پرائیویٹ سکول کے طلبہ و طالبات اور استانی

دو ضروری باتیں ، پرائیویٹ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کے لئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آصفہ عنبرین قاضی

ہم بچوں کو مہنگے اور جدید پرائیویٹ سکولوں میں داخل کروا کر سوچتے ہیں چونکہ ماہانہ فیس دے رہے ہیں تو سکول والے ہمارے بچے کو آئن سٹائن بنا دینں گے ۔ ہر سال سکولوں میں پیرینٹ ٹیچر میٹنگز ہوتی ہیں . میں نے نوے فیصد پیرنٹس کو ان میٹنگز سے کبھی خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے نہیں دیکھا ۔ ان میں سے اکثر کا خیال ہوتا ہے کہ یہ میٹنگز ہمارے بچوں کی شکایات سننے یا بتانے کے لیے ترتیب دی جاتی ہیں ۔

سالانہ تین میٹنگز بھی ہوں تو آج تک سوائے ایک آدھ والدین کے کسی کو نہیں دیکھا کہ انہیں PTM کا مقصد سمجھ ایا ہو۔
والدین صرف یہ پوچھنے آتے ہیں:” جی بتائیے ہمارا بچہ پڑھائی میں کیسا جا رہا ہے ؟ ”

اب اگر بچے کے پاس فطری ذہانت ہوگی تو ٹیچر اس کی تعریف میں رطب اللسان ہو جائے گی اور ماں باپ خوشی خوشی نکل جائیں گے ۔ جو بچہ قدرے ذہنی پسماندگی کا شکار یا قدرے شرارتی ہوگا ، اس کی شکایتوں کا ایک انبار پیش کیا جائے گا ۔ اور والدین ہزاروں میں فیس دے کر بھی سر جھکا کر بیٹھے رہیں گے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم PTM میں صرف یہ پوچھنے جاتے ہیں کہ ہمارا بچہ کیسا جارہا ہے ؟ کیا ہمیں اس کی روزمرہ کی پراگرس کا بطور والدین ذرا بھی علم نہیں؟

چند سال پہلے ایک صاحب آتے تھے ، ان کے ہاتھ میں ڈائری ہوا کرتی تھی اور اس میں ہر PTM کا ریکارڑ ہوتا تھا ، وہ سامنے بیٹھتے تھے ، ڈائری نکالتے تھے اور بولتے جاتے تھے کہ ” چھ ماہ پہلے آپ نے اس کی یہ خامیاں اور خوبیاں بتائی تھیں ، آپ نے بتایا تھا شرارتی بہت ہے ، اس پر میں نے چھ ماہ بہت کام کیا ، اس کی کونسلنگ کی کیا یہ بہتر ہوگیا ہے؟ ”

” جی ، اب تو کافی بہتر ہے ، توجہ سے کام کرتا ہے ۔ ”

” جی بہتر ، آپ نے بتایا تھا اس کی لکھائی میں ربط نہیں ہے ، سپیلنگ کی بہت غلطیاں کرتا ہے ، چھ ماہ میں آپ نے اس پہ کیا کام کیا ؟” وہ ڈائری کھول کر پوچھتے ۔۔۔۔۔۔

وہ ہر بات نوٹ کرکے ضبط تحریر میں لے آتے ۔ کہتے مجھے ہر چھ ماہ بعد تعریف نہیں سننی ، نہ ہی شکایتوں کی فہرست لینے آیا ہوں ، آپ کی کلاس میں تیس بچے ہوں گے ، لیکن ہر بچہ اپنے ماں باپ کا ایک ہی ہے اور اس میں انفرادی تبدیلی دیکھنا چاہتا ہوں ، مجھے صرف لیب رپورٹس اور مرض مت بتائیں ۔۔۔ تشخیص ہو چکی تو اب علاج کی طرف آئیں ۔۔ مرض لاعلاج ہو تو کسی اور ادارے میں ریفر کر دیں لیکن میرے بچے کا مستقبل کسی صورت دائو پر نہ لگے ۔ ”

سینکڑوں والدین میں سے شاید یہ وہ واحد باپ تھے جو کئی سالوں سے پی ٹی ایم ریکارڈ لیے ہر میٹنگ میں آتے تھے ، ٹیچرز ان سے ملاقات کے لیے مکمل ہوم ورک کرکے آتے تھے ، ان کے بچے کا شمار سکول کے بہترین بچوں میں ہونے لگا ۔

اور پھر ایسے بھی والدین دیکھے جنھیں اپنے بچے کا سیکشن تک معلوم نہ تھا اور وہ سکول آ کر معلوم کرتے اور روبوٹ بن کر ٹیچر کے سامنے بیٹھ جاتے ۔

اگر آپ روزانہ کی بنیاد پہ بچے کی تعلیمی پراگرس کا جائزہ نہیں لیتے ، تو ایسی میٹنگز میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اگر مہنگے سکولوں میں بچوں کو داخل کروایا ہے تو محض روبوٹ پیرنٹ بن کر میٹنگز میں جانے کی بجائے مکمل ہوم ورک کرکے سکول جائیں ، بچے کی اخلاقی ، ذہنی ، تعلیمی ، جسمانی بڑھوتری آپ کے سامنے ہو ۔ بچے کو رپورٹ کارڈ سے باہر نکل کر دیکھنا شروع کریں ۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے تو اب ایک بزنس مارکیٹ بن چکی ہے ، آپ نے وہاں اپنا بچہ داخل کروایا ہے تو زندگی بھر کی انویسٹمنٹ کی ہے ، شرح منافع میں صرف اداروں کو نہیں اپنے بچوں کو بھی حصہ دار بنائیے ۔

……………

سکولوں میں چھوٹے بچوں کی چوری چھپے ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرنے کا رواج خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے . دکھ کی بات یہ ہے کہ اس سرگرمی میں ٹیچرز ملوث ہیں ۔

آپ جب اپنے بچے کو پرائیویٹ سکول میں داخل کرواتے ہیں تو داخلہ فیس کے ساتھ بھاری سیکیورٹی فیس بھی جمع کرواتے ہیں ۔ یہ دس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہوتی ہے تاکہ دوران تعلیم آپ کا بچہ اگر سکول کی پراپرٹی یا ساکھ کو نقصان پہنچائے تو رقم کی صورت میں وہ ضبط کرنے کا آپشن رکھیں ۔

آپ نے کبھی بچہ داخل کرواتے وقت ، بچے کی سیکیورٹی کی ضمانت لی ؟ اس سکول میں بچے کی ساکھ ، ذات ، جذبات کو نقصان پہنچا تو سکول کیا ہرجانہ ادا کرے گا؟

نہیں ۔۔۔

کبھی ہم نے اس نہج پر سوچا ہی نہیں ، ہم صرف نمبروں ، حاضریوں ، کتابوں اور نصاب کی بات کرتے ہیں ۔ آپ نے داخلہ کرواتے وقت کبھی سکول کو پابند کیا کہ کوئی ٹیچر بلا اجازت آپ کے بچے کی ویڈیو نہیں بنائے گا ؟ بھلے بچہ کتنا ہی کیوٹ ، معصوم اور تیز ہو ۔۔۔

وہ سکول جو اپائنٹمنٹ کے بغیر آپ کو ٹیچر سے ملاقات نہیں کرنے دیتے ، آپ کو کلاس رومز کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتے ، آپ سکول کے احاطے میں موبائل سے ایک تصویر نہیں لے سکتے ۔۔۔ تو پھر سکولز کے کلاس رومز سے انٹرنیٹ پر ویڈیوز کیسے وائرل ہو جاتی ہیں؟ اس لیے کہ ہم نے کبھی پرواہ ہی نہیں کی ۔

صرف پرائیویٹ سکول نہیں ، سرکاری سکولوں ، مدارس اور مساجد کے بھی یہی حالات ہیں ۔ کہیں قاری صاحب اونگھتے ہوئے معصوم کی ویڈیو بنا رہے ہیں ، کہیں سرکاری ٹیچر بچے کو رلا کر حظ اٹھا رہا ہے ، کہیں کسی معذور کی چوری چھپے ویڈیو بنائی گئی ، کہیں پرائیویٹ ٹیچر پیار کا سبق پڑھاتے ہوئے ویڈیو ریکارڈ کررہی ہے ۔۔۔

عموماً یہ حرکات نان پروفیشنل ، غیر سنجیدہ اور غیر تربیت یافتہ استاد کرتے ہیں ، شغلا اپنے چینل پر اپ لوڈ کی اور پھر بھول گئے ۔ اس بچے کی وہ ویڈیو انٹرنیٹ پر نہ صرف ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی بلکہ ہزاروں کی تعداد میں شئیر بھی ہوگئی ۔

کیا واقعی سوشل میڈیا نے ہمارے بچوں کو غیر محفوظ کردیا پے ؟ آپ تعلیمی کارکردگی کی ضمانت سکول سے حاصل نہیں کرسکتے ، لیکن اپنے بچے کی پرائیویسی پر تحریری معاہدہ تو کرسکتے ہیں ۔ کیا معلوم ہمارے بچے ، بچیوں کی اب بھی بیسیوں ویڈیوز نان پروفیشنل ٹیچرز کے موبائل میں محفوظ ہوں ، جن کا نہ بچے کو علم ہے نہ بچے کے والدین کو ۔۔۔

آپ سکول کے پرنسپل ہیں تو اپنے اساتذہ کو بچوں کی پرائیویسی کے بارے میں سخت ہدایت کریں ، ٹیچر ہیں تو بلااجازت ویڈیوز مت بنائیں ۔والدین ہیں تو اپنے بچے کی سیکیورٹی اور پرائیویسی کی ایڈوانس ضمانت لیجیے اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے ۔

بچے کا جذباتی اور نفسیاتی استحصال ایک ,, Click,, کے حوالے مت کریں ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں