سہیل بلخی۔ فری لانسر ، کالم نگار

فری لانسنگ: مشورہ دیں کہ میں‌کیا کروں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سہیل بلخی۔۔۔۔۔
فری لانسنگ کی آگاہی اپنی کیپیسیٹی کے مطابق محدود پیمانے پر پھیلانے کی کوششیں کر رہا ہوں۔ کل ایک ٹی وی پروڈیوسر ملنے کو آئے جن کے ادارے کی حالت کافی خراب یے اور کچھ اور لوگوں نے بھی رابطہ کیا۔ انھیں واقعی نہیں معلوم تھا کہ انٹر نیٹ پر بھی فری لانس کام حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جان پہچان پرجو وڈیو ایڈیٹنگ کے چھوٹے موٹے پروجکٹ وہ کرتے رہے ہیں بس فری لانسنگ اسی حد تک یے۔

میں واقعی دل سے اور خوشی سے ایسے لوگوں کو بلا کر بیٹھا کر ان کے سوالات کے جوابات دے کر مطمئن بھیجنا چاہتا ہوں مگر میری ایک گنجائش یے، اسی کے مطابق یہ کام کرسکتاہوں۔ مجھے اپنا گھر چلانے اور اپنے اسٹاف کر تنخواہیں اور بلز کی ادائیگی کے لیئے روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے اپنا کام کرنا ضروری ہے۔ایسے میں ایک دو نہیں سینکڑوں کی تعداد میں وھاٹس ایپ، فیس بک میسنجر اور فون پر لوگوں کے پیغامات آرہے ہوتے ہیں جنہیں مجبوری میں یہی کہتا ہوں کہ وہ خود انٹر نیٹ پر اس کا جواب تلاش کریں یا اگر کسی گروپ میں ہیں تو وہاں پوچھیں۔

مجھے شدید ضرورت ہے کہ دو تین افراد مجھے بطور رضاکار اپنا روزانہ کا کچھ وقت دیں۔ اگر کوئی این جی او اپنا کوئی اسٹاف کچھ دنوں کے لیئے دیتی کہ انھیں ساتھ رکھیں اور ان کاموں کے لیئے استعمال کریں تو بہت اچھا ہوتا۔

لوگوں کو فری لانسنگ کی آگاہی اور تربیت دینا ایک ایسا کام ہے جس میں معمولی وسائل اور توجہ دے کر بہت اعلیٰ نتائج ہفتوں اور مہینوں میں حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ کام بڑی این جی اوز کو بتایا جاچکا یے اور ان کے فائدے کی چیز ہے۔

فری لانسنگ کے بارے میں صرف بتانا کافی نہیں، یہ ٹھیلہ اور سلائی مشین دے کر آگے بڑھنے والا کام نہیں۔

یہ ایک اصطبل میں گھوڑے جمع کرکے ان کی تربیت اور دیکھ بھال والا کام ہے۔ کسی کو شک ہے کہ اس کی انگریزی مسئلہ پیدا کرے گی اور جب کام ملے گا تو گورے نے اگر کچھ پوچھا تو جواب لکھ کر وہ کسی سے چیک کیسے کرائے گا کہ کیا میں یہ ٹھیک لکھ رہا ہوں؟ شروع کہاں سے کروں؟ کچھ نہیں آتا تو کم وقت میں کیا اور کہاں سے سیکھوں؟ کون سے انگریزی کے چند عام جملے ہیں جو بار بار استعمال ہوں گے ؟

اس میدان میں زیادہ ذہانت، اسمارٹنس، کسی دانشوری اور بقراطی کی قطعی ضرورت نہیں نہ کسی ڈگری، کمپیوٹر اور سوفٹ وئیر کے کورسز اور ڈپلوموں کی کوئی محتاجی ہے۔ سادہ اور عام لوگوں کا میدان ہے یہ، چھوٹی چھوٹی سروسز دینے والا کام اور ہر کوئی جس کے ہاتھ چلتے ہیں اور نظریں کام کرتی ہیں اور میٹرک لیول کی انگریزی سمجھتا یے وہ ڈٹ کے کرسکتا یے۔

بس اسے اعتماد دینے والے اور ضرورت کے وقت کچھ پوچھنا ہو تو کوئی "بھائی” موجود ہو آس پاس جس سے وہ بغیر خوف اور بغیر شرمائے بار بار جو چاہے پوچھے۔ کوئی ہو جو اسے ماں کی طرح ہر بار رسپانس دے۔ غلط سوال پوچھنے پر بھی پہلے ماں کی طرح پیار والے غصے سے دیکھ کر کہے کہ "گوگل کیوں نہیں کرتے، کوشش تو کرو پتر! کہ خود جواب ڈھونڈ سکو۔” مگر پھر دوسرے ہی لمحے کہے کہ چلو ادھر آئو میرے پاس بیٹھو، یہ دیکھو میری اسکرین پر کہ کیسے جوابات تلاش کرتے ہیں۔

پہاڑی علاقوں اور دیہاتوں میں تو ایسے سینٹرز کھولے بغیر یہ کام ہو ہی نہیں سکتا۔ایک بار جو لڑکا یا لڑکی دو تین دن فل ٹائم اس سینٹر پر گزار لے پھر وہ واپس جاکر کئی سو افراد کو اپنے علاقوں میں فری لانسرز کے طور باعزت اور پرکشش روزگار پر کھڑے ہونے میں مدد دے سکتے ہیں۔

ہم اپنے قریبی اداروں کو یہ بات سمجھا نہیں پارہے کہ وہ یہ کام کریں تو دوسروں کو کیسے سمجھائیں۔ اگر وہ یہ کام کرنا چاہیں گے تو ہمارے جیسے دسیوں لوگ بطور رضاکار ان کو جوائن کریں گے۔ ہم نے چھوٹے بڑے سارے اداروں اور گروپس کو لکھ کر اور ملاقاتیں کرکے یہ بات سمجھانے کی کوششیں مگر ناکامی ہی ہوئی۔

آپ لوگ مجھے مشورہ دیں کہ کوئی توجہ نہ دے اور کوئی رضاکار نہ ملے تو اس کام کو کیسے لے کر چلا جائے؟ اسے اپنے علاقے کراچی کے گلشن ٹائون تک محدود کردوں؟ یا بس ہلکے پھلکے طور وڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردوں اور اسی پر فوکس رکھوں؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں