عمران خان لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے

تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا چوتھا دن ، عمران خان کا موقف بدل چکا ہے ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان / عبید اللہ عابد

تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو آج چوتھا روز ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اٹھائیس اکتوبر بروز جمعہ لبرٹی چوک لاہور سے نکلے تھے ، کل تیس اکتوبر بروز اتوار ، لانگ مارچ کو گوجرانوالہ پہنچنا تھا لیکن کامونکی کے قریب لانگ مارج کی کوریج کرنے والی ایک پینتیس سالہ رپورٹر ( ٹی وی چینل فائیو ) صدف نعیم عمران خان کے کنٹینر کے نیچے آکر شہید ہوگئیں ۔ عمران خان نے اس حادثہ کے فورا بعد لانگ مارچ کے کل کے سفر کو وہیں پر ختم کردیا۔

یہ ایک نہایت دلخراش واقعہ تھا ۔ صدف نعیم کا چینل فائیو جیسے ٹیلی ویژن چینل کے ساتھ جاب کرنا ساری کہانی بیان کردیتا ہے ، میڈیا میں مندی کے ان دنوں میں کوئی صحافی بہت مجبور ہوکر ہی چینل فائیو جیسے ادارے سے وابستگی قبول کرتا ہے ۔ ایسے اداروں میں صحافیوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے ، وہ ناقابل بیان ہے۔

گزشتہ روز ایک خبر گشت کر رہی تھی کہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان کسی سطح پر رابطہ ہوا ہے۔ کم از کم اس بات کی تصدیق خود عمران خان نے کی کہ وہ لانگ مارچ چھوڑ کر لاہور پہنچے ۔ تاہم اس سوال کا جواب مختلف جگہوں سے مختلف مل رہا ہے کہ وہ کیوں لاہور پہنچے ۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وہ مقررہ مقام سے بہت پہلے ہی لانگ مارچ ختم کرکے لاہور صرف آرام کے لئے پہنچے۔ تاہم تحریک انصاف کے لوگوں نے جان بوجھ کر تاثر دیا کہ لاہور میں بیک ڈور چینل پر مذاکرات ہو رہے ہیں ، حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ لانگ مارچ کے پہلے روز جس انداز میں عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی کو پکارا ، اس کے بعد بیک ڈور چینل بات چیت کا کوئی امکان تھا تو وہ بھی ختم ہوگیا تھا ۔ میرا خیال ہے کہ یہ امکان ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی نیوز کانفرنس سے پہلے ہی ختم ہوگیا تھا۔

جیو نیوز کے سینئر رپورٹر رئیس انصاری کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دنوں میں وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور راولپنڈی اسلام آباد کی اہم شخصیات کی ملاقات ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے ایک صحافی کے سوال پر جواب دیا کہ ہر لانگ مارچ میں مذاکرات بیک ڈور ہی ہوتے ہیں اور بیک ڈور مذاکرات اب بھی ہورہے ہیں ۔ چودھری پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ عمران خان وہاں سے مذاکرات کر رہے ہیں جہاں باتیں طے ہوتی ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کی کسی کمیٹی سے مذاکرات نہیں کر رہے ہیں ۔

اس سے پہلے تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں ، دوسری طرف وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے ایک ٹوئٹر سپیس پر تحریک انصاف کو حکومتی قائدین سے رابطہ کر کے بلا مشروط مذاکرات شروع کرنے کا کہا تھا۔

تاہم وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے عمران خان کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا۔ انھوں نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مذاکرات سڑکوں پر نہیں ہو سکتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کوئی مذاکراتی کمیٹی تشکیل نہیں دی ہے۔

گزشتہ روز وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی لاہور میں تھے۔ انھوں نے وی لاگرز سے ایک ملاقات کے دوران انکشاف کیا کہ عمران خان نے ایک ماہ پہلے مشترکہ کاروباری دوست کے ذریعے رابطہ کیا تھا اور مذاکرات کی پیشکش کی تھی . وہ دو معاملات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنا چاہتے تھے۔

شہباز شریف نے کہا کہ پہلا معاملہ آرمی چیف کی تقرری کا اور دوسرا انتخابات کی تاریخ دینے کا تھا لیکن میں نے انکار کر دیا , تاہم انھیں میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت پر بات کرنے کی پیشکش کی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کہا کہ تین نام میں بھجواتا ہوں اور تین آپ دیں، آپ میں مل کر آرمی چیف کی تعیناتی طے کر لیتے ہیں، میں نے انکار کردیا اور پیغام بھجوایا کہ یہ ایک آئینی فریضہ ہے اور آئین یہ صوابدیدی اختیار صرف وزیراعظم کو دیتا ہے۔

شہباز شریف نے کہا میں نے اپنے دوست سے کہا کہ جب عمران خان نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تھی تو کیا مجھ سے مشاورت کی تھی؟ شہباز شریف نے کہا پیغام رسانی والے دوست نے یہ بھی بتایا کہ عمران خان جہاں ڈائیلاگ کرنے کی بات کر رہے تھے تو ساتھ ہی وہ دھمکیاں بھی دے رہے تھے۔

شہباز شریف نے کہا کہ جب عمران خان وزیراعظم ہوتے تھے مجھ سے ہاتھ تک ملانا گوارا نہیں کرتے تھے اور مشاورت تک کرنا پسند نہیں کرتے تھے جو کہ قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرنا آئینی فریضہ ہے۔

ان کے مطابق جب عمران خان انھیں خط لکھتے تھے تو اتنی حقارت کا مظاہرہ کرتے تھے کہ خط پر میرا نام تک نہیں لکھتے تھے جبکہ میں انھیں باقاعدہ جناب وزیراعظم کہہ کر جواب دیتا تھا۔

عمران خان نے گزشتہ روز کنٹینر پر کھڑے ہوکر وزیراعظم شہباز شریف کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف ! میں نے ان سے بات کی، جو آپ کو اشاروں پر چلاتے ہیں۔ میں نے ایک بات کی کہ ملک میں صاف اور شفاف الیکشن کراؤ اور کوئی بات نہیں کی۔ میں بوٹ پالش کرنے والوں سے بات نہیں کرتا، میں نے ان سے بات کی، جن سے ملنے کے لیے آپ گاڑی کی ڈگی میں چپ کر جاتے تھِے ۔ تمھارے پاس ہے کیا جو میں تم سے بات کروں‘۔

آج عمران خان شاید اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انھیں اسٹیبلشمنٹ سے کچھ نہیں ملنے والا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا کہ موجودہ حکمرانوں کا ساتھ دینا ہے، معاف کرنا ہم آپ کے ساتھ نہیں ” ۔ عمران خان کا” کہنا تھا : ’ان چوروں کو بٹھا کر اگر اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے۔۔۔ کیونکہ اب آپ (اسٹیبلشمنٹ) نے فیصلہ کر لیا ہے کہ چوروں کا ساتھ دینا ہے۔۔۔ تو معاف کرنا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ عمران خان نے یہ بات تب کہی جب ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک طویل نیوز کانفرنس کرکے عمران خان کے فوج پر لگائے گئے الزامات کا جواب دیا ۔ اس کے بعد عمران خان نے لاہور میں لانگ مارچ شروع کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی کو ” او ڈی جی آئی ایس آئی ! کان کھول کر سن لو ” جیسے الفاظ سے مخاطب کیا تھا۔تاہم جب لاہور میں لانگ مارچ کے شرکا کی تعداد توقعات سے بہت کم جمع ہوئی تو عمران خان نے اپنے سخت موقف میں نرمی پیدا کرلی۔

انھوں نے گزشتہ روز ” میری اسٹیبلشمنٹ ” کہنا شروع کردیا۔ اسی طرح انھوں نے انتخابات کی تاریخ کا مطالبہ کرنے کے بجائے صرف صاف اور شفاف انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا ، انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہیں چاہتے ۔ حالانکہ عمران خان کا اب تک کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ انھیں واپس لائے ۔ اس مرحلہ پر قریبا تمام تجزیہ نگاروں اور ماہرین کا خیال تھا کہ لانگ مارچ میں شرکا کی کم تعداد نے عمران خان کی پوزیشن کو کمزور کردیا ہے۔

ان کا خیال تھا کہ ہر ایم این اے ، ہر ایم پی اے اور تحریک انصاف کے ٹکٹ کا ہر امیدوار ایک ہزار افراد لے کر لانگ مارچ میں شریک ہوگا تو وہ بیس لاکھ افراد کے ساتھ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوں گے ، ایسے میں مقتدر قوتوں کو ان کی خواہش کے سامنے جھکنا پڑے گا ۔ تاہم اب معاملہ بالکل الٹ ہوچکا ہے۔ نتیجتا اب وہ کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا کہ موجودہ حکمرانوں کا ساتھ دے گی ۔ ایسا ہے تو پھر ٹھیک ہے ، جیسے آپ کی مرضی۔ نہ دو ہمارا ساتھ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں