زلاتا فلپووچ کی ڈائری

زلاتا فلپووچ کی ڈائری

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد خالد اختر

دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد شاید دنیا کا سب سے ہولناک ہون بوسنیا ہرزیگو وینا میں ہوا۔ ایک ایسا عالم گیر قتلِ عام جس کی رودادیں پڑھ کر دل دہل جاتے ہیں۔ اس آفت میں لاکھوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوئے اور یہ سفاکانہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ سرائیوو جیسا حسین شہر مسلسل گولہ باری سے تباہ ہو گیا، لیکن اس کے بہادر شہریوں کے حوصلے نہیں ٹوٹے۔

دوسری جنگِ عظیم نے دنیا کو ایک یہودی بچی این فرینک کی ڈائری دی تھی جو این اور اس کے کنبے کے نازی بربریت کا شکار ہونے کے بعد چھپی اور جسے بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ سرائیوو کی بپتا نے ایک اور این فرینک پیدا کی۔ زلاتا فلپووِچ، اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی، جو ان کے ساتھ سرائیوو میں رہتی تھی۔

اس کی قسمت این فرینک سے اچھی رہی کہ وہ اور اس کے ماں باپ اس ہلاکت خیزی سے بچ نکلے۔ زلاتا کی ڈائری سب سے پہلے 1993میں فرانس میں چھپی، اور اس کے چند روز بعد اسے اور اس کے والدین کو فرانس جانے کی اجازت مل گئی ۔

زلاتا نے اپنی گیارھویں سالگرہ سے کچھ پہلے یہ ڈائری لکھنی شروع کی تھی۔ اس میں وہ اپنی زندگی، اپنے دوستوں اور اپنے کنبے کے بارے میں لکھا کرتی تھی۔ اس کے مشاغل وہی تھے، جو بیشتر چھوٹی لڑکیوں کے ہوتے ہیں۔ اپنی سہیلیوں کی برتھ ڈے پارٹیوں میں جانا ، ناچنا ، پیانو سیکھنا۔ وہ ایسی باتیں سوچا کرتی کہ مائیکل جیکسن سے آٹوگراف کیسے لیا جائے؟ کپڑوں کے نئے فیشن کیا ہیں؟ پیانو بجانے میں مہارت کس طرح پیدا کی جائے؟

جب سرائیوو میں قتل و غارت گری شروع ہوئی تو اس کے دوست شہر چھوڑ چھوڑ کر جانے لگے۔ سرائیوو میں نہ بجلی ہے نہ پانی، نہ گیس، نہ کچھ کھانے کو۔ زلاتا کے بچپن پر اداسی کے بادل چھا جاتے ہیں، اس کی معصوم خوشیاں گھٹ کر رہ جاتی ہیں۔ زلاتا کی واحد ہمراز، اصل سہیلی اب ”میمی“ ہے، یعنی اس کی ڈائری۔ (این فرینک نے اپنی ڈائری کا نام ”کِٹی“ رکھا تھا اور شاید ڈائری کا نام رکھنے کا خیال زلاتا کو این کی ڈائری سے سوجھا۔)

زلاتا کی ڈائری جنگ زدہ سرائیوو کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے لے آتی ہے۔ یہ ہمارے دل کو اس طرح چھوتی ہے کہ یہ اثر جرنلزم کے بس کی بات نہیں۔ ایک شوخ، کھلنڈری، ذہین لڑکی آہستہ آہستہ سرائیووکے مرکزی محلے میں اپنے اپارٹمنٹ میں قید ہو کر رہ جاتی ہے۔اس کے کنبے کو اپنا زیادہ تر وقت اپنے ہمسایوں کے ساتھ گزارنا پڑتا ہے۔ اس کا باپ جو وکیل ہے اب اپنا وکالت کا کام نہیں کر سکتا۔ اس کی ماں، جو کیمسٹ ہے، غم اور مایوسی سے وہ پہلے کی سی ہنس مکھ عورت نہیں رہتی۔ باہر کا خطرہ اس کی مصروف، پُر مسرت زندگی کا ستیاناس کر دیتا ہے۔

جنگ ان جگہوں کو جن سے زلاتا محبت کرتی ہے، مسمار کر دیتی ہے۔ اس کے دوست زخمی یا ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس کی پالتو نغمہ ریز مینا (canary) چچکو، اور بلی چیچی بھی نہیں بچ پاتے۔ پھر بھی زلاتا ہمت اور بہادری سے اپنے پہلے کے شوق اور مشاغل قائم رکھنے کے جتن کرتی ہے۔ وہ پیانو کے سبق لینا ترک نہیں کرتی، نہ ہی کتابیں پڑھنا، نہ ہم جولیوں کی سالگرہیں منانا۔ اس کی مزاح کی حس بھی اُس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ اور وہ اپنی ڈائری میمی کو روز کے ہونے والے واقعات، اپنے دل کے احساسات لکھتی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “زلاتا فلپووچ کی ڈائری”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    تحریر بہت اچھی ھے ، لیکن اگر آپ یہ ذکر کر دیتے کہ یہ انگلش اور اردو میں دستیاب ہے ؟ تو اچھا ھوتا