کرونا وائرس، ماسک پہنے ہوئے خاتون

کرونا وائرس: پھیلی ہوئی چند غلط باتوں سے خبردار رہئیے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آمنہ اسلام:
نئے کرونا وائرس کے حوالے سے بعض غلط خیالات عام ہیں۔ وبا کے دنوں میں غلط خیالات سے محفوظ رہنے اور درست نظریات پر کاربند رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذیل میں ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن(عالمی ادارہ صحت) کی ہدایات کی روشنی میں ایسے غلط خیالات کا ابطال کیا جارہاہے:

٭کرونا وائرس گرم اور معتدل علاقوں میں بھی پھیل سکتاہے
اب تک ملنے والی تمام گواہیوں سے معلوم ہوا ہے کہ کرونا 19وائرس تمام علاقوں میں پھیل سکتاہے بشمول گرم اور معتدل علاقوں کے۔ اگر آپ ان علاقوں میں سفر کررہے ہیں جن میں کرونا وائرس کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں، اور وہ علاقے گرم مرطوب بھی ہیں، تب بھی آپ کو حفاظتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وائرس سے بچنے کے لئے سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں۔ یوں یہ جراثیم آپ کے ہاتھوں ہی میں ختم ہوجائیں گے اور بعد میں آپ کے منہ اور ناک کے ذریعے آپ کو متاثر نہیں کریں گے۔

٭ ٹھنڈا موسم اور برف کرونا وائرس کے جراثیم کو نہیں مارسکتے
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ٹھنڈا موسم اور برف اس کرونا وائرس کے جراثیم کو ختم کرسکتے ہیں۔ ایک نارمل انسان کے جسم کا درجہ حرارت 36.5 سے37 سنٹی گریڈ کے درمیان رہتاہے، چاہے باہر کا درجہ حرارت کچھ بھی ہو۔اس تناظر میں ان جراثیم سے بچاؤ کا سب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ آپ تواتر سے الکوحل سے بنے کسی ہینڈ سینی ٹائزر سے دھوئیں یا پھر کسی اچھے اینٹی بیکٹیریل صابن سے اپنے ہاتھوں کی اچھی طرح سے صفائی کریں۔

٭گرم پانی کی مدد سے جراثیم سے حفاظت
آج کل عوام میں یہ بات گردش کررہی ہے کہ گرم پانی سے غسل کرنے سے جسم پر موجود نئے کرونا وائرس کیجراثیم ختم ہوجاتے ہیں۔ انسان کا درجہ حرارت 36.5 سے 37 سنٹی گریڈ رہتاہے، آپ کسی بھی درجہ حرارت کے پانی سے نہائیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں! بہت زیادہ گرم پانی سے آپ کا جسم جل سکتاہے۔ ان جراثیم سے بچنے کا سب سے آسان اور اچھا طریقہ اپنے ہاتھوں کو تواتر کے ساتھ کسی اچھے اینٹی بیکٹیریل صابن یا لیکوڈ سے دھوئیں اور اپنے منہ، ناک، آنکھوں کو بار بار چھونے سے گریز کریں۔

٭مچھر کا کاٹنا اور کرونا وائرس
ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے پتہ چل سکے کہ یہ وائرس مچھر کے کاٹنے سے بھی پھیل سکتاہے۔ ہاں! یہ وائرس کھانسی کرنے یا چھینکنے سے ناک یا منہ سے نکلنے والے مواد سے بہت تیزی سے پھیلتاہے چنانچہ کھانسی کرنے والے یا چھینکنے والے افراد سے فاصلہ رکھیں تاکہ اس نئے کرونا وائرس سے محفوظ رہ سکیں۔

٭ کیا ہینڈ ڈرائر کرونا وائرس کے جراثیم کو ہلاک کرتاہے؟
ہینڈ ڈرائر ان جراثیم کو ختم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ ان جراثیم سے بچنے کا ایک اور واحد حل یہی ہے کہ اپنے ہاتھوں کو تواتر کے ساتھ کسی اچھے اینٹی بیکٹیریل صابن یا لیکوڈ سے دھونے کے بعد کسی ٹشو پیپر یا پیپرٹاول سے یا گرم ہینڈ ڈرائر سے خشک کریں۔

٭ کیا الٹرا وائلٹ ڈس انفیکشن لیمپ کرونا وائرس کے جراثیم کو ماردیتا ہے؟
عوام میں یہ تاثر بھی ہے کہ الٹرا وائلٹ ڈس انفیکشن لیمپ کرونا کے جراثیم کو قتل کرنے میں کردار ادا کرسکتاہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے، اس سے آپ کی جلد متاثر ہوسکتی ہے۔ آپ کی جلد جلن کا شکار بھی ہوسکتی ہے یہ نہ ہو کہ آپ اس الٹرا وائلٹ ڈس انفیکشن لیمپ سے ان جراثیم کو تلف کرتے ہوئے اپنی جلد ہی کو متاثر کربیٹھیں۔

٭ کیا تھرمل سکینرکرونا وائرس کے متاثرین کو پہچان سکتاہے؟
تھرمل سکینر سے انسان کے جسم کے درجہ حرارت کی نوعیت کا پتہ چلایاجاسکتا ہے کہ نارمل درجہ حرارت کتنا زیادہ ہے۔ نئے کرونا وائرس کے جراثیم سے متاثرہ افراد کا درجہ حرارت عام درجہ حرارت سے بہت زیادہ بڑھ جاتاہے۔ کرونا وائرس کے متاثرہ فرد میں اس مرض کی مکمل نشان دہی ہونے میں دو سے

دس دن لگ سکتے ہیں۔
تاہم تھرمل سکینر ان افراد کی نشان دہی نہیں کرسکتا جو اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہوں لیکن وہ بخار میں مبتلا نہ ہوئے ہوں، دوسرے الفاظ میں جن افراد کے جسم کا درجہ حرارت معمول سے بہت زیادہ ہوچکا ہو۔ یادرہے کہ کرونا وائرس کے شکار فرد کا درجہ حرارت معمول سے بہت زیادہ ہونے میں دو سے دس دن لگ جاتے ہیں۔

٭ الکوحل اور کلورین پورے جسم پر چھڑکنے سے کرونا وائرس مرجاتاہے؟
نہیں، الکوحل اور کلورین پورے جسم پر چھڑکنے سی ایساکرونا وائرس نہیں مرتا جو آپ کے جسم میں داخل ہوچکا ہو۔ ایسی چیزوں کے چھڑکاؤ سے نہ صرف انسان کی آنکھوں اور منہ سمیت دیگر اعضا کو نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ کپڑوں کو بھی۔ خبردار رہئیے کہ الکوحل اور کلورین جیسی چیزیں صرف وہاں استعمال ہوسکتی ہیں جہاں انفیکشن ہونے کا اندیشہ نہ ہو، تب بھی ماہرین سیمشاورت ضروری ہے۔

٭نمونیا کی ویکسین کرونا وائرس سے بچاسکتی ہے؟
نہیں، نمونیا کی ویکسینز اس نئے وائرس کے خلاف تحفظ فراہم نہیں کرسکتیں۔ یہ وائرس مکمل طور پر نیا اور مختلف ہے، اس کے لئے الگ ویکسین کی ضرورت ہوگی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(عالمی ادارہ صحت) کے تعاون سے ریسرچرز اس کے لئے ویکسین بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔اگرچہ نمونیاکے خلاف استعمال ہونے والی ویکسینز اس بیماری کے لئے کارآمد نہیں ہوسکتیں تاہم سانس کی بیماریوں کے لئے تیار کی جانے والی ویکیسن آپ کو کسی حد تک صحت مند رکھ سکتی ہے۔

٭ کیا ناک کی باقاعدہ صفائی سے نئے کرونا وائرس سے بچاؤ ہوسکتاہے؟
اس بات کی بھی کوئی گواہی موجود نہیں ہے کہ ناک کی باقاعدہ صفائی سے کرونا وائرس سے محفوظ رہاجاسکتاہے۔ ہاں! اس بات کو مانا جاسکتاہے کہ اس طرح ناک کی صفائی کرنے سے عام طور پر لگنے والی ٹھنڈ سے جلدی صحت یابی ہوجاتی ہے لیکن اس مرض کے لیے اس کا کوئی فائدہ سامنے نہیں آیا۔

٭لہسن کا استعمال اور کرونا وائرس
لہسن ایک صحت مند غذا ہے جس میں کچھ اینٹی مائیکروبیل صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں جو ہماری صحت میں اہم اور اچھا کردار ادا کرتی ہیں۔ تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ لہسن کا استعمال کرونا وائرس سے حفاظت کا باعث بنتاہے۔

٭کیا کرونا وائرس بزرگوں پر ہی اثرانداز ہوتاہے یا نوجوان بھی متاثر ہوسکتے ہیں؟
نئے کرونا وائرس سے ہرعمر کے لوگ متاثر ہوسکتے ہیں، بوڑھے لوگ، بالخصوص جو سانس کی بیماریوں، ذیابیطس اور امراض قلب میں مبتلا ہوں، جلدی متاثر ہوسکتے ہیں۔ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن (عالمی ادارہ صحت) ہدایت کرتی ہے کہ ہرعمر کے افراد کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اس وائرس سے بچائیں۔ بالخصوص ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں اور صاف رکھیں، اسی طرح کھانسی یا چھینک کی صورت میں محفوظ اندازمیں صفائی کا اہتمام کریں۔

٭کیااینٹی بائیوٹکس کرونا وائرس سے بچنے یا علاج کے لئے موثر ثابت ہورہی ہیں؟
نہیں، اینٹی بائیوٹکس اس وائرس کے خلاف کارآمد ثابت نہیں ہورہی ہیں، وہ صرف بیکٹیریا کے خلاف کام کرتی ہے۔ نیا کرونا وائرس ایک وائرس ہے، اس سے بچاؤ یا علاج کے لئے اینٹی بائیوٹکس استعمال نہیں ہورہی ہیں۔ تاہم اگرکوئی اس وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں داخل ہوچکاہے، اسے اینٹی بائیوٹکس دی جاسکتی ہیں تاکہ کوئی اور انفیکشن نہ ہو۔

٭کیا کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے کوئی خاص دوا یا علاج موجود ہے؟
اب تک کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے کوئی خاص دوا یا علاج موجود نہیں ہے۔ تاہم جو لوگ اس وائرس سے متاثر ہوجائیں، انھیں چاہئے کہ وہ اس کی علامات کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور جو لوگ زیادہ متاثر ہوجائیں، وہ خصوصی نگہداشت سے مستفید ہوں۔ اس وائرس کے لئے بعض دواؤں پر تحقیق کی جارہی ہے، وہ طبی تجربات کے بعد ہی منظرعام پر لائی جائیں گی۔ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن(عالمی ادارہ صحت) اس وائرس کے علاج کے بارے میں ریسرچ کو تیز کرنے میں مختلف ذرائع سے مدد دے رہی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں