مسلمان باحجاب خاتون

کوئی محرم راز ناں ملدا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں

میرے پیارے اللہ تعالٰی ! آپ کے ہوتے کسی اور محرم راز کی ضرورت تو نہیں ہونی چاہئے لیکن ہم کمزور ، بے بس اور جلد باز انسان اپنے جیسے انسان کو جو جسمانی وجود رکھتا ہو کو رازداں بنانے کی چاہ میں انجانے میں کئی تلخ تجربات سے خود کو گزار لیتے ہیں۔ ہماری محدود عقل اس امر کا اندازہ ہی نہیں کر پاتی کہ جنہیں ہم حال دل سے آگاہ کر کے خود کو پرسکون اور ہلکا پھلکا کرنے کی خواہش کر رہے ہیں، وہ بھی ہماری طرح ہی گوشت پوست کے بنے انسان ہیں، جنہیں ہم سے یا ہماری زندگی سے ایک حد تک ہی دلچسپی ہو سکتی ہے ۔

ہو سکتا ہے ہم ان سے جس خلوص ، خیر خواہی اور بھلائی کی تمنا رکھے ہوئے ہیں ، وہ جذباتی اور قلبی طور پر ہم سے اس قدر منسلک نہ ہوں ، ان کی ہمارے ساتھ وابستگی کا وہ عالم ہی نہ ہو ، جہاں ایک کی تکلیف دوسرے کو بعض اوقات بغیر کہے محسوس ہو جاتی ہے ۔ یقینا دنیا میں ایسے لوگ اور ایسے رشتے موجود ہیں جن کا باہمی تعلق اس قدر مضبوط اور گہرا ہوتا ہے کہ وہ زمان و مکان کے ظاہری فاصلوں کے باوجود ایک دوسرے کے حال سے باخبر رہتے ہیں ۔ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہیں ایسے لوگ اور رشتے دستیاب ہیں۔

سوال ان لوگوں کا ہے جو اتنی تیز قسمت نہیں رکھتے کہ کوئی ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے ، ان کے درد کو اپنے دل میں سرایت کرتا محسوس کرے ، ان کے دل پر گرتے آنسوؤں کی کسی کو خبر ہو ، ان کی ان کہی اذیت کسی کے علم میں ہو ، ان کی روح کو گھیرتی اداسی کی دبیز چادر کے پار کوئی دیکھنے پر قادر ہو ، دل و دماغ کو شل کرتے دائمی خسارے کا کوئی احساس کرنے والا ہو ، ان کے خالی ہاتھ جن میں ہاتھ چھڑا جانے والوں کا لمس سانس لیتا ہو ، کو پکڑ کر تسلی کے دو بول دینے والا ہو، جسم و جاں کو جکڑ لینے والے تنہائی کے خیال کو دور جھٹک دینے والا ہو ، وچھوڑے کے رستے ناسور پر محبت کا پھاہا رکھنے والا ہو ، ان کے کرلاتے دل کو تسلی کے نغمے سنانے والا ہو ، خود کو جوڑنے اور بکھر جانے کے اذیت ناک وقت میں ان کی پشت پناہی کرنے والا ہو۔

لیکن سوال تو یہ ہے ناں کہ ان لمحات میں کسی انسان کے سہارے کی خواہش ہی کیوں کی جائے؟ وہ انسان جن کی پسند ناپسند کا پیمانہ بہت سخت اور خود ساختہ اصولوں پر مبنی ہے؟ وہ انسان جن کی آپ سنتے رہیں تو سب اچھا ہے ، خود سنانے کی خواہش کریں تو ان کا ظرف چھلک جاتا ہے ۔ وہ انسان جو صرف تب تک اچھے اور آپ کو دستیاب ہیں ، جب تک ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ، ان کی خوشی میں خوش اور ان کے غم میں رنجیدہ ہوتے ہیں۔

جب ایسی توجہ اور وقت آپ کو چاہیے وہ نئے آشیانے ڈھونڈ کر وہاں منتقل ہو جاتے ہیں ۔ ایسی بے اعتبار مخلوق کا اعتبار کیا ہی کیوں کر جائے اور ان سے توقع رکھی ہی کس برتے پر جائے؟ ضروری نہیں آپ نے کسی کا ساتھ دیا تو وہ بھی مشکل گھڑی میں آپ کے لئے موجود ہو۔یہ دنیا ہے صاحب دنیا!

یہاں ہر ایک کی اپنی ترجیحات ہیں ، جو وقت اور ضرورت کے تحت بدلتی ہیں ۔ آپ کسی کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کی اچھائی کے جواب میں دوسرا بھی اچھائی کا ہی مظاہرہ کرے ۔ ہر ایک نے اپنے ظرف اور فطرت کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات سالہا سال کے تعلق کے بعد آپ کو ایسے بے جان اور بے مقصد رشتوں کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے۔

بات پھر وہیں پر آ جاتی ہے کہ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے پھر بھی حضرت انسان پر اعتبار کرتے ہیں اور اسے ہی اپنا غم خوار، دم ساز اور مسیحا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم کیوں ان کمزور لمحات میں کمزور سہاروں کی تلاش میں ہوتے ہیں ؟ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پرندے ان ڈالوں پر نغمے گنگناتے ہیں ، جو پھولوں اور پھلوں سے لدی ہوتی ہیں ، خزاں چھا جائے تو پرندے بھی ہجرت کر جاتے ہیں ، بھلا ٹنڈ منڈ اداس تنہا کھڑے درخت پر بھی کوئی بلبل چہکتی ہے؟

آپ کے غم اور تکلیف میں کوئی انسان کم ہی محرم راز بنتا ہے ، آپ کی کیفیات انسان نامی مخلوق شاذ ہی سمجھ پاتی ہے یا کہنا چاہئے سمجھنا چاہتی ہے۔ دکھ ، غم ، تکلیف جس کا ہوتا ہے ، بس اسی کا ہوتا ہے ، وہی اسے سینچ سینچ کر رکھ سکتا ہے ،اسے ہی یہ کسک ، تڑپ زندگی معلوم ہو سکتی ہے، وہ روح ہی زخموں کی گہرائیوں تک اتر سکتی ہے ، جس نے خود پر وار جھیلے ہوں ، اس دل کو ہی یہ درد سکون آور لگتا ہے ، جو وچھوڑے کے تپتے صحرا میں ننگے پاؤں سرگرداں ہو ، خالی ہاتھ ، خالی دل ہو جانے کی حالت وہی سمجھ پاتا ہے ، جس کی متاع حیات لمحوں میں لٹی ہو ، تو پھر انسانوں سے امید کیوں اور شکوہ کیوں کر؟

کسی نے لکھا تھا کہ زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے ، جب سارے رشتے سارے تعلق پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ اس وقت صرف آپ ہوتے ہیں اور اللہ تعالٰی ۔ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ زندگی میں ایک وقت ایسا نہیں آتا بلکہ سارا وقت ہی صرف آپ ہوتے ہیں اور الله تعالٰی!! ہم پر جب تک آزمائش نہ آئے، ہمیں اس حقیقت کا درک نہیں ہو پاتا لیکن روز روشن کی مانند واضح یہی ہے کہ آپ ہیں اور اللہ تعالٰی ۔ باقی سب دھوکا ، فریب اور دنیا داری ہے ۔

ہاں آپ کی خوشی، سکھ اور کامیابی پر دنیا آپ کے اردگرد ہوتی ہے ، آپ کا بھرپور ساتھ دیتی ہے ، کیونکہ پھل بھی ہو اور پھول بھی ، موسم بھی بہار کا ہو تو پرندے تو ڈال ڈال لہرا کر بہار کا حق ادا کریں گے ۔ کسی مفکر نے کہا تھا کہ دنیا ہنسنے والوں کے ساتھ ہنستی ہے لیکن رونے والوں کے ساتھ روتی نہیں ہے ۔ اس لئے سمجھ لیں دنیا کا ساتھ چاہیے تو غم اپنے اندر دفنا کر ہنستے ہوئے اس کے سامنے آئیں ۔ دنیا دکھیارے لوگوں کے ساتھ دکھی ہونے پر یقین نہیں رکھتی ۔ دکھ اپنا اپنا ہی اچھا لگتا ہے اور اپنا دکھ ہی اپنا لگتا ہے۔

غم دینے والی ذات ہی غم خواری کرے گی ۔ مولانا روم نے فرمایا تھا کہ زخم سے ہی روشنی کے اندر داخل ہونے کی جگہ بنتی ہے ۔ زخم کس نے دیا ؟ اس نے جو ستر ماوں سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے ۔ جس کا کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں اور جس کی کوئی آزمائش بے مقصد نہیں۔ جو دیتا بھی ہے اور واپس بھی لے لیتا ہے ،

جو غم کو بھی روح کی روشنی کا باعث بنا دیتا ہے۔ جو وچھوڑے عطا کرتا ہے تو دائمی اور ابدی زندگی میں مجتمع ہونے کی امید بھی دلاتا ہے، جو خالی ہاتھ کرتا ہے تو صبر سے دامن بھی بھر دیتا ہے ۔ جو عزیز از جان نفوس سے اس عارضی دنیا میں جدا کرتا ہے تو اس جدائی کو کئی حقائق آشکار کرنے کا ذریعہ بھی بناتا ہے، جو تنہا کرتا ہے تو اپنے ساتھ کی نوید بھی سناتا ہے۔

تو انسان کیوں چاہئے اپنے احساسات بتانے کو، جب آپ کے پاس اللہ تعالٰی ہے ۔ آپ کو دنیا کی کیا حاجت ہے جب دنیا کا خالق آپ کے لئے موجود ہے ۔ آپ کو لوگوں کے رویوں کی کیوں پروا ہو ، جب مالک دو جہاں آپ کے ساتھ ہے ۔ آپ کو اپنا آپ کسی انسان کے سامنے عیاں کرنے کی کیا ضرورت ہے ، جب وہ دلوں کے حال جاننے پر قادر علیم و خبیر ہستی آپ کے اندر اٹھتے جوار بھاٹوں کی شدت سے آگاہ ہے۔

آپ کو انسانوں کا ساتھ کیوں درکار ہے، جب کہ رب ذوالجلال ہر زخم کھائے دل کے بہت قریب ہے۔ آپ کو کسی کی توجہ سے کیا نسبت، جب وہ مالک لمحہ لمحہ آپ کو اپنے ساتھ کا احساس بخش رہا ہے۔ رب کریم کے ساتھ، توجہ، کرم سے بڑھ کر کوئی خاکی آرزو پال سکتا ہے؟ اس کے فضل، توجہ اور رحمت کے بغیر غم کیا کسی انسان کے دل پر آسان ہو سکتا ہے؟

اپنے اور اللہ تعالٰی کے اس تعلق کو پہچانیں ، اس کی قدر کریں اور صرف اسی پر بھروسہ اور اعتماد رکھیں ۔ دنیا ، انسان ، ان کا ساتھ کچھ بھی نہیں مگر ایک فریب ، ایک دھوکا اور خوش فہمی ہے اور یہ تب تک برقرار رہتی ہے، جب تک آپ ان کو آزماتے نہیں ہیں ۔ آزمائش کی گرمی اور تپش آپ کے ساتھ کوئی نہیں جھیلتا،

جس تن لاگے وہی تن جانے والا معاملہ ہوتا ہے۔اس لئے جو محرم راز بھی ہے، غم خوار بھی ہے اور رحمان بھی ہے، بس اس کے ساتھ تعلق مضبوط کریں اور باقی سب تعلقات سے بے فکر ہو جائیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “کوئی محرم راز ناں ملدا”

  1. Muhammad Abdul Jabbar Avatar
    Muhammad Abdul Jabbar

    Khoobsurat tehreer