مزار حضرت علی رضی اللہ عنہ

حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، بطور قاضی

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں :

” میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ۔“ یہ فرمان عالی شان سرکارِ دوعالم ﷺ نے سیدنا علی مرتضیٰ کے لیے ارشاد فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ فیصلے کرنے میں امام الانبیاءﷺ کے علم کا عظیم خزینہ تھے۔

اس عظیم علم کی وجہ سے آپ کے کیے گئے فیصلے عقلوں کو حیران کر دیتے تھے۔ آج بھی بڑے بڑے دانش ور آپ کے فیصلے اور ان کی حکمتیں سن کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے آپ کے اس امتیاز کی خود گواہی دی،
فرمایا : ” تم میں سب سے بہتر فیصلے کرنے والے علی ہیں۔“

دو فریقین کے مابین تنازعات اور مقدمات کا درست فیصلہ کرنا اور اصل واقعہ کی تہہ تک پہنچنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ اس غیر معمولی کام کے لیے غیر معمولی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وصف میں پوری جماعت صحابہ کرام میں کوئی آپ کا ہمسر نہیں تھا، کیونکہ آپ کرم اللہ وجہہ کو رسول اللہ ﷺ کے دامنِ دولت سے وابستگی کے باعث فضل و کمال اور تحصیلِ علم کی فطری صلاحیت کا ذوق عطا ہوا تھا۔

آپ رضی اللہ عنہ قرآن، حدیث، فقہ اور جملہ دینی علوم کا سمندر تھے۔ مکتبِ نبوت سے جو فیض انہیں حاصل ہوا، وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہو سکا۔ آپ کے خطبات فصاحت و بلاغت سے مزین ہوتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بہت سے مواقع پر قضا کی خدمت پر مامور فرمایا۔ حضرات خلفائے راشدین کے دور میں بھی مسلسل قاضی اور جج کے فرائض سرانجام دئیے۔ آپ سب سے اچھے قاضی تھے اور بطور قاضی آپ کے فیصلے اور فراست و بصیرت حیران کن تھی۔

رسول اللہ ﷺ کے ابتدائی زمانے میں شراب نوشی کی کوئی طے شدہ اور متعین سزا نہیں تھی، بعد میں آپ ﷺ نے کچھ لوگوں کو چالیس کوڑوں کی سزا بھی دی، جس پر حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دور میں عمل ہوتا رہا۔ پھر ایک مرحلہ آیا کہ حضرت عمر ؓ نے محسوس کیا کہ شراب نوشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، انہوں نے یہ صورت حال کبار صحابہ کرام ؓ کے سامنے رکھ کر شراب نوشی کی سزا میں اضافے کی تجویز پیش کی۔

اس پر بحث مباحثہ ہوا اور بالآخر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رائے کے مطابق فیصلہ ہوا۔ حضرت علیؓ کا طرزِ استدلال یہ تھا کہ مے نوشی ایسا عمل ہے جس سے انسان کا شعور واحساس ختم ہو جاتا ہے اور وہ ہذیان بکنا شروع کر دیتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہذیان بکنے کی صورت میں وہ ایسے الفاظ بھی کہہ دے جو قذف ( تہمت) کے ہوں، اس لیے قرآن مجید میں بیان کردہ قذف کی سزا ( اسی کوڑے) کو جرم مے نوشی کی سزا بھی متعین کر دیا جائے۔ تمام صحابہ کرامؓ نے حضرت علیؓ کے استدلال کو قبول کیا اور حضرت عمرؓ نے شراب نوشی کی حد اسی کوڑے مقرر کر دی۔

صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک عورت، جس کا شوہر مفقود الخبر تھا اور اس کے ہاں لوگوں کی آمدورفت رہتی تھی کو بلا بھیجا۔ قاصد نے عورت سے جا کر کہا کہ چل کر حضرت عمرؓ کو جواب دو۔ جب وہ چلی تو خوف و گھبراہٹ سے راستے میں ہی اسے دردِ زہ شروع ہوا اور وہ ایک گھر میں داخل ہو گئی، جہاں اس نے بچے کو جنم دیا جو پیدا ہوتے ساتھ ہی مر گیا۔

حضرت عمر ؓ نے اس معاملے پر اصحابِ رسول کے ساتھ مشاورت کی۔ بعض نے کہا کہ آپ پر دیت نہیں ہے کیونکہ آپ نے نظام درست رکھنے اور ادب سکھانے کی نیت سے عورت کو طلب کیا تھا۔ حضرت علیؓ اس سارے عمل میں خاموش تھے، حضرت عمرؓ نے آپ کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے فرمایا:

اگر ان حضرات نے صحیح رائے پیش کی ہے تو ان کی رائے غلط ہے اور اگر آپ کی رضامندی کے لیے ایسا کہا تو آپ کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس کا خون بہا آپ کے اوپر ہے کیونکہ آپ ہی کی وجہ سے خوفزدہ ہو کر اس نے بچہ جن دیا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ بچے کا خون بہا اس کی قوم میں تقسیم کر دیا جائے۔

محدثین بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی مجلسِ مشاورت میں حضرت علیؓ کا مقام و مرتبہ یہ تھا کی جب سب لوگ رائے دے چکتے تو حضرت عمرؓ آخر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھتے کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ اور جب حضرت علیؓ اپنی رائے کا اظہار فرماتے تو عام طور پر حضرت عمرؓ یہ کہہ کر اسی کے مطابق فیصلہ کر دیتے کہ میری بھی یہی رائے ہے۔

ایک بار کوئی مشکل مسئلہ درپیش تھا جو حل ہونے کی طرف نہیں جا رہا تھا جبکہ حضرت علیؓ مجلس میں موجود نہ تھے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا : ” قضیہ درپیش ہے مگر اس کے لیے ابو الحسن موجود ہیں۔“ یہ جملہ ایسا مشہور ہوا کہ ضرب المثل اور محاورہ کی شکل اختیار کر گیا۔

امام طحاوی نے حضرت عمر ؓ کے ایسے بہت سے فیصلوں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مشاورت میں کیے۔ ایک شخص کو چوری کے الزام میں سیدنا عمر فاروقؓ کے پاس لایا گیا، جس کے ہاتھ پائوں کٹے ہوئے تھے، آپ نے حکم دیا کہ اس کے پائوں سے کچھ حصہ مزید کاٹ دیا جائے تو سیدنا علی ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

” جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کریں، ان کے پائوں کاٹے جائیں۔“ اس کا پائوں قطع کرنا جائز نہیں۔ اس شخص کو شرعی حکم سے کم سزا دی جائے یا اس کو زندان میں ڈال دیا جائے۔ سیدنا عمرؓ نے اس شخص کو زندان میں ڈال دیا۔

مدینہ منورہ میں ایک لڑکا گرفتار ہوا، اس نے حضرت علیؓ کو پکار کر کہا:” اے علی ابن ابی طالب! مجھے بچاو۔“ حضرت علیؓ نے پوچھا کیا ہوا؟ تو وہ کہنے لگا کہ میں بے گناہ ہوں۔ حضرت علیؓ نے واقعہ معلوم کیا کہ اس لڑکے نے اپنے مالک کو قتل کیا ہے اور قصاص میں قتل کیا جا رہا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پوچھنے پر لڑکے نے اقرار جرم کیا اور کہا ، کیوں کہ میرے مالک نے میرے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تھا تو میں نے خود کو بچانے کے لیے اسے قتل کیا اور نبی کریم ﷺ کا حکم ہے کہ جو آدمی عزت بچانے کے لیے کسی کو قتل کر دے تو اس کے بدلہ میں اس کو قتل نہیں کیا جا سکتا لیکن لڑکے کے پاس اپنی سچائی ثابت کرنے کو گواہ نہ تھا۔

حضرت علیؓ، حضرت عمر ؓ کے پاس آئے اور مقدمہ کی تفتیش اپنے ذمہ لے لی۔ تفتیش کرنے کے لیے حضرت عمرؓ نے قبرستان میں مالک کی قبر کشائی کی تو قبر میں لاش نہ تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے واپس آ کر کہا کہ لڑکا سچا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے دلیل پوچھی تو فرمایا کہ میں نے حضور اکرمﷺ سے سنا ہے کہ جو آدمی لڑکوں سے برائی کرنے کا ارادہ کرتا ہے، جب اس کا انتقال ہو جاتا ہے اور اس کو قبر میں ڈالا جاتا ہے تو اس کی لاش کو اٹھا کر قوم لوط کے قبرستان میں بھیج دیا جاتا ہے، تو اس لیے جب ہم نے اس کی قبر کھودی تو اندر لاش نہیں تھی۔ اس شک کا فائدہ دیتے ہوئے اس لڑکے کو بری کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ نے فرمایا :
” لولا علی لھلک عمر “ ۔ ترجمہ :”اگر آج علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔“

ایک بار تین آدمیوں میں سترہ اونٹوں کی تقسیم پر جھگڑا ہونے لگا، ہر آدمی کی خواہش تھی کہ بغیر کاٹے ہوئے اونٹ تقسیم ہو جائیں۔ ان اونٹوں میں ایک کا حصہ نصف تھا۔ دوسرے کا حصہ ثلث تھا اور تیسرے کا نواں حصہ تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس معاملہ لایا گیا تو حضرت علیؓ نے فیصلہ کرنے کے لیے اپنی طرف سے ایک اونٹ شامل کیا، اب اٹھارہ اونٹ ہو گئے۔ پہلے شخص کو اٹھارہ کا نصف حصہ نو اونٹ دئیے۔ دوسرے کو اٹھارہ کا ثلث حصہ چھ اونٹ دئیے اور تیسرے کو اٹھارہ کا نواں حصہ دو اونٹ دئیے۔ اس طرح سترہ اونٹ ان لوگوں میں برابر تقسیم کیے اور اپنا شامل اونٹ واپس لے لیا۔

جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ملعون ابن ملجم نے حملہ کیا اور آپ کو زخمی کر دیا، اس وقت جب آپ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے، ابن ملجم گرفتار کیا جا چکا تھا۔ آپؓ نے اس حال میں بھی اپنے صاحبزادے حضرت حسن ؓ کو تلقین کی کہ ابھی اسے کچھ نہ کہا جائے اور نہ کوئی اذیت دی جائے، اس لیے کہ میں ابھی زندہ ہوں۔ اگر زندہ رہا تو یہ فیصلہ میں خود کروں گا کہ اسے معاف کرنا ہے یا سزا دینی ہے لیکن اگر ان زخموں سے میں شہید ہو گیا تو پھر تمہیں اس سے قصاص لینے کا حق حاصل ہوگا۔

اس طرح اس حالت میں بھی جناب علی کرم اللہ وجہہ نے قانون اور عدل کی ایسی مثال پیش کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ حضرات صحابہ کرام ہوں، خلفائے راشدین ہوں، ان سب کی مبارک زندگیوں کے ایک ایک گوشے سے سیکھنے اور عمل کرنے کو ان گنت نمونے ملتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں