبہ ہیں۔ بشریٰ فرخ کی شخصیت ہی ایسی ہے جن سے متاثر ہونا عام سی بات ہے کیونکہ وہ ہمیشہ دوسروں کو سراہتی ہیں، ادیبوں کو لکھنے کی ترغیب دیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر لوگوں میں محبتیں بانٹتی ہیں۔ عطیہ پروین بشریٰ فرخ کے بارے میں لکھتی ہیں:
’بشریٰ فرخ ممبرز کی عزت کرنا اور کروانا جانتی ہیں۔ میں اور میری جیسی بہت سی خواتین کو انھوں نے لکھنے لکھانے پر ابھارا اور ان کی بہترین تخلیقات کو منظر عام پر لے آئیں۔‘
مجموعی طور پر ’آپ بیتی۔۔۔سچ مچ بیتی‘ میں امید اور محنت کا درس دیا گیا ہے۔ اس میں ایک ایسی خاتون کی زندگی کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے جو ہر لحاظ سے ناامیدی کے سائے تلے زندگی گزار رہی تھیں مگر اس نے ہمت نہیں ہاری ۔ اس نے حالات کا مقابلہ کیا اور ثابت کیا کہ خدا پر مکمل بھروسہ کرنے اور محنت کا دامن نہ چھوڑنے سے مایوسی کے بادل خود بخود چھٹتے چلے جاتے ہیں۔ اس آپ بیتی کو پڑھ کر قاری میں ہمت پیدا ہوتی ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس کتاب کو تمام لائبریریوں کا حصہ بنایا جائے۔ خاص طور پر خواتین یہ آپ بیتی ضرور پڑھیں کیونکہ یہ ہمت و حوصلے کے بہترین اسباق سے لبریز ہے ۔