جامع مسجد دہلی انڈیا میں نمازعیدالفطر

پیام عید

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ام محمد عبداللہ / اسلام آباد

”بڑا مشکل کام ہے یہ روزے رکھنا۔ بڑی اماں ! آپ تو اب کافی بوڑھی ہو چکی ہیں۔ آپ کے لیے تو سہولت ہے نہ رکھا کریں روزے۔“ اپنی دھن میں بولتا دانیال بڑی اماں کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے قطعی ناواقف تھا۔

سونے پر سہاگہ اس کی چھوٹی بہن عائلہ بھی گفتگو میں شامل ہوگئی تھی۔ ”نمازیں پڑھنا بڑا آسان ہے ناں اور یہ رمضان میں تو محترمہ امی جان تراویح پڑھائے بغیر بھی نہیں چھوڑتیں۔ اتنی گرمی، لوڈ شیڈنگ سکول کی پڑھائی اور اف یہ رمضان۔“ عائلہ نے منہ بنایا۔ اسے اس سال میٹرک کے بورڈ کے امتحانات دینا تھے۔

”سکول کی پڑھائی سے گھبرا رہی ہو میری طرح سیکنڈ ائیر میں پہنچو گی تو پتہ چلے گا کالج کی پڑھائی کتنی سخت ہوتی ہے۔“ دانیال نے چھوٹی بہن پر رعب ڈالا۔

”اچھا تو بڑی اماں ! میں آپ سے کہہ رہا تھا کہ آپ اتنی کمزور اور بوڑھی ہو چکی ہیں ، نہ رکھیں روزے۔“ دانیال ایک بار پھر بڑی اماں سے مخاطب تھا۔ بڑی اماں ان کی رشتہ دار نہ تھیں بلکہ ان کی دادی جان کی کوئی دیرینہ سہیلی تھیں۔ دادی جان کی وفات کے بعد چونکہ وہ گائوں میں بالکل اکیلی رہ گئی تھیں اس لیے امی جان اصرار کر کے انہیں اپنے ساتھ لے آئی تھیں۔ خاموش اور ہمدرد طبیعت کے باعث بچے ان سے انسیت محسوس کرنے لگے تھے اور بے تکلفی سے ہر بات کہہ دیتے۔ وہ کبھی مسکرا دیتیں۔ کبھی کوئی مختصر سا جواب اور کبھی خاموش ہو جاتیں۔

لیکن آج تو بچے باقاعدہ ان کے ساتھ روزوں سے متعلق بحث کرنے لگے تھے۔ ”میرے روزے نہ رکھنے سے آپ دونوں کو کیا فائدہ ہو گا بھلا؟“ بالآخر انہوں نے پوچھا : ”ہمیں خوشی ہو گی کہ اتنی گرمی میں کوئی ٹھنڈا پانی پی رہا ہے۔“ عائلہ ہنسی۔ ” ایسے نہیں کہتے۔ بس اب تو تھوڑے روزے رہ گئے ہیں پھر عید کی خوشی ملے گی تم دونوں کو اور پھر وہی کھانے پینے کی آزادی۔ روزے تو گنے چنے چند دنوں کی بات ہے۔“ بڑی اماں نے انہیں سمجھایا۔

”عید سے یاد آیا۔ میری چوڑیاں اور مہندی لانے والی ہے۔“ عائلہ بولی۔ ”عید کا دن کتنا بورنگ ہوتا ہے ناں عائلہ۔“ دانیال بہن سے مخاطب تھا۔ ”بڑی اماں آپ چھوٹے ہوتے کیسے عید مناتی تھیں؟“

عائلہ اب بڑی اماں کی بچپن کی عید کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ بچے اپنی ترنگ میں بولے جا رہے تھے کہ ابا جان کی آمد نے انہیں خاموش ہونے پر مجبور کر دیا۔ بڑی اماں کی آنکھوں سے چند آنسو بہہ کر ان کے سفید دوپٹے میں جذب ہوگئے تھے۔

رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی جیسے پر لگا کر اڑا جا رہا تھا۔ روزہ، نماز، تراویح، ذکر، تلاوت اور پڑھائی۔ بچے خوب تھک چکے تھے۔ ”اللہ جی کل عید ہو جائے۔ میں تو جی بھر کر نیند پوری کروں گا۔“ یہ دانیال تھا ”اور میں ٹی وی پر عید شو دیکھوں گی۔“ عائلہ کا اپنا منصوبہ تھا۔

”دانیال ، عائلہ!“ بڑی اماں نے بچوں کو پکارا۔ وہ بہت سنجیدہ دکھائی دے رہی تھیں ۔ آنکھیں نہایت سوجی ہوئی اور سرخ تھیں جیسے وہ بہت دیر روتی رہی ہوں۔ وہ حیرت سے ان کی جانب متوجہ ہوئے۔ ”تم دونوں اس دن میری عید کا احوال پوچھ رہے تھے۔ میں بول کر تو شاید نہ بتا پاتی اس لیے اپنی بچپن کی یادگار عید کی کہانی یہاں لکھ دی ہے تم دونوں پڑھ لو۔“ انہوں نے ایک ڈائری بچوں کی جانب بڑھائی۔ دانیال نے ڈائری ان کے ہاتھوں سے لیتے ہوئے عائلہ کو مخاطب کیا۔ ”آٶ عائلہ کمرے میں جا کر پڑھتے ہیں۔“

پیام عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے
ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے۔
عائلہ پڑھنے لگی تھی۔

”پیارے بچو!
تمہیں 2022 کی عیدالفطر مبارک ہو۔ میرے ساتھ ماہ و سال کی الٹی گنتی گنو کہ ماضی میں سفر کرتے ہوئے میں تمہیں اپنے بچپن کی عیدوں کا احوال سنائوں۔

میں جب بچی تھی۔ میری اماں ہم بہنوں کے لیے خوبصورت گوٹے کناری والے لباس تیار کرتیں۔ پورے سال میں ایک ہی مرتبہ تو ہمارے کپڑے بنا کرتے تھے۔ ہم ہاتھ مہندی سے سجاتیں۔ غباروں اور کلیوں سے کھیلتیں ۔ شیر خورمہ اور سویوں کا انتظار تو ہمیں رمضان بھر رہتا کہ ایسا اچھا کھانا ہمیں عید پر ہی میسر آتا تھا۔ ابا اور بھائی شیروانی اور ٹوپی پہنے تکبیریں پڑھتے عید گاہ جاتے لیکن پھر ایک روز ابا امی جان سے کہہ رہے تھے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔

مسلمانوں کو کلمہ گوئی کی سخت سزا دی جا رہی ہے۔ مال عزت اولاد کچھ محفوظ نہیں مگر یقین جانو کیسا ہی کڑا وقت کیوں نہ آجائے اب ہمیں نہ انگریز کی غلامی منظور ہے نہ ہندو کی۔ ہمیں ہر قیمت پر پاکستان حاصل کرنا ہے۔ ہماری جان جاتی ہے جائے۔ مال جاتا ہے جائے لیکن ہماری آئندہ نسل کسی کی غلام نہ ہو۔ ان کی تعلیم پر پہرے نہ ہوں۔ ان پر کاروبار کے دروازے بند نہ ہوں۔ ان پر اسلامی شعائر پر عمل کرنے کی پابندی نہ ہو۔

ابا امی جان کو کچھ اور بھی بتا رہے تھے مگر میرے ذہن میں صرف ایک جملہ گونجنے لگا تھا ہمیں ہر قیمت پر پاکستان حاصل کرنا ہے۔ پاکستان۔ مجھے لگا جیسے تتلیوں، خوشبووں ، پھولوں اور جگنووں کا کوئی دیس ہو گا جہاں ہم بہن بھائی سکول جا سکیں گے۔ ابا اور بھائی جان اپنا کاروبار کر لیں گے۔ عید الاضحی پر گائے قربان کر سکیں گے۔ میں خوش ہو گئی۔

اس روز 27 رمضان المبارک تھی۔ جمعتہ الوداع تھا۔ابا امی کو بتا رہے تھے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ پاکستان بن گیا ہے۔ لیکن انگریزوں نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ امرتسر جسے پاکستان کا حصہ بننا تھا ہندوستان میں رہ گیا ہے۔ ہمیں پاکستان کی طرف ہجرت کرنا ہو گی۔ یہ 18 اگست 1947 کی عید الفطر تھی۔

ہندوستانی مسلمانوں کو کلمہ گوئی اور مطالبہ پاکستان کے جرم کی پاداش میں سنگینوں پر اچھالا جا رہا تھا۔ مسلمان پیدل قافلوں اور سپیشل ٹرینوں کے ذریعے پاک سر زمین کی طرف بڑھ رہے تھے۔ آج گلی میں چوڑیاں بیچنے اور خریدنے والوں کی کوئی آواز نہیں تھی۔ 80 ہزار مسلمان خواتین کی عصمتوں کے لٹنے کے دلخراش مناظر جا بجا بکھرے ہوئے تھے۔

ہمیں آج نہ اپنے گوٹے کناری والے کپڑوں کا ہوش تھا نہ نئے جوتوں کی فکر۔ نہ کہیں عید کارڈ تھے۔ نہ تحائف کا تبادلہ۔ نہ اماں کو میٹھی سویاں کھانے پکانے کا دھیان تھا نہ ہمیں عیدی مانگنے کا ہوش۔ اس انوکھی عید پر مکانات جل رہے تھے۔ معصوم بچے برچھوں پر اچھالے جا رہے تھے۔

ہمارے محلے کی خوبصورت مسجد شہید ہو چکی تھی۔ شاہراہوں پر مسلمانوں کی بے یارو مددگار لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ کوئی ان کو نہلانے، کفنانے ، دفنانے اور اٹھانے والا نہیں تھا۔ سکھ درندے مسلمان دوشیزائوں کی عصمت دری کے لیے دندناتے پھر رہے تھے۔ میری غیرت مند اپیا نے لا الہ الا اللہ پڑھ کر مسجد کے کنوئیں میں چھلانگ لگائی تھی۔ اس کی کنوئیں میں تیرتی نعش میری نگاہوں میں جیسے آج بھی تیر رہی ہے۔“

صفحے پر جا بجا آنسوئوں کے دھبے تھے۔ عائلہ کی آواز بھی لرز رہی تھی۔ دانیال منہ کھولے جیسے بت بن چکا تھا۔ ”اسلامیان امرتسر اپنی مائوں ، بہنوں اور بہو بیٹیوں کو ہندو سکھ غنڈوں کی ہولناک نظروں سے بچاتے پاکستان کا رخ کر رہے تھے۔ عید کے روز میری بجیا جن کے ہاتھ اور پاؤں میں مہندی کی سرخیاں رچی ہوتی تھیں آج وہی ہاتھ پاؤں چچا اور بھیا کے خون سے تر ہو رہے تھے۔

امرتسر اور لاہور کی درمیانی جرنیلی سڑک پر سکھ وحشیوں کے مشتعل ہجوم مسلمانوں پر اندھا دھند گولیاں برسا رہے تھے۔ امرتسر ریلوے سٹیشن کے تمام پلیٹ فارم اور پٹڑیاں مسلمانوں کے خون میں نہائی ہوئی تھیں۔ یہ عید کہاں تھی۔ یہ تو ہولی کا تہوار تھا جس میں خون مسلم سے دل کھول کر ہولی کھیلی جا رہی تھی۔

میرے ماموں جو جالندھر میں رہتے تھے۔ وہاں کے دیگر ہزاروں مسلمانوں کے ہمراہ عید کی نماز ادا کرنے عیدگاہ میں جمع تھے اور ابھی پہلی رکعت میں سجدہ ریز ہوئے ہی تھے کہ ہندوئوں ، سکھوں نے تلواروں ، گنڈاسوں ، برچھیوں اور بندوقوں سے مسلح ہو کر ان پر حملہ کر دیا اور آن واحد میں عیدگاہ مسلمانوں کے مقتل میں تبدیل ہو گئی۔

اس کے بعد سکھانند ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق فرقہ پرست ہندو اور سکھ مسلمان گھرانوں کی پردہ نشین عورتوں کو گھسیٹ کر عیدگاہ تک لے آئے ۔ ان کے لباس تار تار کر دئیے گئے اور بھالوں کی نوک چبھو چبھو کر انہیں حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے اپنے شوہر، بھائی، بیٹے اور باپ کو عید مبارک کہیں۔ غم اور حیا کی ماری برہنہ دختران اسلام جب سمٹنے لگتیں تو وحشی درندے انہیں بھالوں سے چرکے اور کچوکے لگا کر قہقہے لگاتے۔ میرے ماموں کے گھر کی تمام خواتین یہاں بیدردی سے شہید کر دی گئیں۔

میرا پورا خاندان آئندہ مسلمان نسل کو آزادی دلانے کے لیے شہید ہو چکا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کسی فرشتہ سیرت بابا جی نے اپنی شہید بچی کی جگہ مجھے سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ ٹرین میں سوار کروایا۔ ہمارے ساتھ ہندوستان سے لاہور آنے والی ایک مال گاڑی کے ڈبے میں مسلمان عورتوں کی کٹی ہوئی چھاتیاں، معصوم بچوں کی گردنیں اور کٹے ہوئے ہاتھ عید کے تحفے کے طور پر اسلامیان پاکستان کو ارسال کیے گئے۔ اس ڈبے پر مسلمانوں کے لیے عید کا تحفہ کے اشتعال انگیز الفاظ بھی درج تھے۔“

عائلہ ہچکیوں سے رونے لگی تھی۔ دانیال کی آنکھیں بھی آنسووں سے بھری تھیں۔
آگے لکھا تھا۔

”میرے بچو ! میری ان یاداشتوں میں قیام پاکستان کے مقصد اور تاریخی دشمنوں کے عزائم سے باخبر رہو ۔ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کے مکروہ چہروں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھو۔

لہو میں ڈوب کر پہنچے ہیں جو کنارے تک
وہ جانتے ہیں کہ یہ راہ کس قدر تھی کٹھن

میرے دانیال! عید کا دن تم کیوں کر سو کر گزار سکتے ہو جبکہ جالندھر اور اس جیسی دیگر عیدگاہوں کے شہداء تم سے اس وطن میں نظام لا الہ الا اللہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پیاری عائلہ! عید کا دن تم ٹی وی شوز میں کیوں کر برباد کر سکتی ہو جبکہ اسی ہزار شہید دختران اسلام تم سے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی امیدوار ہیں۔

تمہارا دشمن شرک و الحاد کی یلغار لیے چہار جانب سے حملہ آور ہے تم غفلت میں کیسے جی سکتے ہو۔“ دانیال اٹک اٹک کر پڑھ رہا تھا۔

قیام پاکستان کا مقصد اور اس کے لیے دی جانے والی قربانیاں پڑھ کر ان کے دل جیسے تڑپ اٹھے تھے۔
تقاضے ہم سے مستقبل کے پورے کس طرح ہونگے
ابھی ماضی کا بھی ہم نے بہت سا قرضہ چکانا ہے۔

”بڑی اماں پاکستان لا الہ الا اللہ کے نام پر قائم ہوا۔ یہ کلمہ رہتی دنیا تک سربلند رہے گا اور ہمارا پاکستان بھی۔ ان شاءاللہ“ دانیال اور عائلہ بڑی اماں کے قدموں میں بیٹھے تھے۔
”بڑی اماں! میں یہ عید سو کر نہیں گزاروں گا

میں یہ عید ٹی وی اور نیٹ پر لغو پروگرام دیکھ کر نہ گزاروں گی کہ یہ عید شہیدان تحریک پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے کی عید ہو گی۔ یہ عید تجدید عہد وفا کی عید ہوگی۔ یہ عید پاکستان میں پیام لا الہ الا اللہ کو دلوں میں اتارنے کی عید ہوگی۔ ان شاءاللہ“

بڑی اماں نے محبت سے بچوں پر نگاہ ڈالی اور شفقت سے ان کے سروں پر اپنے ہاتھ رکھ دئیے۔چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں