کشمیری خواتین رو رہی ہیں

کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ : اب کشمیری کیا سوچ رہے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مہناز ناظم

کشمیر میں بھارتی مظالم کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔ قضیہ کشمیر 75 سال پرانا ہے مگر اب تک حل طلب ہے ۔ مظلوم کشمیری اس وقت بین الاقوامی سیاست کی نذر ہوگئے جب بھارت نے 1948 میں انتہائی مکاری سے اقوام متحدہ میں جاکر جنگ بندی کرا دی مگر اس کے بعد رائے شماری کرانے کے وعدے سے مکر گیا اور بالآخر 5 اگست 2019 میں غیر قانونی اقدام کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیر کو اپنے اندرضم کر لیا ۔ کشمیری عوام نے کبھی بھارت کو تسلیم نہیں کیا۔

کشمیری عوام اب تک اپنی جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں ، ان کی محبت اور لگاؤ ، ان کا جینا مرنا اور غمی خوشی پاکستان کے ساتھ ہے ۔ بحیثیت مسلمان وہ بھارت کا تسلط قبول نہیں کر سکتے۔

بھارت نے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے مگر کشمیری عوام آج تک قربانیاں دے رہے ہیں اور وہ اس آس پر جی رہے ہیں کہ ایک دن وہ بھارت کے ظلم سے نجات حاصل کر لیں گے۔

جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت نے جبر کا ہر حربہ آزما ڈالا مگر تحریک آزادی کو ختم کرنے میں ناکام رہا ، آخر کار بھارتی حکومت نے تحریک آزادی کی علم بردار تنظیموں پر پابندی عائد کر دی اور مقبول کشمیری رہنماؤں کو نظر بند کرنے اور جیلوں میں ڈالنے کا سلسلہ شروع کردیا۔

مشہور کشمیری رہنما سید علی گیلانی نظر بندی کے عالم میں وفات پا گئے تو کشمیری قوم کو ان کے جنازے میں شرکت کی بھی اجازت نہ دی گئی اور رات کے اندھیرے میں فورسز کے پہرےمیں ان کی تدفین کروادی گئی تاکہ وہ جو جدوجہد آزادی کا نشان تھے عوام کے لئے نئی تحریک کا سبب نہ بن جائیں۔

مشہور کشمیری رہنما یاسین ملک جن کی پوری زندگی جدوجہد آزادی سے عبارت ہے ، بھارتی حکومت کی قید میں ہیں۔ بیمار ہونے کے باوجود نہ انہیں مناسب طبی سہولتیں دی گئیں نہ ان کو رہا کیا گیا ۔ اس کے علاوہ بھارتی حکومت نے فورسز کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ یو اے پی اے اور پی ایس اے کے کالے قوانین کی بنیاد پر بغیر وجہ بتائے کسی بھی صحافی ، عوامی رہنما یا عام شہری کو گرفتار کرکے سزا دے سکتے ہیں ، اس کے لئے وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہورہی ہے اس کے کھلے ثبوت موجود ہیں ۔ عوام پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے ، کشمیری عوام کو ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، انسداد تجاوزات کے نام پر نئے قوانین کا اجراء کرکے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر کے حکومت کشمیر کی زمین پر قبضہ کر رہی ہےاور اسے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہے۔

ریاست جموں و کشمیر میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کے لئے رہائشی کالونیوں کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو بین الاقوامی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔ ریاست جموں و کشمیر میں ولنگ ڈیفنس گارڈز کے نام سے ایک مسلح دہشت گرد گروپ بنایا گیا ہے اس گروپ کے لیے تربیتی کیمپ لگایا گیا ہے ، جہاں بھارتی فوج ان کی تربیت کر رہی ہے ۔

ان تمام اقدامات کا مقصد کشمیری عوام میں دہشت پھیلا کر اور انہیں خوفزدہ کر کے ان کے جذبہ حریت کو ختم کرنا ہے، اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کی زمین پر قبضہ کرنا اور مسلمانوں کی نسل کشی کے ذریعے مسلم آبادی کو کم کرنا بھارتی حکومت کے اہم منصوبوں میں شامل ہیں۔

یہ وہی طریقہ ہے جو اسرائیل نے فلسطین کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ کشمیری عوام پر بھارتی ظلم و ستم کے باوجود کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی ماند نہیں پڑی ، عوام کے احتجاجی مظاہرے معمول کا حصہ ہیں۔

گزشتہ دنوں ضلع راجوڑی میں کشمیری رہنما غلام رسول کا یوم شہادت منایا گیا ہے جنھیں جنوری 1996 کو فورسز نے ان کے ساتھیوں کے ساتھ شہید کردیا تھا ۔ آزادی پسند تحریکوں نے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا اور شہداء کے مقصد کے حصول کی تکمیل تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عہد کیا۔

کل جماعتی حریت کانفرنس نے "گاؤ کدل قتل عام” کی برسی کے موقع پر ہڑتال کی کال دی ۔ جنوری1990 کو ہونے والےاس قتل عام میں بھارتی فورسز نے 52 کشمیریوں کو شہید اور 250 کشمیریوں کو زخمی کردیا تھا۔

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیری پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ پاکستان کے عوام کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اول روز سے جدوجہد آزادی میں شریک رہے ہیں ۔ 5 فروری کو علامتی طور پر یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے ۔ ملک بھر میں عوام کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ یکجہتی کے اظہار کے مظاہرے کرتے ہیں ۔سیمینار ہوتے ہیں اور اقوام متحدہ کو یادداشت پیش کی جاتی ہے تاکہ اقوام عالم کی توجہ مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف دلائی جا سکے۔

عالمی سطح پر کوشش کی جاتی ہے کہ ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے آواز اٹھائی جائے اور بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دے ، اس کے باوجود بھارت اپنی روش پر قائم ہے اور مقبوضہ کشمیر میں مسلسل ظلم وستم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے لہذا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت سے اپنی قراردادوں پر عمل کروانے کے لیے بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلائے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر بھارت کو سزا دینے کے لیے اس پر پابندیاں لگائی جائیں اور اسے مجبور کیا جائے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے اور کشمیر میں رائے شماری کرائے۔

یہ حکومت پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے مناسب فیصلے کرے اور عالمی سطح پر دوست ممالک کو اپنے ساتھ ملاکر بھارت کو مجبور کرے کہ وہ کشمیریوں پر ظلم وستم بند کر کےانہیں ان کا حق خود ارادیت دے۔

کشمیر پربھارت کا غاصبانہ قبضہ مسئلہ کشمیر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ بھارت کشمیری عوام پر تشدد اور ان کی بنیادی سیاسی ، معاشی اور اقتصادی حقوق چھین کر ان کاجذبہ حریت دبانا چاہتا ہے۔

نت نئے قوانین کے نفاذ اور فوج کو لامحدود اختیارات دے کر بھارتی حکومت سمجھتی ہے کہ کشمیری عوام کابنیادی حق چھین لے گی۔ حریت پسند رہنماؤں کی نظر بندی اور گرفتاریوں کے ذریعےبھارتی حکومت چاہتی ہے کہ قضیہ کشمیر کے تمام راستوں کو بند کر دیا جائے گا مگر کشمیری عوام ان حالات میں بھی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں وہ ان 96 ہزار شہداء کے خون سے کیسے منہ موڑ سکتے ہیں جنہیں وہ آزادی کی راہ میں میں قربان کر چکے ہیں۔

کشمیری اپنے شہداء کے مقصد کو کبھی فراموش نہیں کریں گے اور ایک دن آئے گا جب کشمیری اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوں گے اور بھارتی تسلط سے نجات حاصل کر کے پاکستان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں