استانی اور طالبات گپ شپ کرتے ہوئے

تعلیم و تربیت کا پرانا نظام بحال کرنے کی ضرورت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین

کسی زمانے میں اسکولوں کا ایسا رسمی تصور نہیں تھا جیسا موجودہ زمانے میں نظر آتا ہے ۔

اس کے بجائے ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت ایسے گھر ہر محلے کی سطح پر ہوتے تھے جہاں ایسی بزرگ یا سمجھ دار خواتین موجود ہوتی تھیں کہ جو پاس پڑوس کی بچیوں کی معلمہ ہوتی تھیں , ان کے گھر تعلیمی و تربیتی مراکز ہوتے تھے . یہ خواتین بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بنیادی تمام تر ضروریات پوری کرتی تھیں حتی کہ گھرداری تک سکھایا کرتی تھیں ۔ اس کا ذکر ہمیں اس وقت کی تمام تحریروں سے بھی ملتا ہے ۔اپنے بزرگوں کی گفتگو سے بھی ملتا ہے ۔

اسی طرح پہلے زمانے کے بادشاہ اپنے شہزادوں اور خصوصا ولی عہد کی تعلیم و تربیت کے لئےایک خاص استاد جس کو اتالیق کا نام دیا جاتا تھا ، رکھتے تھے جو کہ ولی عہد کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار ہوتا تھا اور مستقبل کے بادشاہ کو ہر اس علم و ہنر سے لیس کرتا تھا جس کی ایک ریاست کے حاکم کو ضرورت پڑتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان دونوں طریقوں میں کمی بیشی اور کچھ مسائل کے باوجود وہ مسائل نہ تھے جو اسکولوں کی وجہ سے رونما ہوئے ۔

لیکن اب اپنے گھروں کو تعلیمی و تربیتی مراکز بنانے کا تصور اور یہ سب کوششیں ہمارے لئے ایک ناممکن تصور بن چکا ہے ۔۔۔۔۔۔

۔جب کہ اب ہر گھر میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈگری یافتہ فرد موجود ہے ۔

اپنی بے کاری اور صلاحیت کے ضیاع کا رونا رونے والے بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔

گھروں سے بہت دور تک نکل کر معاش کی ذمہ داری پورا نہ کرسکنے والی خواتین بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔

یعنی بہت سے اچھے خاصے پڑھے لکھے سمجھ دار لوگ آپ کے پاس پڑوس میں ہی ہوں گے لیکن ان کے گھر تعلیم و تربیت کے مراکز نہیں بن سکتے ۔۔۔۔۔۔و جہ ؟ اس پر خود سوچیں تو آپ مسئلے کی تہہ تک پہنچ جائیں گے ۔

ہم نے بچوں کو اسکولوں میں داخل کروانے کے بعد تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری فیس کی ادائیگی کے عوض بیچ دی ہے ۔

کیسے پڑھانا ہے کیسے نہیں ؟ آپ کا بچہ کیوں پیچھے ہے ؟ ۔۔۔۔آپ جلتے کڑھتے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ آنسو بہاتے رہیں گے اور صلواتیں سناتے رہیں گے لیکن اسکول کے محتاج رہیں گے ۔۔۔۔۔۔

بات سمجھنے کی یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کے مراکز ہمارے گھر ہیں ۔ان کو سدھاریے ، اس پر محنت کیجیے ، اپنے آپ کو ٹھیک کیجیے ۔۔۔۔۔گھروں سے دور رکھنے کے لئے بچوں کو اسکول داخل نہ کروائیے ۔

۔ہمارے خیال سے تھوڑی سی ہمت اور محنت کر کے والدین اور اساتذہ تعلیم و تربیت کے نظام کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لے کر بہترین نتائج برآمد کرسکتے ہیں ۔

اپنی بچیوں کے لئے ابھی سے یہ سوچ رکھیں کہ
ان کو لازمی طور پر بچوں کی ابتدائی تعلیم کے کورسس کرنے چاہئیں جو بچوں سے متعلق ان کی نفسیات ، دماغ نشوونما ، اس کے مدارج اور تعلیم کے طریقے کار پر مشتمل ہوں ۔۔۔۔۔ یہ ان کی بطور ماں پوری نسل کی تعلیم کے حوالے سے ایک بڑی قیمتی انویسٹمنٹ ہوتی ہے جو کہ آپ کی نسلوں کے کام آتی ہے ۔۔۔ اس پر ضرور پیسہ خرچ کریں گھر بیٹھے قومی اداروں سے یا بین الاقوامی اداروں سے کہیں سے بھی کوئی آن لائن یا آف لائن تربیتی ڈپلومہ ۔۔۔۔۔سرٹیفیکٹ ۔۔۔۔۔۔یا ڈگری پروگرام میں داخلہ لیں اور تدریس کے ہنر سے خود کو لیس کریں ۔۔۔۔۔واقفیت حاصل کریں کہ پڑھانے کے طور طریقے اور انداز کیا ہوتے ہیں ۔۔

اس کے دو فائدے ہوں گے ایک یہ کہ بحیثیت ماں آپ خود بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہوسکیں گی کسی پر انحصار نہیں کریں گی۔

دوسرا یہ کہ محلے کی سطح پر ہوم اسکولرز کو تعلیمی حوالوں سے اپنی خدمات کچھ وقت کے لئے فراہم کر کے ایک بہت بڑی خدمت میں حصہ لے سکیں گی ۔

محلے کی سطح پر ایسے اتالیق قسم کے اساتذہ موجود ہوں کہ جو ہر محلے کے کچھ بچوں کے گروپس کو گھر پر تعلیمی تربیتی سرگرمیاں کروا کر ہوم اسکولرز مائوں کا تعلیمی دبائو کم کرسکتی ہیں تو یہ ایک کمیونٹی بیسڈ لرننگ ایکٹیویٹی میں شمار ہو جائے گا اور اس کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے بے کار گلی محلے کے استحصالی اسکول تو فورا بند ہونے کی پوزیشن میں آجائیں گے جن کا کام سوائے انسان کی بربادی کے کچھ نہیں چاہے وہ اساتذہ کی صورت ان کا استحصال کر کے ہو یا طالب علم کی صورت ان کو کرگس بنانے کا ہو ۔

کیا کہیں کوئی محلے کی سطح میں ہم خیال ایک جیسے ماحول کے چند ہی بچوں کو لے کر لائبریری ۔۔۔۔ یا بچوں کی کوئی سرگرمی ۔۔۔۔ کچھ گھٹنوں کے لئے ہی کوئی کھیل کود پارک ۔۔۔۔۔گھروں کے انڈور گیمز ۔۔۔۔ کچھ بھی فونکس ۔۔۔۔اور مختلف مضامین کی دلچسپ سرگرمیاں ۔۔۔کسی بچے کو کسی مضمون کی مہارت دلانے کی کوشش ۔۔۔۔ٹیوشن کے مروجہ تصور سے ہٹ کر۔۔۔۔۔کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔۔کرنے کو بہت کچھ ہے ۔۔۔۔۔صرف سوچنے کی بات ہے ۔۔۔
ہم ایسا کیوں نہیں سوچتے ؟ ایسا کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “تعلیم و تربیت کا پرانا نظام بحال کرنے کی ضرورت”

  1. Muhammad Hanif Muhammad Avatar
    Muhammad Hanif Muhammad

    بہت اچھی تجاویز ہیں اور ان پر عمل کر کے اچھے نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ان پر عمل درآمد کے لئے مثبت ذہن کے باصلاحیت افراد درکار ہوں گے۔
    سوال یہ ہے کہ
    Who will initiate this process and how will it be initiated