کمون طریقہ تعلیم کا ٹیسٹ

کمون:بچوں کی تعلیمی استعداد تیز کرنے کاحیران کن موثراورآسان طریقہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زبیدہ روف۔۔۔۔۔۔۔
مجبوری اور محبت ایسے راستے تلاش کرتی ہے جو بہت سارے لوگوں کی منزلیں آسان کر دیتے ہیں۔ 1958 میں جاپان کے ایک شخص ” تورو کمون ” نے اپنے بیٹے” تاکشی” کی محبت میں ایسا طریقہ تعلیم ایجاد کیا جس میں آج 4 ملین سے زیادہ بچے رجسٹرڈ ہیں۔

تورو جاپان کے شہر” اوساکا” کے ہائی سکول میں ریاضی کا استاد تھا۔ اس کے بیٹے”اتا کشی” کا دوسری کلاس میں ریاضی کا نتیجہ بہت بُرا آیا ۔ ‘تورو’ نے اپنے بیٹے کی ذہنی استعداد اور ریاضی کی کتاب پر غور کرنا شروع کیا تاکہ مسئلے کی جڑ تک پہنچ سکے۔

اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کے بیٹے کی کتاب میں دیۓ گئے سوالوں کو حل کرنے کی پریکٹس کم ہونے کی وجہ سے اس کی ان کے حل پر گرفت کمزور ہے۔ اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ خود اپنے بیٹے کے لئے اس کی ذہنی سطح کے مطابق سوال بنانے شروع کردئیے۔

تورو ایسے سوالات کی ان گنت شیٹس تیار کرتا جن میں سوالات کو الٹا پلٹا کر لکھا جاتا اور تاکشی روزانہ ان سوالوں کو حل کرنے کی پریکٹس کرتا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاکشی چھ سال کی عمر میں ہائی سکول کے کیلکلس کے سوال آسانی سے حل کرلیتا تھا ۔ آہستہ آہستہ محلے کے دوسرے والدین نے بھی اپنے بچوں کے لئے ایسے سوالات کی شیٹس مانگنا شروع کردیں،اس طرح کمون طریقہ تعلیم کی بنیاد پڑ گئی۔ اور آج یورپ اور امریکہ میں ہزاروں کی تعداد میں یہ سینٹر کھل چکے ہیں اور لاکھوں بچے ان میں پڑھ رہے ہیں۔

کمون سینٹر میں بچے کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے،اس بات سے قطع نظر کہ بچہ کس کلاس میں ہے اور کتنا نالائق یا لائق ہے ۔ وہ سینٹر کے تیار کردہ سوالات کو ایک مقررہ وقت میں حل کرتا ہے اور اس کے مطابق اسے داخل کرلیا جاتا ہے۔

سکول میں پانچویں جماعت کا بچہ دوسری کلاس کے کمون کی ریاضی کے دوسرے درجے میں بھی بیٹھ سکتا ہے اور آٹھویں کی ریاضی کی سطح کے سوال بھی حل کرنے کو دئیے جا سکتے ہیں۔

کمون سینٹر بس چند منٹ میں بچے کے دماغی لیول کی جانچ کے بعد اس کے والدین کو اسے متعلقہ لیول کی ریاضی کروانا تجویز کردیتا ہے۔

خود میرے بچے کو کمون میں سکول سے ایک سال پیچھے داخل کیا گیا تھا،لیکن ساتھ ہی کمون سینٹر کی سربراہ نے مجھے تسلی دی کہ بچے کی سوال حل کرنے کی رفتار اور سمجھنے کی صلاحیت میں بہتری آتے ہی اسے ایک اور ٹیسٹ دیا جائے گا اور بہت جلد یہ سکول کے لیول پر آ جاۓ گا۔

کمون میں اصل چیز وقت کا حساب ہے یعنی بچہ دو جمع دو چار پر کتنی دیر لگا کر سوچتا ہے ایک سیکنڈ یا ایک منٹ؟ جونہی اس کے سوچنے کی رفتار ترقی کرتی ہے اس کے سوال مشکل ہوتے جاتے ہیں ۔

ابتدائی طور پر یہ پہاڑوں یعنی ٹیبلز کو یاد کرنے کا جدید اور تیز طریقہ ہے، جس میں
آگے جا کر الجبرا اور جیو میٹری بھی شامل ہوجاتی ہے۔ مصروف والدین کے لئے یہ سہولت ہے کہ ان سینٹرز میں روزانہ بچوں کو نہیں لے جانا پڑتا۔

گھر میں بچہ کلاک سے ٹائم نوٹ کر کے شیٹ پر لکھتا ہے اور سوال حل کرنا شروع کرتا ہے ۔ ہفتے میں دو بار وہ سنٹر جا کر اپنی حل شدہ شیٹس دے کر نئی شیٹس لے آتا ہے۔ کم سے کم وقت میں زیادہ صحیح جوابات ہی بچے کی ترقی کاتعین کرتے ہیں ۔

پاکستان میں یہ سینٹر نہیں ہیں لیکن والدین بہ آسانی ایسی پریکٹس شیٹس تیار کرسکتے ہیں جو بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق ہوں۔ مثال کے طور پر اگر بچے کا ذہنی لیول ریاضی میں دوسری کلاس کا ہے تو اکائی کے سو سوال لکھ کر جن میں 1 + 1 سے لے کر 4 + 5 یا 6 + 6 جیسے سوال رقوم کو پلٹ پلٹ کر تیار کئے گئے ہوں،

بچے کو وہ پرچہ حل کرنے کو کہا جائے لیکن کلاک پر ٹائم ضرور نوٹ کیا جائے کہ بچہ ان سوالات کو کتنی دیر میں حل کرتا ہے ۔ ہر روز آدھ گھنٹہ یا بیس منٹ کی پریکٹس سے چند دن میں اکائی کے لیول کے سوال بچہ چند سیکنڈ یا ایک صفحہ ایک منٹ میں حل کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ آہستہ آہستہ ان سوالات میں بڑے ہند سے شامل کرتے جائیں لیکن اصل مقابلہ وقت اور ذہن کی رفتار کا ہونا چاہئے۔

یورپ اور امریکہ میں بہت سارے ٹیسٹ مشکل نہیں ہوتے صرف ان کو کرنے کے لئے وقت کم ہوتا ہے ۔ اکثر ملازمتوں کے لکھائی کے ٹیسٹ میں عام سے سوال شامل ہوتے ہیں جن کو حل کرنے کے لئے بہت محدود وقت دیا جاتا ہے۔

اس کا مقصد انہیں کسی کا ریاضی کا ٹیسٹ لینا نہیں ہوتا بلکہ دماغ کی تیزی چیک کرنا ہوتا ہے۔ اور زبانی انٹرویو میں بھی دو مختلف صورتحال بتا کر یہ پوچھا جاتا ہے کہ تم کیا کرو گے؟

مثلاً کسٹمر سروس میں پہلے فون اٹھاؤ گے یا سامنے کھڑے بوڑھے کی مدد کرو گے؟ اس کا مقصد کسی کی قوت فیصلہ اور فوری کاروائی کی استعداد جانچناہوتا ہے۔ گویا کامیاب وہی ہے جو جتنا وقت کو مات دے سکے۔

اسی طرح آپ اگر چھوٹے بچوں کے والدین ہیں تو بہت مہنگی ٹیوشن کی بجاۓ کمون طریقے کی شیٹس تیار کرکے اپنے بچے کو ریاضی اور انگلش میں لائق کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ انگریزی کے لئے بھی سپیلنگ کی دہرائی کو ذہن میں رکھ کر شیٹس تیار کی جاسکتی ہیں۔

پہلے صرف تین سپیلنگ کے سو پچاس الفاظ استعمال کئے جائیں پھر چار اور پانچ سپیلنگ کا اضافہ کرتے جائیں، ہرچند کالمز کے بعد ایک کالم ایسا تیار کریں جس میں خالی سپیلنگ بچہ خود لکھے گا مثلاً
Cat, bat, rat, hat, c―t, ba―, —at, h―t,
اس طرح روزانہ پریکٹس سے بچے کی پڑھائی کی بنیاد بہت مضبوط ہوجائے گی۔

چند امریکی ماہرین تعلیم نے اس طریقہ تعلیم پر اعتراضات بھی کئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر روز کمون سینٹرز میں بچوں کے داخلے کی شرح بڑھ رہی ہے اور یورپ کے بہت سارے سکول بھی بچوں کو اسی طریقہ یعنی "دہرائی بذریعہ لکھائی” کے ذریعے پڑھا رہے ہیں۔ اور مجموعی طور پر اسے آسان اور کارآمد طریقہ تعلیم سمجھا جارہا ہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں