وازوان، روایتی کشمیری ڈش

کشمیر کو جانیے ( حصہ دوم )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سید امجد حسین بخاری :

پہلے یہ پڑھیے :

کشمیر کو جانیے( حصہ اول)

کشمیر کو آپ ندیوں ، دریاؤں ، آبشاروں اور جھرنوں کی وجہ سے جانتے ہیں ، لیکن یہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پانی سے محروم ہے ، پہاڑوں پر گھر ہونے کے باعث زیر زمین پانی نہیں ہوتا ، مرد و خواتین کئی کئی میل نیچے پہاڑ سے اتر کر پانی بھرنے جاتے ہیں، پانی کے چشمے کشمیری سیاست اور ثقافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔

کشمیر کی سیاست آج بھی ٹونٹی (نلکا) ، ٹرانسفر اور تقرری کی مثلث کے گرد گھومتی ہے ، کالا پائپ اور سفید ٹینکی ووٹرز رجحان بدلنے کا باعث بنتی ہیں مگر آج بھی کشمیر کے درجنوں دیہات پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔

صبح اور شام کے اوقات میں عموماً پانی کے چشموں پر خواتین کا رش لگا رہتا ہے ، سارے دن کو داستان اور رات کے ٹاک شوز کی کہانیاں خواتین انہی چشموں پر ایک دوسرے کو سناتی ہیں ، انہی چشموں پر طلاق ، خلع اور شادی بیاہ کے معاملات طے پاتے ہیں ،

جس لڑکی کی گاگر پہلے بھر گئی تو جان لیجئے اس کا رشتہ پکا ہوجائے گا کیونکہ دوشیزاؤں کے ساتھ دو تین خواتین بھی چیتے کی نگاہ ان پر رکھے ہوتی ہیں ، اسی طرح اگر کوئی لڑکا کسی تھکی ہوئی لڑکی کی گاگر اٹھانے میں مدد کردے تو دونوں کے چکر کی داستان اسی چشمے کا ہاٹ ٹاپک بن جاتی ہے۔ لڑکیاں اپنی سہیلی کو اس لڑکے کا نام لے کر چھیڑتی ہیں ،

کشمیر کے چشموں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر کوئی وی وی آئی پی پروٹوکول نہیں ہوتا ، ہر عورت اور مرد گریڈ ون سے ایٹین تک یہاں اپنی گاگر خود اٹھاتے ہیں ، خود ہی بھرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ کشمیری مرد و خواتین جفاکش اور ہمت والے ہوتے ہیں۔

سب سے اہم بات میں نے اپنے سر پر کم ازکم دس سال تک پانی اٹھایا ہے ، اس کا اثر آپ کے سامنے ہے ، اور ہاں میری پہلی محبت کا آغاز پانی کے چشمے سے ہوا تھا جو کہ واٹر سپلائی سکیم مکمل ہونے پر ختم ہوگئی تھی۔

ایک اور بات میرا پہلا افسانہ اور غزل بھی پانی کے چشموں پر قائم رشتوں کے تناظر میں تھے جو کہ بھلے وقتوں میں حکایت ڈائجسٹ میں شائع ہوئے تھے ، لیکن پانی کی گاگروں نے دماغ پر دباؤ بڑھا دیا جس کے بعد شاعری اور افسانہ نگاری ترک کردی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔

کشمیری دسترخوان اپنی لذت اور ذائقے کے اعتبار سے برصغیر پاک وہند میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ 1947 سے قبل کشمیری کھانے برصغیر کے طول و عرض میں پسند کئے جاتے تھے، مگر تقسیم نے کشمیر ذائقوں کو پابند سلاسل کردیا ہے ۔

کشمیری ذائقوں میں ایران اور وسط ایشیا کے پکوانوں کا اثر پایا جاتا ہے ۔ کشمیر کا ایک اہم کھانا وازوان ہوتا ہے ۔کشمیری زبان میں واز پکانے جبکہ وان دکان کو کہا جاتا ہے، اسی طرح وازا کھانا پکانے والے کو کہا جاتا ہے۔

کھانے کی دکان یا وازوان دراصل تانبے کی تھالی میں 7سے 30 مختلف ڈشوں سے سجایا گیا کھانا ہوتا ہے ، اسے عرف عام میں کشمیری بفے بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ڈشیں چاول کے علاوہ مٹن، بیف اور مرغ کے گوشت، یخنی اور شوربہ ہوتی ہیں۔ وزوان کی تیاری کے دوران گھر کے تمام افراد مل کر کھانا تیار کرتے ہیں ، گائے کے گوشت کے مختلف پکوان تیار کئے جاتے ہیں ،

ساتھ ہی لوک موسیقی سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے ۔ اس ویڈیو میں کوشش کی ہے کہ کشمیری وازوان کی داستان محبت آپ تک پہنچائی جائے۔ وازوان دراصل سمرقند اور بخارا سے انے والے افراد اپنے ساتھ لائے تھے۔ وازوان کلچر کشمیر کے ہر گھر میں پایا جاتا ہے۔ یعنی جو کشمیری ہے وہ وازا ہے۔
اس لئے دوستو! سلام وازوان ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشمیر کی ایک بڑی آبادی مکئی کی روٹی کھاتی ہے، ریاست کے بیشتر علاقوں خصوصاً جنوبی کشمیر ، نیلم ، حویلی ، جہلم ویلی اور پونچھ میں دوپہر کے کھانے میں سبزی، مکئی کی روٹی ،چٹنی اور لسی استعمال ہوتی ہے ، رات کے کھانے میں کم و بیش ہر گھر میں چاول کھائے جاتے ہیں۔

مکئی کی روٹی انتہائی باریک ہوتی ہے اور پنجاب میں گندم کی روٹی کے برابر اس کا وزن ہوتا ہے ۔ پکانے کا طریقہ انتہائی مشکل ہوتا ہے ، مکئی کا آٹا چھان کر ہر پیڑے کو الگ سے گوندھا جاتا ہے ، اس کے بعد پیڑے کو روٹی انتہائی نرمی کے ساتھ روٹی کی شکل دی جاتی ہے ، روٹی کو توے پر پکایا جاتا ہے ،

تین سے پانچ منٹ تک روٹی توے پر رہتی ہے ، پھر اس روٹی کو اتار کر چولہے میں رکھا جاتا ہے ، دو منٹ چولہے میں رکھنے کے بعد روٹی مکمل تیار ہوجاتی ہے ۔ مکئی کی روٹی پکنے کے پانچ سے چھے گھنٹے کے بعد دہی میں چوری بنا کر کھائی جائے تو کھانے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں