ولادی میر پوٹن اور پریگوزن

بیلا روس کی ثالثی: روس اور باغی جنگجو گروہ میں معاہدہ ہوگیا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

روسی میں جیلوں کے سابق قیدیوں پر مشتمل باغی فورسز کے سربراہ نے ہفتے کے روز اعلان کیا ہے کہ ان کے نجی گروپ ویگنر کے جنگجوؤں نے مزید خونریزی سے گریز کے لیے ماسکو کی جانب پیش قدمی روک دی ہے اور وہ اپنے عسکری اڈوں کی جانب واپس جا رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ویگنر جنگجوؤں کی سلامتی کی ضمانت کی شرط پر مزید پیش قدمی روکنے کا معاہدہ بیلاروسی صدر الیکسینڈر لوکاشینکو کی ثالثی میں کیا گیا ہے۔ معاہدے کے مطابق باغی گروہ کے سربراہ پریگوزن کو بیلاروس میں پناہ دی جائے گا۔ معاہدے کے فورا بعد پر پریگوزن بیلاروس پہنچا دیے گئے۔ معاہدے میں طے پایا ہے کہ کسی باغی جنگجو پر کسی بھی قسم کا کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جائے گا۔

اس سے قبل ویگنر گروپ کی نجی فوج کے جنگجوؤں نے ماسکو کی جانب پیش قدمی جاری رکھی تھی اور راستے میں دارالحکومت سے گیارہ سو کلومیٹر دور شہر روستوف پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔ پوٹن کے سابقہ حلیف یوگینی پریگوزن کی قیادت میں ہونے والی اس بغاوت کو پوٹن کے 23سالہ دور اقتدار کا سب سے کڑا امتحان سمجھا جا رہا ہے۔

ایک آڈیو پیغام میں پریگوزن نے اعلان کیا کہ ان کے جنگجو کسی خونریزی سے بچنے کے لیے واپس اپنے اڈوں کی جانب روانہ ہو رہے ہیں۔

قبل ازیں کریملن سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اعلان کیا تھا کہ روس کی سالمیت خطرے میں ہے۔

واضح رہے کہ یوکرین کے خلاف لڑنے والے روسی جنگجو دستے نے فوجی قیادت کیخلاف بغاوت کردی تھی۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق یوکرین جنگ میں روس کی حمایت میں لڑنے والے پرائیوٹ جنجگوؤں کے دستے ویگنر نے فوجی قیادت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے آخری حد تک جانے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ روسی صدر ولادی میر پوٹن نے بغاوت کو اپنے لیے بڑا دھچکا قرار دیا تھا۔

صدر پوٹن کہاں ہیں؟

روسی صدر کے ترجمان دیمتری پسکوف کا کہنا ہے کہ صدر ولادی میر پوٹن کریملن ہی میں ہیں اور معمول کی سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں۔

روس میں انسداد دہشت گردی حکومت قائم

پرائیویٹ جنگجو گروہ ویگنر کی روسی فوجی قیادت کے خلاف بغاوت کے بعد روسی صدر ولادی میری پوٹن نے ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کرتے ہوئے ‘انسداد دہشت گردی حکومت’ قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف باغی ‘ جنگجو گروہ نے روسی شہر ‘ روستوو’ پر قبضہ کا دعویٰ کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر جاری ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ باغی جگجو شہر میں گشت کر رہے ہیں۔

روسی دارالحکومت ماسکو کے میئر نے اعلان کیا ہے کہ شہر میں دہشت گردی کی بیخ کنی کے اقدامات کا نفاذ کیا جا رہا ہے اور مختلف مقامات پر چیک پوائنٹس قائم کیے جا رہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے وابستہ صحافی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ روسی جنگی ہیلی کاپٹروں نے وینگر کے کانوائے پر فائرنگ کی ہے جب وہ روسی دارالحکومت ماسکو کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا۔ ذرائع کے مطابق کانوائے ماسکو کی طرف آدھے زیادہ فاصلہ طے کرچکا ہے۔

روسی وزارت دفاع برائی ہے: باغی جنگجو گروہ

ویگنر گروپ کے بانی یوگینی پریگوزن نے روسی وزارت دفاع کو برائی قراردیتے ہوئے کہا کہ روس کی وزارت دفاع اپنے ہی فوجیوں کو مارنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ مبینہ میزائل حملے میں ویگنر فوجیوں کی ہلاکت میں روسی وزارت دفاع کا ہاتھ ہے۔

گروپ کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ روسی وزیردفاع کو ہٹانے کیلئے جنگجو یوکرین سے روس روانہ کردیے ہیں۔ اب جو راستے میں آئے گا اسے تباہ کر دیا جائے گا۔

فوجی گروپ کی بغاوت بڑا دھچکا: روسی صدر پوٹن

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے فوجی گروپ کی بغاوت کو بڑا دھچکا قرار دے دیا۔

روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے قوم کے لیے مختصر ریکارڈڈ خطاب میں کہا کہ ہم بغاوت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ اندورنی بغاوت بڑا دھچکا ہے۔روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ بغاوت کو کچلنے کے لیے سخت ترین اقدامات کیے جائیں گے۔ ماسکو اور دیگر شہروں میں سیکورٹی سخت کردی گئی ہے۔ روسی شہر روستوف کی صورتحال ’ پیچیدہ ‘ ہے۔

صدر پیوٹن کا مزید کہنا تھا کہ اس حملے کو ناکام بنانے کے لیے ہرممکن اقدام کررہا ہوں۔ فوجی بغاوت پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ بغاوت کرنے والوں نے روس کے ساتھ غداری کی ہے۔ اس بغاوت میں شامل لوگوں پر روز دیتا ہوں کہ وہ ہتھیار پھینک دیں۔

دوسری جانب بغاوت کرنے والے فوجی گروپ کے سربراہ نے روستوف سمیت روس کے متعدد شہروں پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روس کے وزیر دفاع کو ہٹانے کے لیے جنگجو روانہ کردئیے گئے ہیں۔

ویگنر گروہ کیا ہے؟

ویگنر ایک پیرا ملٹری گروہ ہے، جس کے جنگجووں کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہے۔ اس گروہ کے سربراہ روسی صدر ولادی میر پوٹن کے سابقہ قریبی ساتھی پریگوزن ہیں۔ یہ گروہ قائم کرنے کا مقصد صدر پوٹن کے ایجنڈے کو اآگے بڑھانا تھا۔ 2014 میں پریگوزن کی قیادت مین نجی ملیشیا نے یوکرین اور روس کے درمیان قائم متنازعہ علاقوں میں روس کے لیے جنگ بھی لڑی تھی۔

روسی جیلوں سے مجرمان کو عام معافی دے کر اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ ملک و قوم کے دفاع میں جنگ لڑیں گے۔ ایسے تمام مجرمان کو ویگنر گروہ میں شامل کیا گیا۔

یوکرین کے علاوہ ویگنر پورے افریقہ اور دیگر علاقوں میں سرگرم تھے۔ یہ گروپ ہمیشہ ایسے کام انجام دے رہا تھا جس سے کریملن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔

دی جیمسٹائن فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے سینیئر فیلو ڈاکٹر سرگئی سکھانکن کے مطابق ویگنر گروپ کو دمتری یوٹکن نامی شخص نے بنایا تھا۔

وہ سنہ 2013 تک روسی سپیشل ملٹری سکواڈ میں شامل رہے۔

سکھانکن کہتے ہیں کہ ’ویگنر گروپ میں انھوں نے 35 سے 50 سال کی عمر کے ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جو خاندان یا قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ وہ زیادہ تر چھوٹے شہروں سے آتے تھے اور جن کے پاس ملازمت کے مواقع کم تھے۔ ان میں سے کچھ چیچنیا کے تنازعات میں اور کچھ روس-جارجیائی جنگجوؤں میں شامل تھے۔ انھیں جنگ کا تجربہ تھا، لیکن وہ عام زندگی میں اپنی جگہ نہیں پا سکے۔‘

ویگنر جنگجووں نے بغاوت کیوں ؟

روس کو پریگوزن کی قیادت میں ویگنرز کی مدد سے یوکرین میں کافی کامیابیاں نصیب ہوئیں مثلا ویگنر گروپ یوکرین کے شہر باخموت پر قبضے کے لیے مہینوں تک جاری رہنے والے حملوں میں پیش پیش رہا ہے اور اس گروپ نے بھاری نقصان اٹھانے کےبعد روس کے لیے اس شہر پر قبضہ بھی کیا تھا۔ تاہم بعد ازاں روس وہاں مشکلات کا شکار ہوا۔ جوں جوں جنگ طول پکڑتی جارہی ہے، روسی افواج بے حوصلہ ہو رہی ہیں۔ اور یوکرین میں روس کی ناکامیوں کی باتیں ہونے لگی ہیں۔

پریگوزن کا کہنا ہے کہ یہ روسی فوجی قیادت ہے جس کی وجہ سے روس کو یوکرین میں ناکامی کا سامنا ہے۔ ویگنر گروپ کے سربراہ پریگوزن گزشتہ کئی مہینوں سے فوج کے اعلیٰ افسروں کے ساتھ اقتدار کی کشمکش میں الجھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اعلیٰ روسی قیادت کو مشرقی یوکرین میں اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

پریگوزن نے بار بار روس کی فوجی قیادت پر الزام لگایا ہے کہ وہ ویگنر گروپ کی فتوحات کو اپنی فتوحات کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنی نجی فوج کو مناسب طریقے سے لیس کرنے اور بیوروکریسی کے ساتھ پیشرفت کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔

پریگوزن کون ہے؟

جیسا کہ سطور بالا میں بتایا جاچکا ہے کہ پریگوزن روسی صدر ولادی میر پوٹن کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شامل تھے۔ انھیں 1981 میں ڈکیتی اور قاتلانہ حملے کے الزام میں 12 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ رہائی کے بعد انھوں نے سینٹ پیٹرزبرگ میں ریستوران کھولا۔ انہی دنوں پریگوزن کاتعلق ولادی میر پوٹن سے ہوئی جو ان دنوں وہاں کے ڈپٹی میئر تھے۔ پریگوزن ولادی میر پوٹن کے باورجی بن گئے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں