تحریر و تصاویر: ڈاکٹر محمد کاشف علی
کچھ نہیں تو کم از کم دو ہزار برس قبل مشرقی افغانستان (جس کو کبھی کافرستان کہا جاتا تھا اور اب نورستان) سے لے کر لداخ تک کے علاقے (بشمول چترال، دیر کوہستان، سوات کوہستان، انڈس کوہستان، گلگت و بلتستان) کو ہندوؤں کے ویدوں میں ”درد دیسا“ کا نام دیا گیا۔ بعد میں اس کو دردستان کہا گیا۔
ابتدائی ادوار میں ویدک یا ابتدائی آریائی مذہب کا بول بالا رہا، تاریخی جدلیات کے مطابق مذہب میں بدلاؤ آتا رہا، ہندو مت و بدھ مت کے ساتھ ساتھ کہانت یا شامانزم بھی دردستان کا مذہب رہا ہے۔ اور (اب تک) اخیر میں اسلام بتدریج تمام مزکورہ علاقوں میں رائج ہو گیا۔
کشمیر مسلمان ہوا، گلگت، بلتستان، سارے مذکورہ بالا کوہستانوں میں اسلام رواج پا گیا۔ بس رہ گیا تو کافرستان (مشرقی افغانستان) اور کلاش (چترال-پاکستان)۔ کافرستان بھی اخیر نام و مذہب کے تبدیل کے ساتھ انیسویں صدی کے آخری عشرے میں نورستان کہلایا اور پھر اب رہ گیا فقط چترال میں کلاش جو آج بھی ”دہشت گرد اور شدت پسند پاکستان“ میں اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ باقی ماندہ سارا دردستان تاریخی جدلیات کو رو میں بہہ گیا۔
ہندو کش میں دردستان کی روایات کو اسی کلاش قبیلے نے کافی حد تک ثقافتی مزاحمت کے ساتھ برقرار رکھا ہوا ہے۔ 1980 کے عشرے سے پہلے کلاش میں مردے دفنانے کا رواج نہیں تھا (خصوصاً بمبوریت، بریر اور جنجریت کوہ میں)، زمین پر ہی تابوت رکھ دیے جاتے تھے، ان قبرستانوں کی باقیات آج بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔
عام طور پر سیاح وادیِ بمبوریت کے گاؤں کراکال کے قدیم قبرستان ( کلاشی زبان میں منڈاؤ جاؤ) کا رخ کرتے ہیں۔ اگرچہ ابھی کچھ اور مقامات پر بھی ایسے قدیمی آثار مل جاتے ہیں۔ کراکال کے قبرستان میں سیاحوں کی اکثریت قدیم تابوتوں یا باقی جات کو وہ احترام نہیں دیتی جو ہم مسلمان اپنے قبرستانوں کو دیتے ہیں،
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ غیر مقامی سیاح قدیم کالاش قبرستانوں میں انسانی ہڈیوں کو ہاتھوں میں اٹھا کر تصاویر بنواتے ہیں،
احترام بہر کیف لازم ہے مذہب کوئی بھی ہو۔