کتابیں الماری میں

میرے پاس کچھ بھی تو نہیں میرا اپنا ( دوسرا اورآخری حصہ )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں

پہلے یہ پڑھیے
میرے پاس کچھ بھی تو نہیں میرا اپنا ( پہلا حصہ )

جب چھ یا سات سال کی عمر میں سب سے چھوٹے بھائی کی ٹانگ فریکچر ہوئی ، تب بھی ہم بہن بھائی باری باری اسے محظوظ کرنے کو کسی نہ کسی کتاب سے کچھ پڑھ کر سنایا کرتے تھے . مجھے یاد ہے میں اسے شہاب نامہ کے وہ ابواب سنایا کرتی ، جن میں قدرت اللہ شہاب نے غیر مرئی مخلوق کے حوالے سے اپنے کچھ تجربات بیان کیے تھے اور بھائی جان رات کو اسے اکثر بچوں کا باغ اور بچوں کی دنیا سے شہزادوں والی کہانیاں سنایا کرتے.

ابتدائی عمر سے ہی ہماری سب سے بڑی تفریح کہانیاں پڑھنا، سننا اور سنانا قرار پائی، اب بھی میں اور چھوٹا بھائی ہر نئی آنے والی کتاب کو ڈسکس کرتے ہیں ، اپنی اپنی پسند کی کتب خریدتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ذخیرہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں،

کتاب بینی کی عادت آپ نے بچپن سے ہی اس قدر پختہ کر دی کہ اب مجھے رات کو کتاب پڑھے بغیر نیند نہیں آتی ، اور میں اکثر سوچتی ہوں جو لوگ پڑھنے کے عادی نہیں ہیں، ان کی زندگی کیسے گزرتی ہے ، جب میں فرسٹ ائیر میں آئی تو عادت کے مطابق سب سے پہلے اردو کی کتاب منگوائی ( مجھے اگلی کلاس میں جانے کی ایک خوشی یہ بھی ہوتی تھی کہ اردو کی نئی کتاب میں نئی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی)،

اس کتاب سے بہادر خان کی سرگزشت ، گھر سے گھر تک اور پطرس بخاری کی سائیکل والے مضامین اور میرے سنانے کے انداز کو گھر والے آج بھی یاد کرتے ہیں . کہانی کو مکمل اتار چڑھاؤ کے سنانے کا ڈھنگ بھی مجھے آپ نے سکھایا، آپ کو یاد ہے ناں سردیوں میں کچن میں چولہے کے پاس بیٹھ کر آپ ہمیں مختلف اسلامی اور دیگر کہانیاں سنایا کرتے تھے ، مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے ایران فتح ہونے کا قصہ سناتے ہوئے جب آپ نے مسلمان لشکر کے گھوڑے دریا میں ڈال دینے کا واقعہ اور اس پر ایرانیوں کا رد عمل جس صوتی آہنگ اور تاثرات کے ساتھ بیان کیا، وہ ہمیشہ کے لیے میرے حافظے میں محفوظ ہو گیا.

اب میری سہیلیاں حیران ہوتی ہیں کہ تمہیں ناول یا کتابوں کے پورے پورے صفحات کیسے یاد رہ جاتے ہیں تو میں ہنس کر خاموش ہو جاتی ہوں کہ انہیں کیا بتاؤں ، کتابوں سے محبت تو میری گھٹی میں پڑی ہے، یہ شوق آپ کی طرف سے ہمیں وراثت میں ملا کہ ہم سب بہن بھائی پڑھنے لکھنے کے شوقین رہے ، البتہ باقیوں کی نسبت یہ شوق مجھ میں کچھ زیادہ آیا، وجہ شاید یہی ہے کہ میں آپ سے بہت قریب اور فطرتاً آپ سے کافی ملتی ہوں،

آپ کو مجھ سے لطائف سننا ، کالم اور مختلف اشعار سننا بہت اچھا لگتا تھا ، دیہات میں اخبار منگوانا بھی اپنی جگہ ایک مشکل امر تھا ، ہاکر روزانہ اڈے پر جا کر گاؤں جانے والی پہلی بس پر اخبار رکھواتا ، ایک بندے کی روزانہ کی بنیاد پر ذمہ داری ہوتی کہ وہ بس گاؤں پہنچنے پر ان سے اخبار وصول کر کے آپ کے پاس پہنچائے،

بچپن سے ہم نے جنگ اخبار گھر میں آتے دیکھا، نواز شریف حکومت کے ابتدائی ادوار میں جب ادارہ جنگ اور حکومتی اختلافات کی وجہ سے جنگ اخبار کاغذ کی بندش کی وجہ سے محض ایک صفحہ تک محدود ہو گیا، تب بھی ہمارے ہاں جنگ ہی آتا رہا، ہمارے کہنے پر کہ اب اخبار بدل لیں، آپ نے بڑی خوبصورت بات کہی جو بہت سی اور باتوں کی طرح بہت بعد میں سمجھ آئی کہ ” نہیں ! آج اگر اخبار پر مشکل وقت آیا ہے تو ہم کیسے انہیں چھوڑ دیں.”

بعد میں جب جنگ کی پالیسی تبدیل ہوئی تو آپ نے اسے منگوانا ترک کیا اور پھر ایکسپریس اب تک باقاعدگی سے ہمارے گھر میں آ رہا ہے. صرف اخبارات ہی نہیں ، آپ بچوں کے مختلف رسالے مثلاً پھول، تعلیم و تربیت، بچوں کا باغ،. بچوں کی دنیا اور نونہال بھی باقاعدگی سے ہمارے لیے منگوایا کرتے تھے اور ہم ہر ماہ کی ابتدائی تاریخوں کے شدت سے منتظر رہا کرتے تھے،

مجھے یاد ہے ایک بار سیلاب آنے پر ہماری بے چینی دیکھتے ہوئے آپ نے کشتی پر ایک بندے کو بھیج کر ہمارے لیے رسالے منگوائے تھے. صرف رسائل ہی نہیں اور بھی جو چھوٹی بڑی کہانیوں کی کتابوں کے نام ہمیں معلوم پڑتے اور ہم آپ سے منگوانے کی فرمائش کرتے، آپ نے ایسی فرمائش کبھی رد نہیں کی، ہمارے گھر میں الماریاں ہمارے رسالوں اور کہانیوں سے بھری تھیں.

یہ شوق اس حد تک ہمارے اندر بچپن سے ہی راسخ تھا کہ جب آٹھویں جماعت میں، میں سکول میں اول آئی اور بڑے بھائی جو اس ایف. سی کالج لاہور میں زیرِ تعلیم تھے، نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے انعام میں کیا چاہیے تو میں نے بغلول بہادر نامی ایک کہانی کی کتاب کی فرمائش کی، جو فیروز سنز لاہور سے شائع ہوئی تھی اور جھنگ میں دستیاب نہیں تھی، وہ میری اس فرمائش کو یاد کر کے آج تک ہنستے ہیں کہ مجھے لگا کوئی گڑیا، کھلونے لینے کو کہے گی، یہاں تو فرمائش بھی ہوئی تو بغلول بہادر والی کہانی کی، ہر بہن بھائی کی کتابوں کا اپنا اپنا ذخیرہ تھا جو کہ مشترکہ الماری کے ہر ایک کو الگ الگ تفویض کردہ خانوں میں سجا رہتا تھا اور ایک دوسرے سے بڑی منت سماجت کے بعد پڑھنے کے لیے حاصل کیا جاتا تھا.

گھر میں اخبار آنا بھی ایک الگ قصہ تھا، آپ کے پاس گاؤں کے چند گنے چنے لوگ اخبار پڑھنے کے لیے جمع ہوتے، باقی سارا گاؤں الماریوں میں بچھانے کے لیے اخبار لینے ہمارے گھر آتا، یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری ہے، اب بھی گاؤں میں واحد گھر ہمارا ہے جہاں اخبار باقاعدگی سے آتا ہے، کسی نے کتابوں، کاپیوں پر کور چڑھانا ہو، برتنوں والی الماریوں میں بچھانا ہو، بلکہ کچھ دن پہلے امی بتا رہی تھیں کہ اب تو کسی گھر میں چاول بنیں تو وہ بھی اخبار لینے آتے ہیں کہ اخبار سے دم اچھا آتا ہے،

ہمارے بچپن میں شادی بیاہ کے موقع پر جہیز بری کے کپڑوں کی نمائش کرنے کے لیے انہیں اخبار کے اوپر ٹانکے لگا کر سیٹ کیا جاتا تھا، اس مقصد کے لیے گاؤں تو ایک طرف پوری یونین کونسل سے دور دور سے لوگ اخبار لینے ہمارے گھر رجوع فرماتے، والدہ محترمہ بھی اتنی سگھڑ اور سلیقہ مند خاتون کہ آپ کے کمرے کی الماری کا ایک خانہ اخبار رکھنے کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا ، ہمیں یہ احکامات ہوتے کہ پڑھنے کے بعد بالکل سیدھا سیٹ کر کے اخبار الماری میں رکھ دیا جائے اور یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہے،

اخبار پڑھنے کے بعد آپ کے کمرے کی الماری میں سنبھال کر رکھ دیا جاتا ہے، یوں سنبھال سنبھال کر رکھنے اور اہلِ علاقہ کو سپلائی کرنے کا کام جاری رہتا، بغیر کسی تخصیص کے چاہے کوئی بچہ اخبار لینے آئے، چاہے کوئی خاتون اور چاہے کوئی آدمی دروازہ بجا کر اخبار لینے کو آ جائے، ہمیں یہ ہدایات ہوتیں کہ بغیر کوئی سوال کیے جتنے اخبار وہ کہیں، انہیں دے دئیے جائیں، علاقے میں ہمارا گھر اخبار والے گھر کے نام سے بھی مشہور ہے،

ایک بار میرے ماموں نے بھی بچوں کے پرزور اصرار پر اخبار منگوانا شروع کیا، دو چار ماہ بعد ہی میری پھوپھو عاجز آ گئیں اور ان سے کہنے لگیں کہ اتنے اخبار اکٹھے ہو گئے ہیں، یہی پڑھا کریں، روز نیا منگوانے کی کیا ضرورت ہے؟ ماموں کہنے لگے اپنے بھائی کے گھر جا کر دیکھو جہاں الماری مخصوص ہے، وہ بگڑ کر کہتیں وہ تو سارے علاقے کی ضرورت پوری کرتے ہیں، میرے سے نہیں سنبھالے جاتے یہ ڈھیر، بس اس ادبی بحث کے بعد ماموں جان نے پھر اخبار لگوانے کی غلطی نہ کی.

اسی طرح بہت سے لوگوں نے دیکھا دیکھی اخبار لینا شروع کیا کہ شاید اس وجہ سے بچے لائق ہو جاتے ہیں، لیکن یہ سلسلہ کچھ ماہ بعد ہی موقوف ہو جاتا ، کیونکہ اخبار لینے سے زیادہ اسے پڑھنے اور سمجھنے کے لیے جو ذوق و شوق چاہیے، وہ ہر ایک کے اندر نہیں ہوتا ، آپ نے کبھی اخبار یا رسائل پڑھنے کو نہیں کہا ، بلکہ آپ کے ان کے مطالعہ کے عادی ہونے کی وجہ سے یہ عادت فطری طور پر ہمارے اندر پروان چڑھی.

آپ نے کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی کہ یہ پڑھو اور یہ نہ پڑھو ، ہاں خواتین کے ڈائجسٹ پڑھنے سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے، میں نے پہلی بار یونیورسٹی جا کر پڑھے، لیکن کچھ لطف نہ آیا تو یہ سلسلہ ازخود ہی ترک ہو گیا. میرے پاس موجود کتابوں کے ذخیرہ میں سے سیرت مبارکہ کی کتب پڑھنا آپ کو بطور خاص پسند تھا، میرا پی ایچ ڈی کا تحقیقی کام بھی چونکہ سیرت طیبہ پر تھا، اسے بھی بڑی خوشی سے پڑھا اور اس کے مختلف پہلو میرے ساتھ ڈسکس بھی کیے. اسی کام کی وجہ سے میرے پاس سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کتب کا اچھا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا اور آپ نے نہایت ذوق و شوق اور محبت سے ہر ایک کتاب کا مطالعہ کیا.

جب آپ ایک حادثے کی وجہ سے دو ماہ تک زندگی میں پہلی بار بستر تک محدود ہوئے، تب بھی میرے پاس موجود مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھ کر وہ مشکل وقت بہت حوصلے اور صبر کے ساتھ گزارا ، کسی بھی موضوع سے بڑھ کر آپ کو سیرتِ طیبہ اور اس سے متعلق کتب میں دلچسپی تھی، اب سوچتی ہوں شاید اللہ تعالیٰ نے آپ کی اسی محبت کے صدقے مجھے اس مبارک مضمون میں پی ایچ ڈی کا اعزاز عطا کیا ، نہ صرف سیرت مبارکہ بلکہ اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تخصصات پر کام کیا، یہ سب آپ کی نیک نیتی اور اخلاص کا ہی تو اجر ہے.

ایک طویل وقفے کے بعد جو کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ ملازمت کی مصروفیات کی وجہ سے ، میرے لکھنے میں آڑے آتا رہا، جب میں نے دوبارہ لکھنا شروع کیا تو آپ بہت زیادہ خوش ہوئے، ہر اتوار کو اخبار ملتے ہی مجھے ٹیلی فون آ جاتا کہ چائے پلاؤ بھئی، کوئی پارٹی ہونی چاہیئے، آپ کا مضمون شائع ہوا ہے ، مجھے اگرچہ پہلے سے علم ہوتا تھا کہ اس ہفتے میرا مضمون شامل اشاعت ہو گا، کیونکہ جمعہ ہفتہ کے اخبار میں سنڈے میگزین کی جھلکیاں لگ جاتی ہیں، لیکن میں نے آپ کو کبھی پیشگی نہ بتایا، کیونکہ آپ کی طرف سے پھر وہ خوشی اور فخر بھری فون کال کیسے آتی،

زندگی میں جو بھی اچھائی ہے، ہنر ہے، خوبی ہے، بھلائی ہے، سب آپ کی وجہ سے ہے، آپ کے دم قدم سے زندگی میں زندگی کا احساس تھا، اپنائیت تھی، گرم جوشی تھی، تازگی تھی، سکون تھا، روشنی تھی ، چاندنی تھی ، بے فکری تھی ، کھلکھلاہٹیں تھیں ، پھول تھے ، خوشبو تھی ، رنگ تھے، بہار تھی ، رونق تھی ، ٹھنڈک تھی ، چھاؤں تھی ، نرمی تھی اور محبت ہی محبت ہی تھی ، اس لیے یہی کہنا ہے

تیری عطائیں تیرے نام کر رہی ہوں
کہ میرے پاس کچھ بھی تو نہیں میرا اپنا.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں